کراچی کے فولاد سے سیالکوٹ کے ریشم تک (قسط سوئم)

کراچی ‘ اسلام آباد اور اوکاڑہ کے تذکرے کے بعد اب لاہور کی باری آتی ہے جہاں کالم نگار ایک ہفتہ رہا۔ قیام کا پہلا دن سلونی بخاری کے گھر فاتحہ خوانی اور آخری دن کی شام اپنے پرانے دوست اور ہم جماعت جاوید قیوم کے گھر جا کر دُعائے مغفرت میں صرف ہوئی۔ جاوید سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس یعقوب علی خان کے داماد اور لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس یاورعلی کے برادرِ نسبتی تھے۔ 1957-58 ء میں ہم ایف سی کالج کے (نیلا گنبد لاہور میں) ہوسٹل Ewing Hall میں ایک سال ایک کمرے میں رہے۔ جاوید کے والدِ محترم اُسے اکثر کھانے کی اچھی چیزیں (مثلاً گاجر کا حلوہ) مضافات سے لاہور بھجواتے رہتے اور جاوید کے کمرے میں واپسی تک حلوے سے بھرا برتن آدھا خالی ہو چکا ہوتا۔ دوستی کی دوسری بنیاد مباحثوں میں شرکت کا شوقِ فضول تھا۔ جاوید کو یہ شوق مہنگا پڑنے کی بجائے بہت کام آیا۔ اُس نے مقابلے کے امتحان میں اتنے اچھے نمبر لئے کہ پولیس سروس میں شامل ہو کر انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے سے باعزت ریٹائر ہوا۔ جواِن دنوں کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ کالم نگار چاہتا ہے کہ ان سطور کے توسط سے مسز جاوید قیوم (عائشہ) سے اُن کے مرحوم شوہر کے دُنیا بھر میں بکھرے ہوئے دوستوں اور مداحوں کی طرف سے ایک بار پھر اظہار تعزیت کرے۔ جاوید کی تدفین کا مرحلہ آیا ‘ تو پولیس کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر کی صورت میں اپنے افسر اعلیٰ کو الوداع کہا۔ جاوید کے جو دوست اُسے اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک نہ کرسکے وہ اپنے مرحوم دوست کو اپنے دل میں عزت اور محبت کے جذبات سے الوداعی سلام کہتے ہیں۔ جاوید کی روح تک یہ گارڈ آف آنر بھی پہنچ چکی ہوگی۔ 
لاہور میں میری وکالتی اور دفتری مصروفیات اپنی جگہ مگر اچھا ہوا کہ میرا ایک دیرینہ خواب تکمیل کی طرف ایک قدم اور بڑھا۔ اسلام آباد میں رائو محمد خوشنود صاحب کی صدارت اور نظامت میں ہونے والے مذاکرے کے بعد لاہور میں بھی قومی مجلس مشاورت کا اجلاس ایک ایسا سنگ میل تھا جو چہروں کی بجائے نظام تبدیل کرنے والے ہر عوام دوست اور ترقی پسند شخص کے لئے خوشی کا موجب ہوگا۔ یہ سوچ بچار کی گئی کہ کون سی انقلابی اصلاحات ہمیں موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکال سکتی ہیں ۔ اگر سیاسی جماعتیں فکری طور پر بانجھ اور نظریاتی اعتبار سے بنجر ہو جائیں (جیسے بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہوا) تو پھر جہانِ تازہ کی نمود کے لئے جن افکارِ تازہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی فصل اقتدار کے ایوانوں سے باہر سول سوسائٹی کے زرخیز میدانوں میں اُگتی ہے اور نشوونما پاتی ہے۔پے در پے ناکامیوں کے باوجود کالم نگار پرُ اُمید ہے کہ اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنے کا کٹھن سفر جاری رہے گا۔ جب تک ہم منزل کی طرف بڑھتے جائیں گے ہمارا راستہ طرح طرح کے سنگ ِگراںروکیں گے۔ ایک طرف آبلہ پیمائوں کا قافلہ سخت جان اور دوسری طرف وادیٔ پرُ خار۔
اٹھارویں اور اُنیسویں صدی میں برطانوی اور امریکی فادر مسیحی مذہب کی دنیا بھر میں پرچار اور تبلیغ کے لیے گھروں سے نکلے اور دنیا بھر میں پھیل گئے اور انہوں نے ایک بہت اچھا فیصلہ یہ کیا کہ تبلیغ کے لئے نئے گرجا گھروں کی تعمیر کے ساتھ تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی بنائے جائیں‘ تاکہ خدمتِ خلق کے ذریعے وہ مقامی آبادی کو اپنا ممنون اور احسان مند بنا سکیں۔ ہمارے ملک میں چرچ نے نہ صرف بڑے اعلیٰ معیار کے کانونٹ اور کیتھیڈرل سکول بنائے بلکہ چار جانے پہچانے کالج بھی۔ لاہور میں ایف سی کالج‘ سیالکوٹ میں مرے کالج‘ راولپنڈی میں گورڈن کالج اور پشاور میں ایڈورڈ کالج۔ مرے کالج سیالکوٹ میری مادرِ علمی ہے۔ میں نے وہاں پچاس کی دہائی کے نصف میں بی۔ اے کے امتحان کے لئے تعلیم پائی (اور اگلے برس جناح اسلامیہ کالج میں‘ جہاں سیالکوٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں رفیع الدین مرحوم میرے ہم جماعت تھے۔میں گورنمنٹ کالج لائل پور (آج کے فیصل آباد) سے ہجرت کرکے مرے کالج گیا تو مجھے نہ صرف بہت اچھے اساتذہ (جن میں سکاٹش بھی شامل تھے) سے علم سیکھنے بلکہ بڑے ذہین طلبا اور طالبات کا ہم عصر ہونے کا موقع بھی ملا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد جو چند نام آج بھی حافظے کی سختی پر محفوظ ہیں وہ یہ ہیںخالد حسن‘ فرانسس زیوئیر‘ارشاد حسین کاظمی‘ نوازش علی‘ 
وجاہت لطیف‘ مہدی نقوی (جو گاتے بھی بہت اچھاتھے) ‘وارث میر ‘ افتخار باجوہ اور زمرد ملک۔ مرے کالج کی بنیاد جنوری1857ء میں سکاٹ لینڈ چرچ کے ایک مشنریRev. Hunter نے رکھی‘ جو اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ سیالکوٹ رہنے لگے۔ بدقسمتی سے صرف چند ماہ بعد پہلی جنگِ آزادی کے دوران ہونے والے خونیں فسادات میں اس بے گناہ‘ عبادت گزار اور خدمت پیشہ خاندان کے تینوں افراد قتل کر دیئے گئے۔ یہ المناک آغاز بھی مرے کالج کو معرض وجود میں آنے سے نہ روک سکا۔1868ء میں سیالکوٹ کی' کننک منڈی‘ میں سکاٹش مشن سکول بن گیا جو 1889 ء میں ایک قدم بڑھ کر انٹرمیڈیٹ درجہ تک تعلیم دینے لگا۔ علامہ اقبال 5 مئی1883 ء کو سکاٹش مشن سکول میں داخل ہوئے‘ جہاں اُنہیں اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم مولوی میر حسن جیسا اعلیٰ اُستاد ملا۔ انہوں نے اس سکول اور کالج میں کل 60 برس پڑھایا۔1890 ء میں طلبا کی کل تعداد17 تھی اور اساتذہ صرف تین‘ مولوی میر حسن‘ نرنجمن داس اور ہرنام سنگھ ‘جو مل کر سات مضامین (لسانیات سے لے کر کیمیا اور طبیعات تک) پڑھاتے تھے۔ انیسویں صدی کے آخر میں نہ صرف پنجاب حکومت اور انگریز گورنر بلکہ سردار ثروت سنگھ پوری کوشش کرتے رہے کہ مرے کالج کو لاہور منتقل کر دیا جائے‘ مگر چرچ سکاٹ لینڈ نہ مانا۔ کالج کا رسمی افتتاح 27 اکتوبر1909ء کو ہوا۔ میرے وقت میں Rev. Leslie Scott پرنسپل تھے۔ وہ ڈسکہ میں پیدا ہوئے‘ اُن کے والدِ محترم بھی پادری تھے اور مرے کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے۔ اُن کے بعد یکے بعد دیگرے پروفیسر ٹامس‘ ڈاکٹر خیراللہ اور ڈاکٹر ونسٹ داس پرنسپل بنے‘ جو میرے زمانہ طالب علمی میں میرے بے حد مہربان اساتذہ میں شامل تھے۔ میری معلومات کے مطابق موری گیٹ سیالکوٹ کے ایک قدیم گھرانے(جن کے نام کے آخر میں خان آتا ہے) نے مرے کالج کو اپنی زمین بطور عطیہ دی اور آج اُن کی صرف تین نشانیاں ہیں‘ وہ قبرستان جہاں اس گھرانے کے افراد دفن ہیں اور یہ کالج کے گرجا گھر سے ملحقہ ہے‘ موری گیٹ میں شہزاد پان ہائوس اور ایک وکیل (ایم آئی خان لودھی)۔ کتنا اچھا ہو کہ اہالیان سیالکوٹ مجھے اس گمنام مگرباعث احترام گھرانے کی تاریخ اور اس کے بچ جانے والے چشم و چراغ کے بارے میں بتائیں اور میرا شکریہ قبول کریں۔ مرے کالج میں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض نے تعلیم پائی اور ظہیر عباس نے کرکٹ سیکھ کر عالمی شہرت حاصل کی۔ موجودہ پرنسپل جناب جاوید اختر صاحب ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جو اچھے کام کئے ‘ وہ تو آپ ضرور جانتے ہوں گے مگر آج میں آپ کی توجہ اُن کے سب سے افسوسناک فیصلے کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ 1972 ء میں اُنہوں نے تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کا حکم جاری کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ایک بہت ذہین اور سمجھدار رہنما بھی انتہائی نقصان فیصلہ کر سکتا ہے۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کی کابینہ نے بھی اُن کا کونہ روکا اور ممکن ہے کہ کابینہ نے ہی بھٹو صاحب کو یہ فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا ہو۔ صرف ڈاکٹر مبشر حسن ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا نادر شاہی حکم کی تعمیل میں مرے کالج بھی سکاٹش چرچ کی بجائے سرکاری بابوؤں کی نظامت میں چلا گیا اور1972 ء کے بعد اس کے نام کے ساتھ گورنمنٹ کا اضافہ ہو گیا۔ سرکاری بے تدبیری اور حماقت کی اُس سے زیادہ اچھی مثال اور کیا دی جا سکتی ہے؟
سال ِ رواں میں میرے بوڑھے دل میں ایک نوجوان خواہش اُبھری کہ میں اپنی پرانی مادر علمیِ جا کر پولیٹیکل سائنس پڑھائوں۔ اس شعبہ کے انچارج پروفیسر اقبال رائے سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اور جناب پرنسپل صاحب نے نہ صرف میرے لیکچر کا بہترین انتظام کیا بلکہ اپنے مہمان کا استقبال کرتے ہوئے آنکھیں بچھا دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سیالکوٹ شہر اقبال ہے۔ اقبال نے حلقۂ یاراں کی ترکیب لکھی تو بریشم کی نرمی کے حوالہ سے میں اسے بطور سند استعمال کرتے ہوئے مرے کالج کے اساتذہ طلبا اور طالبات کے' ریشمی‘ استقبال پر اُن کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور اُن کی سلامتی کے لئے دعا گو ہوں۔ جو یادگار سفر فولاد بنانے والے کارخانے سے شروع ہوا وہ محبت کے ریشمی دھاگوں سے بندھے جانے پر ختم ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں