ہمت ، بہادری اور مستقل مزاجی

برطانیہ میں 51سال کے طویل قیام کے بعد مڑ کر دیکھوں تو مجھے اپنے میزبانوں (یعنی دیسی انگریزوں) کے عروج کی وجوہات پر غور کرتے ہوئے اُن کی کونسی صفات سب سے نمایاں نظر آئیں تو وہ ان تین الفاظ میں سمٹ جائیں گی‘ جو آج کے کالم کا عنوان بنے ۔ ایک ہزار سال پر پھیلی ہوئی تاریخ میں اہل برطانیہ (جنہیں میں پیار سے Natives کہتا ہوں)نے ان خوبیوں کا اظہار اتنی بار کیا ہے کہ انہیں ایک کالم تو کجا ایک کتاب میں بھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں اپنے آج کے کالم میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا۔
لندنCity of London اور بتیس Boroughs پر مشتمل ہے۔Borough آکسفرڈ انگریزی اُردو لغات کے صفحہ نمبر156 کے بائیں ہاتھ پر لکھا ہوا ساتواں لفظ ہے‘ مگر بدقسمتی سے وہاں بھی اس کا مناسب اور تسلی بخش ترجمہ نظر نہ آیا۔ اجازت دیجئے کہ میں (انگریزی محاورہ کے مطابق) بیل کو اُس کے دونوں سینگوں سے پکڑ لوں اور مذکورہ بالالفظ کا ترجمہ خود کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ Boroughشہری آبادی کی ایک اکائی یا وحدت ہے‘ جو کئی جڑی ہوئی بستیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ لندن کے وسطی علاقہ (جو کاروباری اداروں اور بینکوں کا عالمی مرکز ہے) کو عرف عام میں City کہتے ہیں اور وہ اپنا بلدیاتی نظام خود چلاتا ہے اور اتنا خود مختار ہے کہ برطانوی بادشاہ بھی لارڈ میئر کی رسمی اجازت کے بغیر اندرون شہر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اب رہا باقی کا شہر تو وہ کل بتیس Boroughs مشتمل ہے ۔میرے قصبے کا نام Elthamہے اور وہ جس Borough میں ہے‘ اُس کا نام Greenwichہے‘ جو دریائے ٹیمز کے دوسرے پار اور جنوب مشرقی لندن میںہے۔ Thames دریا لندن کے وسط میں بہتاہے اور پلوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ میرے گھر کے قریب اس دریا پر کوئی پل نہ ہونے اور ایک زیر آب سُرنگ میںکارکے ذریعے سفر طے کرنا کتنی زحمت اور کوفت کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کار کے سفر سے ہر ممکن پرہیز کرتا ہوں اور ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتا ہوں‘ جو مجھے بڑے آرام سے 25 منٹ کے اندر وسطی لندن پہنچا دیتی ہے۔ اس طرح میں نا صرف ایک زحمت سے بچ جاتا ہوں‘ بلکہ کافی رقم بھی بچا لیتا ہوں‘ جو اچھی کتابیں (جو یہاں باافراط ملتی ہیں) خریدنے کے کام آتی ہے۔ برطانیہ میں 65 برس سے زیادہ عمر والے ہر شخص کو ٹرین اور بس میں مفت سفر کی رعایت دی جاتی ہے‘ اس رعایت کا بزرگ شہری کے مالی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ برطانیہ جیسی فلاحی مملکت میں رہنے والے ہر بچے ‘ بوڑھے‘ جوان کو دنیا کی سب سے اعلیٰ طبی سہولیات بھی مفت مہیا کی جاتی ہیں۔نا صرف طبی سہولیات‘ بلکہ بارہ سال کی عمر تک تعلیم بھی۔ بے روزگاری اوربیماری الائونس کے علاوہ مفت رہائش بھی۔ ان تمام سہولتوں کے باوجود برطانوی آبادی کی اکثریت حکومتِ وقت سے اتنی ناراض رہتی ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں بطور احتجاج حزبِ مخالف کی سیاسی جماعت (یا جماعتوں)کو ووٹ دے کر مسندِ اقتدار پر بٹھا دیتی ہے۔ 
اب ہم واپس چلتے ہیں اپنی غیر معروف بستی Eltham کی طرف۔ چند روز قبل مجھے ایک مقامی سکول (جہاں میری ایک نواسی زیر تعلیم ہے) کی طرف سے دعوت نامہ ملا۔ ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ۔ 180 صفحات کی کتاب کا نام تھا A Boy in the Water۔جس لڑکے کے کارنامے پر لکھی گئی وہ اس سکول کا طالب علم تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مادر علمی کو اپنے ایک بہادر‘باہمت طالب علم پر فخر تھا۔ تقریب کا مقصد سکول میں زیر تعلیم طلبا اور طالبات کے دلوں میں انہی خوبیوں کا جذبہ بیدار کرنا تھا۔ایک انگریزی لفظ کے استعمال کی اجازت دیں اور وہ ہے‘ انہیں Inspire کرنا۔ رودبار انگلستان (English Channel ) اُس سمندر کا نام ہے‘ جو برطانیہ اور سرزمین یورپ خصوصاً فرانس کے درمیان حائل ہے۔ 350 میل لمبا اور اوسطاً30 میل چوڑا سمندر۔ برطانیہ کے ساحلی شہرDover سے لے کر ساحل فرانس تک کم از کم فاصلہ 21 میل ہے‘ جو گزشتہ 143 سالوں میں بہت سے بہادر لوگوں نے تیر کر طے کیا ہے۔ ان تیراکوں میں مذکورہ بالا مقامی سکول کا گیارہ سالہ طالب علم Tom Gregoryبھی شامل تھا۔ یہ کارنامہ 1988ء میں انجام دیا گیا۔
رودبار انگلستان تیر کر عبورکرنے کاکام جان جوکھوں میں ڈالنے والا(کئی بار جان لیوا) یہ سفر پہلی بار برطانوی فوج کے ایک افسرCapt. Mathew Wellsنے اگست1875ء میں21گھنٹے 45 منٹ میں تیر کر طے کیا اور تاریخ میں اپنا نام لکھوایا۔ اس کے بعد کل 1800 لڑکوں اور لڑکیوں‘ مردوں اور عورتوں نے بھی یہ کمال کر دکھایا۔ 1953 ء میں نیوزی لینڈ کے Edmund Hillary اور نیپال کے گورکھا کوہ پیماTenzing نے پہلی بار مائونٹ ایورسٹ سر کی اور اُن کے بعد تقریباً4000افراد کی کوہ پیمائی کی کاوش انہیں مائونٹ ایورسٹ کی بلندی تک لے جا چکی ہے۔اٹلانٹک کا برفانی پانی‘ زیادہ تر ناراض اور اونچی لہریں پیدا کرنے والا سمندر‘ سردی کی وجہ سے انسانی جسم کو سُن کر دینے والا سمندر‘ انسان کی جسمانی مشقت کا ایک کٹھن امتحان‘دس افراد اس کوشش میں ہلاک ہو کر ناکام ہوئے۔ جب جسم اتنے گھنٹے یخ بستہ سمندر میں تیرتا ہے تو وہ تیراک کے پھیپھڑوں کو پانی سے بھر دیتا ہے۔ تیراک کے ساتھ ساتھ جو کشتی چلتی ہے۔ تیراک کو تین سال پہلے اس کی بکنگ کرانی پڑتی ہے۔ گریگوری نے بعد میں بتایا کہ آٹھ سال کی عمر میں محض اپنی بہن کی رفاقت کی خاطر (جس نے تیراکی کے مقامی کلب میں تیرنے کا مشغلہ اپنا لیا تھا) اُس نے بھی تیرنا سیکھ لیا۔ پہلے دو تین سال وہ سوئمنگ پول کو بھی تیر کر عبور نہ کر سکتا تھا‘ مگر بعد میں اُس نے جو سمندری فاصلہ تیر کر طے کیا وہ تیراکی کے 1340تالابوں کے برابر تھا۔ تربیت کے دوران گریگوری بے حد سرد راتوں میں (جب درجہ حرارت صفر سے کئی درجے کم ہوتا تھا) سونے والے کمرے کی کھڑکی کھول کر کمبل کے بغیر سوتا تھا۔آزمائش کا وقت آیا تو گریگوری نے 16 ڈگری کے سمندر میں گیارہ گھنٹے 54 منٹ تیر کر وہ ریکارڈ قائم کر دیا جو آج تک ناقابل شکست ثابت ہوا۔اہل برطانیہ نے جوق در جوق گریگوری کے والدین اور کوچ کو داد دی‘ مگر داد دیجئےChanel Swimmers Assocationکو جس نے اپنے پہلے اجلاس میں رودبار انگلستان کو تیر کر عبور کرنے کے لئے 16 برس کی کم از کم عمر کی پابندی عائد کر دی۔ 
کالم نگار جہاں اور بھی بہت سی خوبیوں سے محروم ہے‘ اُن میں تیرنے کا فن نہ آنا بھی شامل ہے۔ اس خامی کے باوجود میں بحری سفر کا دالددہ ہوں۔ جہاں بھی موقع ملے بحری یا دریائی جہازوں میں سفر کرتا ہوں اور سارا وقت دُعا مانگتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تیراکی کے فن سے میری ناواقفیت کا پردہ رکھ لینا۔ میں حیران ہوں کہ غالبؔ کو غرق ِدریا ہونے کا اتنا شوق کیوں تھا۔ غالبؔ کو یہ بھی خدشہ تھا کہ روایتی اور رواجی موت اُن کی رسوائی کا باعث ہوگی۔ کالم نگار کی طرح اُس کے قارئین کو بھی دُعا مانگنی چاہئے کہ اگر وہ (بقول ِاقبالؔ) چو مرگ آید تبسم برلب اُوست کے بلند معیار پر پورے اُترکر اپنے آپ کو مردِ مومن نہ بھی ثابت کر سکیں تو کم از کم تھرڈ ڈویژن میں ہی پاس ہو جائیں ‘یعنی پرُ سکون اور باعزت وفات کی نعمت سے نوازے جائیں۔ جس طرح ماضی قریب میں وفات پاجانے والے میرے چار بھائی جاوید ‘اسلم ‘نوید اور افضل باجوہ اور چند قریبی دوست فہمیدہ ریاض‘ جاوید قیوم‘ سردار خالد ابراہیم‘ سلونی بخاری‘Lord Eric Avebury (جوبرطانوی پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے 25 سال صدر رہے) اورLord Bernard Weatherill(جو دارالعوام کے 1983ء سے لے کر 1992ء تک سپیکر رہے)۔
کالم شروع ہوا تھاگیارہ سالہ برطانوی لڑکے گریگوری کے ذکر سے مگر ختم ہوگا ہمارے ایک پاکستانی پر جس نے پچاس کی دہائی میں رودبار انگلستان کو تیر کر عبور کیا تھا۔ نام تھا؛ بروجن داس اور تعلق دریائوں کی سرزمین مشرقی پاکستان سے تھا۔ کوئی عجب نہیں کہ ہم آگے چل کر نا صرف ہمت بہادری اور مستقل مزاجی میں انگریزوں کی برابری کر سکیں‘ بلکہ شاید ان سے بھی آگے نکل جائیں۔ اور ستاروں پر کمندیں ڈال سکیں۔یہ ہے وہ توقع ‘جو اقبالؔ نے ہم سے وابستہ کی تھی۔ ہمت‘ بہادری اور مستقل مزاجی کی توقع!۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں