سات سمندر پار سے آنے والی اچھی خبر…(2)

عنوان ایک اور قسطیں دو۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کیوں؟ جواب حاضر ہے‘ ایک خبر سات سمندر پار سے آئی یعنی بہت دور سے اور پھر وہ تھی بھی اتنی اچھی کہ بقول اقبال جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے۔ دو قسطوں میں بات مکمل ہوجائے تو یہ جانیے کہ کالم نگار نے اختصار سے کام لیا۔ ایک انگریزی محاورہ ذہن میں آیا: Brevity is the Soul of Wit۔ گفتگو ہو یا تحریر‘ اس کی شگفتگی‘ تازگی اور بے ساختہ پن کا راز اختصار میں ہے۔ لفظوں کے استعمال میں احتیاط اور ان کی تعداد کے معاملہ میں کنجوسی کا مظاہرہ کرنا اس دانائی کے زمرہ میں آتا ہے جو شیخ سعدی ؒ اور ان کے دور کے دوسرے تمام بزرگ پسند فرماتے تھے۔
جرائم کی دنیا کی عالمی فہرست بنائی جائے تو میکسیکو یا تو سر فہرست ہوگا یا پہلے دس ممالک میں‘ مگر جو واقعہ ستمبر2014ء میں ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ دارالحکومت (میکسیکو سٹی) سے 115 میل دور جنوب میں Guala نام کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جس میں ٹیڑھے میڑھے نام کا ایک کالج ہے‘Ayotzinapa College ‘ وہاں طلبا اور طالبات کو فنِ تدریس کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آپ بدمعاشوں ‘ دہشت گردوں اور قانون شکن عناصر کی دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیں کہ وہ دن دہاڑے اس کالج پر حملہ کر کے 43 زیر تربیت طلبا و طالبات کو اغوا کر کے لے گئے۔ چار سال اور تین ماہ گزر گئے اور آج تک ان کا نام و نشان نہیں ملا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُن کا کیا حشر ہوا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اغوا ہو جانے والے قتل کر دیئے گئے اور اُن کی لاشوں کو اُسی طرح صفحہ ہستی سے غائب کیا گیا ہوگا‘ جس طرح پچھلے دنوں صحافی خشوگی کو۔ کالم نگار کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ان 43 طلبا اور طالبات کے والدین کے شدید ذہنی کرب کو الفاظ میں بیان کرے۔ نئے صدر اور ہمارے ہیرو Amlo نے اپنی اختتامی تقریر میں اس دل ہلا دینے والے ظلم کی تفتیش کرنے کے لئے اور تمام حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے ایک خصوصی کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور بدترین عذاب میں مبتلا والدین (جو چار سالوں سے خون کے آنسو رو رہے ہیں) کے دلوں پر لگے ہوئے زخموں پر پہلی بار کسی نے مرہم لگائی اور اُن زخموں کے مندمل ہونے کی ابتدائی صورت پیدا ہوئی۔ 
Amlo نے صدر مملکت کا سرکاری ہوائی جہاز (جو امریکی صدر کے ایئر فورس ون کہلانے والے چوٹی کے جیٹ طیارے کا ہم پلہ تھا‘ نیلام کر دینے اور فروخت سے وصول ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ابھی Amlo کی عہد ساز اور تاریخی کامیابی کی خبروں کی سیاہی بھی نہ سوکھی تھی کہ میکسیکو کی پارلیمنٹ کی نوجوان(عمر 32 سال) خاتون رکن کو مسلح غنڈوں نے موٹر وے پر اپنی کار چلاتے اغوا کر لیا۔ ابھی تک پولیس انہیں بازیاب نہیں کر سکی۔ انتخابی مہم کے دوران کل 48 امیدوار قتل کر دیئے گئے۔ اس مذکورہ خاتون کا نام بھی آپ تسلی سے پڑھیں‘ چونکہ وہ آپ کے نام سے دوگنا لمبا ہےNorma Azucena Rodriguez Zamore ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ Amlo کا نام اپنے ملک میں کوئی غیر معمولی نہیں۔ یہ خاتون جس سڑک پر کار چلا رہی تھی وہ جس علاقے سے گزرتی ہے وہ منشیات‘ اسلحہ اور بردہ فروش ٹولوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے ماہ Naupan نامی بستی کا میئر Genaro Negrete Urbano بھی ایک شاہراہ پر کار چلاتے ہوئے اسی طرح اغواکر لیا گیا۔ ایک ہفتہ بعد اس کی گولیوں سے چھلنی لاش اسی سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں ملی۔
ترکی کے طیب اردوان کی زبردست کامیابی کی بنیاد اُس دور میں رکھی گئی جب وہ استنبول کے میئر تھے اور انہوں نے وہاں کمال کر دکھایا۔ اسی طرح میکسیکو کے Amlo میکسیکو سٹی کے پانچ سال میئر رہے۔ انہوں نے شبانہ روز محنت کر کے سینکڑوں کچی بستیاں ختم کر کے غریب لوگوں کو اچھے اور مناسب گھروں میں بسایا‘ضیعف العمر لوگوں کے وظائف لگائے‘ شہری ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنایا‘ہر طرح کی آلودگی ختم کی‘ نئے تعلیمی ادارے اور عجائب گھر بنوائے‘ لاکھوں اُفتاد گانِ خاک کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کئے۔ آج وہی لوگ ان کے دست و بازو بنے اور وہ محنت کشوں کے کندھوں پر سوار ہو کر قصرِ صدارت تک پہنچے۔ اس سے پہلے وہ دو الیکشن ہار چکے تھے‘ مگر ہمارے عمران خان صاحب کی طرح ان کا حوصلہ بلند رہا۔ وہ میدان جنگ میں گرتے اور پھر اُٹھتے اور پھر گرتے اور آخر میں اس طرح اُٹھے کہ صدر بن گئے۔ 
قارئین کی طرح اس کالم نگار کے دل سے اُن کے لئے جو دعائیں نکلتی ہیں وہ کسی ویزا یا ہوائی ٹکٹ کی محتاج نہیں۔ وہ اُس مبارک مقام تک ضرور پہنچ جائیں گی جہاں اُن کی قبولیت کا منفی یا مثبت فیصلہ ہوتا ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اب اہل ِمیکسیکو کے دلوں میں اس مصرع کی گونج سنائی دیتی ہوگی۔ 
؎ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
مندرجہ بالا سطور لکھی جا چکی تھیں کہ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ ان کی اشاعت تک میاں ثاقب نثار صاحب چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔ اب یہ کالم نگار اُن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تو وہ اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے‘اگر ان پر تنقید کرے تو وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اب میرا صحافیانہ فرض ہے کہ میں اپنے قارئین کوبتائوں کہ وہ 26 نومبر کی شام کالم نگار کی مادر علمی Grays Inn تشریف لائے تو میری ان سے ملاقات کیسی رہی اور ان کی تقریر کتنی دلپذیر تھی۔ سولہویں صدی میں بنا ہوا پرُ شکوہ ہال پاکستانی اور انگریز وکلا سے بھرا ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے دیر سے جانے کا یہ فائدہ ہوا کہ صف اوّل میں جگہ مل گئی اور وہ بھی مانچسٹر سے آئی ہوئی خاتون بیرسٹر ظل ہما صاحبہ کے پڑوس میں۔ میاں صاحب تشریف لائے تو ان کی نشست صرف چھ انچ اونچے پلیٹ فارم پر تھی اور وہ بھی میرے عین سامنے (غالباً صدیوں پہلے اونچا پلیٹ فارم بنانے کا رواج نہ تھا)۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اجلاس کے اختتام پر کتنی بے نظمی ہوگی اور کتنی بھگدڑ مچے گی۔ میاں صاحب کی نظر کالم نگار پر پڑی تو میں اپنی نشست سے اٹھا‘ ان سے ہاتھ ملایا‘ اپنا تعارف کرایا‘ انہیں اپنی INN میں خوش آمدید کہا اور صرف پانچ الفاظ پر مشتمل ایک جملہ کہا ''ہمیں آپ پر فخر ہے‘‘۔ میاں صاحب خاموش رہے‘ صرف مسکرائے اور میرا ہاتھ دبایا اور بیٹھ گئے۔ صبر آزما تقاریر کے بعد جب میاں صاحب کی تقریر کی باری آئی تو انہوں نے سادہ الفاظ میں سیدھی سادی باتیں کی‘ جو سامعین کو بہت پسند آئیں اور اس کا اظہار انہوں نے بار بار تالیاں بجا کر کیا۔ میاں صاحب کے ساتھ جو لوگ پاکستان سے آئے تھے وہ نہ آتے تو اچھا ہوتا اور اگر میاں صاحب کے پرُجوش استقبال اور پذیرائی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے تو وہ خاموش رہتے اور کچھ نہ کہتے‘ کم از کم Grays Inn کے بلند و بالا علمی درجے کا احترام کرتے ہوئے۔ میری رائے میں انگریز اس مقولہ کو بلا وجہ نہیں دُہراتے: Fools Rush in Where Angels Fear to tread ۔ میں کھانسی‘ زکام اور بخار کا مریض نہ بھی ہوتا تو میاں صاحب کی باقی تقریبات میں شریک نہ ہوپاتا۔ اگر وہ اپنے دورہ کے پہلے ہی دن Grays Inn تشریف نہ لاتے تو غالباً ایک ملاقات بھی نہ ہوتی۔ میں بوڑھا ضرور ہوں‘ ضعیف ہر گز نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ روانہ لکھ پڑھ سکتا ہوں‘سیرو سیاحت کرتا ہوں اور برطانوی اور پاکستانی عدالتوں میں وکالت بھی۔ کتابیں مرتب کرتاہوں اور دعوتِ تقریر ملے تو ضرور قبول کرتا ہوں۔ لندن سے پچاس میل دور شمال میں ایک نیا شہر آباد ہوا‘ نام ہے Milton Keyne ۔ یہاں کے پاکستانیوں نے ڈیم کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے تقریب کا اہتمام کیا‘ پھر تاج صاحب نے بلایا‘ برمنگھم کے میاں طارق محمود صاحب کا بھلا ہو کہ وہ مجھے وہاں اپنی کار میں لے گئے ۔ شرکا کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب تھی مگر چندہ 20 ہزار پائونڈ سے زیادہ اکٹھا ہوا۔ ہے نا کمال کی بات ! یہ تھی دوسری اچھی خبر جو آپ کو سمندر پار سے ملی۔(ختم )

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں