’’باغیوں کے لئے ہدایت نامہ‘‘

بڑی پرُانی بات ہے۔ اُس وقت کالم نگار کی عمر چودہ ‘ پندرہ سال ہوگی اور وہ اُردو میں لکھی ہوئی ہر اُس کتاب کو ذوق و شوق سے پڑھتا تھا ‘جو اُس کے ہاتھ لگتی تھی۔ منشی پریم چندر کے افسانوں سے لے کر حفیظ جالندھری کے شاہ نامہ اسلام تک۔ گھر میں پڑی ہوئی کتابوںکا ذخیرہ ختم ہوا تو میں اپنے دوستوں کے گھروں میں اکا دُکا گرد آلود کتابوں کی طرف متوجہ ہوا۔ رضیہ کا دستر خوان تو میری دلچسپی کا باعث نہ بن سکا‘ مگر دو کتابیں ایسی ملیں کہ انہوں نے میرا دن کا چین اور رات کا آرام درہم برہم کر دیا۔ ایک کا نام تھا بہشتی زیوراور دوسری کا ہدایت نامہ خاوند۔ میں نے ان دونوں میں جو کچھ پڑھا وہ سنسنی خیز اوربابائے اُردو کے الفاظ میں بھک سے اُڑ جانے والے مواد کی طرح تھا۔ ہدایت نامہ کا وہی مطلب ہے ‘جو ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے‘ یعنی پند و نصائح اور مفید مشورے۔ صد افسوس کہ جب کتاب پڑھی تو خاوند بن جانے کی منزل سے کوسوں دور تھا اور جب خاوند بنا تو ہدایت نامہ تک پوری کوشش کے باوجود رسائی نہ ہو سکی۔ ذہنی خلجان بڑھا تو کچھ اور نہ سُوجھا اور کلام اقبالؔ سے رجوع کیا اور اتفاقاً جس شعر پر پہلی نظر پڑی وہ یہ تھا ۔؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیںہے 
کالم نگار کو اس کا یہ مطلب سمجھ آیا کہ اگر نہ کوئی ہدایت نامہ اور کوئی ہدایت کار نظر آئے‘ تو اپنی فطری جبلت پر بھروسہ کرو۔ وہی آپ کے کام آئے گی۔ غالباًاہل پنجاب اس تجربہ کو اپنی زبان میں اللہ توکل کہتے ہیں۔ ہدایت نامے دھرے کے دھرے رہ جائیں تو بے چاری عقل لب بام بیٹھ کر تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ 
اس لمبی اور غیر ضروری تمہید کے بعد اب آج کے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ ماضی قریب میں اتوار کے دن دھوپ نکلی تو میں نے سیر کا قصد کیا۔ چلتے چلتے ایک مقامی کتب خانہ جا پہنچا۔ اندرجھانکا تومیری نظریں جس کتاب پر جم گئیں ‘اُس کا عنوان تھا Rules for Rebels (باغیوں کے لئے ہدایت نامہ)۔304 صفحات کی کتاب Max Abrahms نے لکھی اور آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی۔ پیش لفظ اس چونکا دینے والی سطر سے شروع ہوتا ہے:یہ کتاب ہر باغی اور دہشت گرد کو وہ مفید مشورے دیتی ہے ‘جو اُسے کامیاب بنا سکیں۔ فاضل مصنف Boston Universityمیں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ میرے قارئین اپنی پیشانیوں پر کئی شکن ڈالے سوچ رہے ہوں گے کہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک امریکی پروفیسر دہشت گردوں کو وہ ہدایات اور مشورے دے رہا ہے‘ جن پر عمل کرکے وہ اپنی کامیابی کے امکانات بڑھا سکتے ہیں۔ Max نے مندرجہ ذیل تنظیموں کی کارکردگی اور طریقۂ واردات اور اُس کے سیاسی نتائج کا بغور مطالعہ کیا: داعش ‘ القاعدہ‘ الفتح‘ حماس‘ حزب اللہ‘ کردوں کی تنظیم PKK‘ آئر لینڈ کی IRA اور جنوبی افریقا کی ANC۔Maxنے برس ہا برس مارٹن لوتھر کنگ‘ چے گویرا‘ گاندھی‘ چیئرمین مائو اور نیلسن منڈیلا کی تحریریں اور تقاریر غور سے پڑھیں اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ پرُ تشدد باغیانہ کارروائیوں کی کامیابی کیلئے تین اصولوں کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔اوّل: بے گناہ لوگوں کو کبھی ہلاک نہ کرو۔ دوم: ایک اچھا تنظیمی ڈھانچہ بنائو۔ سوم: جب کام بگڑ جائے تو ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر یہ ثابت کر دیں کہ ناکام ہو جانے والی کارروائی سے آپ کاتعلق نہیں۔ Max نے اپنی کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصہ مذکورہ بالا ایک اصول کی وضاحت کرتا ہے۔مثال کے طور پر مصنف کی تحقیق کے مطابق ‘اگر کسی دہشت گرد کی کارروائیوں سے شہری (اور غیر فوجی) آبادی ہلاک یا زخمی ہونے لگے تو اس کی ناکامی کے امکانات 77 فیصدبڑھ جاتے ہیں۔ داعش نے اس اصول کی خلاف ورزی کی اور سزا پائی۔ داعش نے اگست 2014ء میں ایک امریکی صحافی James Folleyکا سر قلم کر دیا ۔ نتیجہ کیا نکلا؟ جولائی 2017ء تک امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے ہاتھوں داعش کے ساٹھ سے لے کر ستر ہزار تک سپاہیوں کا قتل عام اور داعش کا خاتمہ۔ داعش کا عبرتناک انجام یہ ثابت کرتا ہے کہ شہری آبادی کے خلاف تشدد کے استعمال کا منفی نتیجہ نکلتا ہے اور دہشت گردی اسلامی ریاست کو ہر گز قائم نہیں کر سکتی اور کرے تو قائم نہیں رکھ سکتی۔ ایک محقق نے یہ انکشاف کیا ہے کہ داعش کے جھنڈے تلے لڑنے والوں کی اکثریت کا اسلام کے بارے میں خود اپنا فہم بے حد کمزور تھا۔ ابوبکر البغدادی (داعش کے مقرر کردہ خلیفہ) بھی اُس وقت اسلامیات کے مطالعہ کی طرف متوجہ ہوئے‘جب وہ شعبہ قانون میں داخلہ لینے میں ناکام رہے۔قارئین اُس انگریز نوجوان کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے‘ جس کا اسلامی نام محمدEmwazi تھا (المعروفJihadi John )۔ اُس نے اپنے ہاتھوں سے مغربی ممالک کے صحافیوں اور خیراتی اداروں میں کام کرنے والے رضا کاروں کے سرکاٹے۔ وہ داعش کیلئے عالمی رسوائی کا باعث بنا اور خود نومبر 2015ء میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس کے مقابلے میں لبنان میں سرگرم عمل حزب اللہ بڑی کامیاب رہی‘ جس کا سہرا اس کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ موصوف کی سمجھداری‘ متوازن رویہ‘ سیاسی تدبر‘بالغ النظری اور معاملہ فہمی ان کی بے مثال کامیابی کا راز ہے۔ یہ حزب اللہ کا کمال ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے گروپ سے شروع ہو کر لبنان میں کلیدی سیاسی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ حزب اللہ اپنے ہر ایک رکن کی پورا سال ذہنی تربیت کرتی ہے۔ لبنان کے عوام (جن میں سے نصف عیسائی ہیں) کا تو کیا ذکر‘ حزب اللہ تو اسرائیلی رائے عامہ کا بھی اتنا احترام کرتی ہے کہ 2006ء میں حزب اللہ کے چلائے گئے راکٹوں سے دو اسرائیلی بچے ہلاک ہو گئے ‘تو حسن نصراللہ نے فی الفور صدقِ دل سے ٹیلی ویژن پر ان کے والدین سے معافی مانگی او ریہ بھی کہا کہ اُن کی نظر میں ان دو معصوم بچوں کی موت شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔
Max کی کتاب کا مطلب نا صرف دہشت گرد تنظیموں‘ بلکہ ان کا قلع قمع کرنے والے اداروں کے سربراہوں کے لئے چشم کشا اور بصیرت افروز ثابت ہوگا۔کالم نگار کی خواہش تھی کہ وہ Max کی کتاب کے مندرجات پر تفصیل سے روشنی ڈالے‘ مگر برطانیہ کے سب سے معتبر اخبار (فنانشل ٹائمز) کے 27 نومبرکے ایڈیشن کے دوسرے صفحہ پر شائع ہونے والی خبر نے میری توجہ اپنی طرف اس طرح مبذول کرائی۔ خبر دُور دیس سے آئی ہے۔ جنوبی امریکا کے ملک کا نام ہے میکسیکو۔ خوش قسمتی سے وہاں حالیہ انتخابات میں ایک عوام دوست راہنما کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ان کانام ہےLopez Obrador ۔ وہ الیکشن پانچ ماہ پہلے جیتے‘ مگر مسند اقتدار پر یکم دسمبر کو بیٹھے۔ انہوں نے ایک کمال کا کارنامہ یہ انجام دیا کہ اپنے ملک کے قریباً ایک لاکھ شہریوں سے اپنی تجاویز پر رائے مانگی اور رائے عامہ کے دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کیا (کاش گزرے ہوئے پانچ سال میں تحریک انصاف بڑے انہماک‘ سنجیدگی اور دل جمعی سے اپنا ہوم ورک کر لیتی تو وہ آج ٹامک ٹوئیاں نہ مارتی پھرتی) میکسیکو کی پچھلی حکومت نے 13 ارب ڈالر خرچ کر کے ایک نئے شاندار ایئر پورٹ کا منصوبہ بنایا تھا۔ عوام کی بھاری اکثریت نے اُسے مسترد کر دیا۔ ووٹ دینے والوں میں سے 90 فیصد لوگوں نے جن منصوبوں کے حق میں ووٹ دیئے ہیں‘ وہ نئی ریلوے لائن بچھاکر وہاں ٹرین چلانے‘ جنوبی میکسیکو میں تیل صاف کرنے والا کارخانہ لگانے‘ پنشن اور تعلیمی کفالت میں اضافہ‘دس لاکھ ایکڑ پر شجر کاری۔ نئے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے برس 21 مارچ کو عوام سے پھر رجوع کریں گے‘ تاکہ وہ عوامی رضا کار فوج (نیشنل گارڈ) بنانے اور اپنے پیشرو صدر پر کرپشن کے الزام میں مقدمہ چلانے کی تجاویز پر عوامی ردعمل معلوم کر سکیں۔ میکسیکو خوش نصیب ہے کہ اس کے نئے رہنما نے اس عزم کا بار بار اظہار کیا ہے کہ وہ شراکتی جمہوریت ( Participatory Democracy) پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ اسے اپنے ملک میں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بلدیاتی نظام اور مقامی حکومتوں کا نظام ہمارے سیاسی نظام کی بہت سی خامیوں کو دُور کر دے گا‘ مگر سب سے بڑی خامی کا ابھی تک ہم نے کوئی مؤثر علاج نہیں سوچا کہ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیاںقانون سازی کا بنیادی فریضہ ادا نہیں کر سکتیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ملک میں باغی عناصران دنوں Max کی کتاب غور سے پڑھنے اور دہشت گردی میں کامیابی حاصل کرنے کی ترکیبیں سیکھنے میں مصروف ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں