کراچی کے فولاد سے سیالکوٹ کے ریشم تک …(قسط اوّل)

یہ عنوان ہے‘ کالم نگار کی حالیہ وطن یاترا کا۔ ہوائی جہاز 13 اکتوبر دوپہر کے وقت لندن سے اُڑا اور آدھی رات کو دبئی جا اُترا ‘جو جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔ دل میں ایک بچگانہ خواہش ابھری کہ کتنا اچھا ہو کہ جہاز کو اُترنے کی اجازت نہ ملے اور وہ چند منٹ دبئی کے اُوپر چکر لگاتا رہے تاکہ مجھے ایک بہت خوبصورت اور دلفریب نظارہ دیکھنے کے اور مواقع مل جائیں۔ دوسری ان گنت معصوم خواہشوں کی طرح یہ بھی پوری نہ ہوئی اور جہاز وقت مقررہ سے پانچ منٹ پہلے دبئی کی سرزمین پر اُتر گیا۔ وسط اکتوبر کے باوجود دبئی میں اتنی گرمی تھی کہ میرے لئے حسبِ معمول ساحل ِسمندر پر سیر کرنا مشکل ہو گیا۔ اس کا اندازہ ہوتا تو میں لندن سے اپنی عمر رسیدہ ‘مگر قابلِ اعتبار چھتری ساتھ لے آتا۔ اللہ بھلا کرے میرے دائمی میزبان (شوکت‘ جس کا آبائی وطن ضلع کوٹلی آزاد کشمیر ہے) کا جو سارا دن میری مہمان نوازی کرتا رہا اور مجھے بعد دوپہر ایئر پورٹ چھوڑ آیا۔ دبئی میں اتنا مختصر قیام بے جواز تھا۔ صرف لندن میں بڑھتی ہوئی سردی سے بھاگ کر صحرائی گرمی کی تمازت سے لطف اندوز ہونے کی نعمت ملی۔ کراچی رات نو بجے پہنچا تو پتا چلا کہ یہاں کا درجہ حرارت دبئی سے مختلف نہیں۔اگلا دن جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد صاحب‘عوام دوست ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی صاحب اور ڈاکٹر ابوبکر شیخ صاحب کے حلقۂ فکر و عمل کے اراکین سے ملاقاتوں اور تبادلہ ٔخیال میں گزرا۔ شام کا کھانا جن دوستوں کے ساتھ کھایا اُن میں پروفیسر اقبال شفیق‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ جناب نصرت میرزا‘ جناب میرزا اختیار بیگ ‘ محترمہ ہما بخاری اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی شامل تھیں۔ اس سے اگلی صبح میرے لئے یادگار اور ناقابل فراموش بن گئی۔ StakeholdersGroup کے سربراہ جناب ممریز خان مجھے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی ادارے پاکستان سٹیل مل لے گئے۔ میںوہاں دو گھنٹے رُکا اور سینکڑوں مزدوروں اور انتظامیہ کے ایک اہم رکن سے ملا۔ سٹیل مل ہماری ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ امریکی مخالفت نے ہمیں کئی عشرے اپنی سٹیل مل بنانے کی اجازت نہ دی تو سوویت یونین نے بطور تحفہ دے دی۔ صرف دی نہیں بلکہ بنا کر دی اور ہمارے ہزاروں کارکنوں کو روس میں ضروری فنی تربیت بھی دی۔اس سے بڑا احسان اور کیا ہوسکتا تھا‘ مگر بھلا ہو ہمارے حکمرانوں کا کہ وہ آنے والے سالوں میں امریکی اثر و رسوخ بلکہ بالا دستی اور پھر غلامی کی دلدل میں قدم رکھتے گئے اور اتنی گہرائی میں چلے گئے کہ واپسی کا راستہ بھول گئے۔ فولاد بنانے والی مل وہ بدقسمت صنعتی یونٹ ہے‘ جسے پرویز مشرف کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے‘ کسی بھی قسم کے احتساب سے بے خوف ہو کر‘ جان بوجھ کر تباہ کیا۔ دس برس قبل یہی ادارہ دس ارب روپے کا سالانہ منافع دے رہا تھا‘ مگر اب سٹیل مل ساڑھے تین سال سے بند پڑی ہے۔ یہ پاکستان میں ہمالیہ پہاڑ سے بھی بڑی نالائقی‘ بدترین انتظامیہ اور کرپشن کی سب سے بڑی علامت بن گئی۔ یہ ہمارے لئے مقام عبرت ہے اور لمحۂ فکر یہ بھی۔
سٹیل مل پر اربوں روپے کے مالی بوجھ کی تفصیل کیا ہے؟ 12 ہزار ملازمین کی تین ماہ کی تنخوا ئیں (240 ارب روپے)۔ 3560 ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات (14 ارب)۔ ڈیلروں ‘ مال سپلائی کرنے والوں اور ٹھیکہ داروں کو نو سالوں سے واجب الادا رقم (7 ارب روپے)۔ نیشنل بینک کا قرض اور سود (460 ارب روپے)۔ سوئی سدرن گیس کے بل (26 ارب روپے)۔ سرچارج (30 ارب روپے)۔ 22 اگست2013 کو وفاقی وزارت صنعت وپیداوار نے سٹیل مل کے بحران کو ختم کرنے کے لئے چار حل تجویز کئے: (1)بند کر دینا‘(2) بیچ دینا‘ (3)نجکاری کرنا اور (4) خسارہ سے نکال کر منافع بخش بنانا ۔ جنرل مشرف کے دور کے بعد نام نہاد جمہوری دور آیا تو پاکستان سٹیل مل کا تاریک دور شروع ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار کے پہلے سال ہی اس عظیم قومی اثاثے کا جمع شدہ منافع ختم ہو گیا اور اس کا خسارہ بڑھتا چلا گیا۔پاکستان سٹیل کی تباہی کا ایک پہلو آپ کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ سرکار کے زیر انتظام اس قومی اثاثے کے خلاف سٹیل مل کی انتظامیہ اور وزارت صنعت کبھی بھی مدعی نہیں رہی۔ مل انتظامیہ ہو یا وزارت صنعت‘ دونوں نے کبھی بھی نادہندگان کے خلاف کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے 2013ء میں از خود نوٹس کے فیصلہ میںایف آئی اے کی کارکردگی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے نیب کو ہدایت کی تھی کہ وہ تحقیقات مکمل کر کے کیس عدالت میں پیش کرے اور ہر تین ماہ بعد اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرے۔ پانچ برس گزر چکے ہیں مگرنیب نے نہ تو اپنی تحقیق مکمل کی اور نہ ہی کیس کا چالان پیش کیا۔
اس کالم نگار اور نہ اس کے قارئین کی آنکھوں میں اتنے آنسو ہیں کہ وہ اس عظیم قومی المیہ کی تفصیل لکھ کر اور پڑھ کر بہا سکیں اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکیں۔ ساڑھے تین سال سے بند پڑی مل کے دس ہزار سے زائد مزدوروں کو آج بھی ہر ماہ اُن کی تنخواہ کا ایک حصہ دیا جاتا ہے۔ جس سے ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ دس لاکھ روپے فی گھنٹہ لگایا گیا ہے ۔ اس جوئے خون کے تھم جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔مگر تاریک اُفق پر روشنی کی ایک کرن اُبھری ہے اور وہ ہے ممریز خان ۔ میں نے اس گروپ کے تجویز کردہ قابل عمل اور مثبت منصوبہ کوبڑے غور سے پڑھا ہے اور میں کسی بھی ذہنی تحفظ کے بغیر اس کی پر زور حمایت کرتا ہوں۔ بے حد اختصار سے کام لیتے ہوئے لکھتا ہوں کہ اس منصوبہ کے تین حصے ہیں۔ اوّل: سٹیل مل کی ملکیت اس کے مزدوروں کو دے دی جائے۔ مزدوروں کی انجمن کے اراکین کو نئی کمپنی کے حصہ جات فروخت کر دیئے جائیں۔ دوم: حکومت قابل ترین افراد کو مل چلانے کی ذمہ داری سونپے۔ مل کی انتظامیہ میں پیشہ ور منتظم‘ چارٹرڈ اکائونٹینٹ اور مزدوروں کے نمائندے شامل ہوں۔ سوم: حکومت اس کمپنی کو اتنی مناسب رقم بطور قرض دے کہ ساڑھے تین سال سے بند پڑی مل کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے ۔اگر مذکورہ بالا تجربہ کامیاب ہوا تو پھر کالم نگار جیسے اشتراکی ذہن رکھنے والے لوگوں کا حوصلہ اتنا بڑھے گا کہ وہ سارے کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانے کی تجویز پیش کریںگے۔ (مزدوروں اور محنت کشوں کو اقلیتی حصے یعنی 49 فیصدقانوناً دیئے جائیں)۔یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے کہ آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں‘ ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہماری حالت بہتر بنانے والا راستہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنائیں ۔ دورِ غلامی کی یادگار‘ ٹھیکیداری نظام ختم کر کے محنت کشوں کے جائز حقوق تسلیم کریں۔ اگر ہماری ریاست اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ نہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگا سکتی ہے اور نہ جاگیر داری ختم کر سکتی ہے تو وہ کم از کم یہ تو کر سکتی ہے کہ کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین بے زمین کسانوں اور کاشتکاروں میں تقسیم کردے۔ آج ہم اپنی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں‘ ہماری توجہ اس پر ہونی چاہئے کہ ہماری تربیت کس معیار کی ہے؟ ہمارے ہاتھوں میں ہتھیار کتنے اچھے ہیں؟ ہماری جنگی حکمت عملی کیا ہے۔ 
مندرجہ بالا سطور مکمل ہوئیں تو کالم نگار کو احساس ہوا کہ کالم ختم ہونے کو ہے او ر وہ ابھی کراچی سے لاہور کی طرف روانہ نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ سات بجے کی پرواز پکڑنے کے لئے بھاگم بھاگ چھ بجے ایئر پورٹ پہنچا تو یہ برُی خبر ملی کہ نامعلوم وجوہات کی وجہ سے پی آئی اے نے اپنی پرواز منسوخ کر دی ہے اور اب مجھے گیارہ بجے رات کی پرواز پکڑ کر لاہور نصف شب کے بعد پہنچنا ہوگا۔ اچھا ہوا کہ وہاں مجھے اپنی جانی پہچانی کتابوں کی دُکان نظر آ گئی۔ میں نے فالتو وزن کا پہلو نظر انداز کرتے ہوئے ایک درجن اچھی کتابیں خریدلیں۔ ان کی ورق گردانی کرتے کرتے پانچ گھنٹے گزارے۔ لاہور پہنچا تو دعا مانگی کہ خدا کرے کہ باقی سفر بھی اتنا ہی اچھا گزرے۔ کہانی طویل ہے اور جگہ قلیل۔ سارا قصہ تین قسطوں میں بیان ہوگا۔ کراچی کے فولاد سے لے کر سیالکوٹ کے ریشم تک۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں