پہلا اچھا فیصلہ

آج کا کالم جناب ہارون الرشید کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا جا رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اُن جیسے عوام دوست اور روشن دماغ دانشورنے قومی اداروں کو بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں نیلام کر دینے کی حمایت کیونکر کی ۔ اگر اُن کی صلاح مان لی گئی تو آنے والے وقت میں مورخ لکھے گا: قومے فروختندو چہ ارزاں فروختند۔یہ کالم نگاراللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور حکومت وقت کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اُس نے بروقت ایک کمال کا فیصلہ کیا۔ بہترین‘ دلیرانہ اور بابرکت فیصلہ۔ سٹیل ملز ‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور دوسرے بہت سے قومی اداروں کو نجی ملکیت میں نہ دینے کا فیصلہ۔ وہ تمام قومی کاروباری ادارے جو کئی سالوں سے بیمار ہوتے ہوتے بستر مرگ تک جا پہنچے ہیں‘ انہیں Privatise کرنے کی بجائے Reviveیعنی نئی زندگی بخشنے اور اُن کے نحیف و نزار اور حد درجہ بیمار جسم میں زندگی کی نئی لہر دوڑانے کا فیصلہ ‘جس کی خوشخبری سن کر کالم نگار کے ذہن میں اقبال ؔکا ایک شعر بجلی کی طرح کوندا جس کا دوسرا مصرع ہے۔ 
اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
پہلے مصرع کو نثر میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ صرف مذکورہ بالا خوبی رکھنے والوں کو زندگی کا سُراغ ملتا ہے۔ حکمت‘ تدبیر‘ عقل اور فہم و فراست کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ تو خشتِ اوّل کا درجہ رکھتی ہیں‘ بنیادوں میں لگائی جانے والی مضبوط‘ پائیدار اور قابلِ اعتبار اینٹوں کی طرح۔ مگر فیصلہ کرنے والوں میں اگر نہ ہمت ہو اور نہ حوصلہ تو وہ بقول اقبال محض کرمِ کتابی اور بندہ ٔتخمین و ظن یعنی دو اور دوچار جمع کرنے والے بابو بن کر رہ جاتے ہیں۔جناب عمران خان کا موازنہ نہ قائداعظم سے کیا جا سکتا ہے اور نہ ٹیپوسلطان سے ‘مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اُن فریب خوردہ شاہینوں میں پل بڑھ کر جوان نہیں ہوئے جو نہ راہ ِو رسمِ شہبازی جانتے ہیں اور نہ جان سکتے ہیں۔ ترکی کے راہنما اردوان کے بعد اسلامی دنیا کے دوسرے قابل صد احترام اور باعث فخر راہنما مہاتیر محمد ہیں۔ 93 برس کے جوان ہمت مہاتیر جو ملائیشیا کے وزیراعظم کے عہدے پر محض اس لئے فائز ہوئے کہ اپنے ملک کو وہاں کی زرداریوں ‘شریفوں (نواز ‘ شہباز اور ان کے اہل عیال) اور اُن کے سینکڑوں حاشیہ نشینوں (وہاں بھی ڈاکٹر عاصم حسین‘ انور مجید‘ حسین لوائی‘ فواد حسن فواد اور احد چیمہ وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں) سے نجات دلا سکیں۔ موجودہ معروضی حالات میں (جو پاکستان کے سکہ بند اور مستند سرپرست امریکہ کی آنکھیں پھیرنے سے پیدا ہوئے ہیں) پاکستان کی سلامتی کے پانچ ستون ہیں‘ مشرق میں ملائیشیا‘ مغرب میں ترکی اور عرب ممالک‘ شمال میں چین اور روس۔ ہمارے بیرونی دوست ہماری جتنی بھی مدد کریں اور ہمیں ہر گرداب میں ڈوبنے سے بار بار بچائیں۔ آخری تجزیہ میں جب تک ہم خود اچھے اور بہادرانہ فیصلے نہیں کرتے ‘ہم ایک گڑھے سے نکل کر دوسرے (اور زیادہ گہرے) گڑھے میں گرتے رہیں گے۔ آسمان ایک اور کھجور کے درختوں کی تعداد بہت زیادہ۔ آسمان سے گرنے والے کسی نہ کسی درخت میں اس طرح اٹک جاتے ہیں کہ انہیں اس عذاب سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ چونکہ آسمان اور زمین دونوں بہت دور ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انگریز کی سو سالہ غلامی (1857-1947ئ) کا طوق اتارنے کے بعد ہم نے بڑی محنت اور ذوق و شوق سے تقریباً 70 سال اپنے آپ کو امریکہ کا (تنخواہ دار) غلام بنانے میں صرف کئے۔ یہ وہی امریکہ ہے‘ جو ہمیں نہ خود سٹیل مل بنانے دیتا تھا اور نہ سوویت یونین سے (بطور تحفہ) لینے دیتا تھا۔ یہ وہی امریکہ ہے جو پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کا اتنا ہی سخت مخالف تھا‘ جتنا بھارت ۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے (9/11 کے بعد) طالبان اور اسامہ بن لادن کے میزبان افغانستان پر جارحانہ حملہ کیا اور وہ جنگ شروع کی جو 17 سال بعد بھی جاری ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے افغانستان پر قابض روسی فوجوں کے خلاف ''جہاد‘‘ میں پاکستان کو اپنا سب سے قریبی حلیف بنایا۔ اسی امریکہ نے پاکستان کے اربابِ اقتدار یعنی مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو خوشحالی کا یہ راستہ دکھایا اور یہ نسخہ بطور تریاق سمجھایا کہ حکومتوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کوئی بھی کاروباری کام کریں یا کوئی صنعت چلائیں۔ کوئی بھی صنعت قومی ملکیت میں نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ذمہ داری اُس ملک کے سرمایہ داروں کو سونپ دینی چاہئے‘کہ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ جب قومی ادارے (نالائقی اور بددیانتی کے مہلک امتزاج کی وجہ سے) گھاٹے کا سودا بن جائیں۔ سالانہ خسارہ کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک جا پہنچے تو پھر آپ نہ آئو دیکھیں نہ تائو‘آناً فاناً اور جلد از جلداولین فرصت میں اس سفید ہاتھی سے جان چھڑائیں۔اگرآپ نے کالج کی تعلیم کے دوران انگریزی کا ایک محاورہ سنا اور پڑھاہو کہ: Don't Sell Your Family Silver تو آپ اسے بے وقت کی راگنی سمجھ کر اپنے دماغ سے اُسی بے لحاظی سے بے دخل کر دیں‘ جس کا مظاہرہ اُردو شاعری میں روایتی محبوب اپنے عشاق کو اپنی محفل سے اُٹھانے میں کرتا آیا ہے۔ چھ ہزار میل کے فاصلے سے کالم نگار کو جو اُڑتی اُڑتی خبریں ملی ہیں ‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نئے سرکاری ادارے (سرمایہ پاکستان کمپنی) کو 195 قومی (Public Sector) کاروباری اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی اور پھر نفع بخش بنانے اور حیات نو بخشنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ملائیشیا اور سنگا پور میں جو کامیاب تجربات کئے گئے ہیں ان سے استفادہ کیا جائے گا۔ سٹیل ملز کی انتظامیہ کو ڈیڑھ ماہ اور پی آئی اے کی انتظامیہ کو دو ماہ دیئے گئے ہیں کہ وہ اس مقررہ وقت میں اپنی تنظیمِ نو کا منصوبہ مرتب کر کے حکومت کے آگے پیش کریں۔ یقینا یہ ایک مناسب قدم تھا جو اُٹھایا گیا‘ مگر وہ انتظامیہ جو گزرے ہوئے25/30 سالوں میں اپنے اداروں کی تباہی و بربادی کے عمل کی یا توخود ذمہ دار ہے یا کسی نہ کسی حد تک شریک ہے‘ اور اُس ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہے جو اُس نے اپنی حد درجہ نالائقی اور بددیانتی سے اپنے اُوپر گرایا ہوا ہے‘حیات نوکا نسخہ تجویز کرے گی تو کیونکر؟ منطقی اعتبار سے گورگن کے لئے اب مسیحا بن جانے کے امکانات صفر یا صفر کے قریب ہیں۔ کالم نگار اپنے قارئین سے معافی کا طلبگار ہے کہ وہ ایک بار پھر وہی لکھے گا جو وہ پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہے کہ موجودہ حکومت اور خصوصاً مذکورہ بالا سرمایہ پاکستان کمیٹی عوام دوست اور روشن دماغ ماہرین معیشت سے مشورہ کرے۔ میرے ذہن میں جو چند نام ہیں وہ میں ایک بار پھر (وعدہ کرتا ہوں کہ آخری بار) لکھنے کی اجازت چاہتا ہوں: ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری‘ ڈاکٹر شاہد کار دار‘ LUMSاور LSE کے اساتذہ ڈاکٹر ارشد امجد ‘ ڈاکٹر منیر احمد اور ڈاکٹر محمد یعقوب (سابق گورنر سٹیٹ بینک)‘شاہد جاوید برکی اور فتح محمد (ورلڈ بینک کے سابق افسران اعلیٰ) ۔مندرجہ بالا ماہرین کی اجتماعی دانش ہمارے معاشی اُفق پر چھائے ہوئے اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کر سکتی ہے۔ معاشیات اور انتظامی سائنس کے مضامین سے مکمل ناواقفیت بھی اس کالم نگار کو آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے سے نہیں روک سکتی۔ میری انکساری اور کم علمی اپنی جگہ مگر میں یہ تجویز پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ سٹیل ملز ہو یا پی آئی اے‘ پاکستان ریلوے یا باقی اتنے ہی بیمار اور خستہ حال 192 قومی کاروباری ادارے۔ ان کے مالکانہ حقوق (Shares یعنی حصص کی صورت میں) ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو بے حد آسان قسطوں پر دے دیئے جائیں۔ 51% حصص کو حکومت خریدلے اور حکومت ہر ادارہ کی انتظامیہ نامزد کرے۔ لائق فائق‘ دیانتدار اور ایماندار انتظامیہ‘ جس میں محنت کشوں کے نمائندے بھی شامل ہوں ۔اگر ایک ادارے میں کام کرنے والوں کو ہی اس کا مالک بنا دیا جائے تو وہ کبھی خسارہ میں نہیں جا سکتا‘ بشرطیکہ اُس کا انتظام اہل اور دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں ہو (جیسا کہ ایک زمانے میں سٹیل ملز کا تھا اور وہ منافع بخش تھی)۔ نئی حکومت نے بہت اچھا فیصلہ کیا‘ اُس پر جناب عمران خان اور جناب اسد عمر کا شکریہ۔ اگر انہیں آنے والے دنوں میں برطانیہ سے بھیجے گئے پھول ملیں تو وہ باآسانی جان لیں گے کہ کس نے بھیجے ہیں۔پہلا اچھا فیصلہ اُس بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے‘ جو ہمارے لئے بارانِ رحمت ہوگی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں