دو مسافروں کی راہ تمام ہوئی

بڑھاپے کے کئی نقصانات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ہم عصر یا ہم عمر بلکہ کئی بار اپنے سے کم عمر دوستوںکی وفات کا صدمہ دیکھتے اور برداشت کرتے ہیں۔ ماضی قریب (گزرنے والی سہ ماہی) میں میرے تین ہمدمِ دیرینہ اللہ کو پیارے ہوئے۔ فہمیدہ ریاض‘ جاوید قیوم اور سردار خالد ابراہیم۔ ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ وسط دسمبر2018 ء میں رانا اعجاز اور وسط جنوری میں سعید تبسم کی سنائونی آگئی۔ رانا صاحب لاہور میں اورسید تبسم برطانیہ کے ایک شہرBedford میںرہتے تھے۔ رانا اعجاز سے تعارف1975 ء میں ہوا۔ ہم دونوں (ڈاکٹر خالد رانجھا کی سرکردگی میں)بھٹو صاحب کے زیر عتاب سیاسی راہنما مختار رانا کی رہائی کمیٹی کے سرگرم کارکن تھے۔ ہم نے بڑی دوڑ بھاگ کر کے لاہور موچی دروازہ کے باہر جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ مشکل سے چند سو لوگ آئے۔ پولیس کی نفری حاضرین سے بھی زیادہ تھی ؛چونکہ حکومتِ وقت کو بہت بڑے جلسے کے انعقاد کا خطرہ تھا۔ یہ زمانہ بھٹو صاحب کی مقبولیت کے عروج کا تھا۔ یقینا حاضرین کی بڑی تعداد اُن لوگوں پر مشتمل تھی‘ جو چھٹی کے دن فارغ تھے اور وہ یہ تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے کہ پولیس مٹھی بھر 'شرپسندوں‘ کا کیا حشر کرتی ہے؟ ان لوگوں کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا چونکہ ابھی سامعین نے پہلی تقریر بھی نہ سُنی تھی کہ پولیس کا پیمانہ ۔صبر لبریز ہو گیا اور وہ ہم پر ٹوٹ پڑی ۔ اُس دن میں نے یہ غلطی کی کہ اپنی ساتھ اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو بھی جلسہ گاہ لے گیا۔ میں تو حاضرین کی تعداد بڑھانے کے لئے اپنے آٹھ سال سے کم عمر بیٹوں (جن کی تعداد چار تھی ) کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا تھا‘ مگر اُن کی والدہ نے اجازت نہ دی۔ لاٹھی چارج شروع ہوا تو ہم تیزی سے بھاگے ۔ تیز رفتاری کے باوجود لاٹھیوں کی زد میں نہ آنا مشکل تھا مگر خوش قسمتی سے میں اور میرا بیٹا جس دراز قد دوست کے سائے میں دوڑ رہے تھے وہ (مرحوم) رانا اعجاز تھے۔ وہ نہ صرف اپنے حصے کی بلکہ اپنے برطانیہ سے آئے ہوئے ساتھی کے حصے کی بھی لاٹھیوں کا نشانہ بنے‘ مگر کیا مجال کہ پیشانی پر کوئی شکن ابھری ہو۔ وہ سارا وقت مجھے اور تیز دوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے خود برق رفتاری سے جان بچا کر محفوظ مقام تک پہنچ گئے۔ اس دن وہ ایک اور مقام پر بھی جا پہنچے اور وہ میرا دل تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ محبت‘ گرم جوشی‘ احترام اور دوستی کا وہ رشتہ قائم کر لیا جو اُن کی وفات تک قائم رہا۔ ماہ جنوری کی جس نصف شب کو یہ سطور لندن میں لکھی جا رہی ہیں۔ آتش دان میں آگ دہک رہی ہے اور لکھائی پڑھائی کے کمرہ کے باہر برف باری ہو رہی ہے۔ میرے دل میں رانا اعجاز سے 43 سالہ اور سعید تبسم سے اس سے بھی پرانے (یعنی 64 سالہ) رشتہ کی بہت سی یادیں گرد آلود طاقِ نسیاں سے باری باری جاگتی ہیں۔ آنکھیں کھولتی ہیں۔ مسکراتی ہیں اور پھر سو جاتی ہیں۔ 
میں 1955 ء میں مرے کالج میں داخل ہوا تو وہاں اُن طالب علموں اور طالبات سے دوستی ہوئی جو کالم نگار کی طرح درسی کتابوں سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ارشاد حسین کاظمی‘ایم ادیب‘ کلیم اور نسیم‘ مجاہد لودھی‘ نصرت ہاشمی‘ Izzo Massey اور سیدتبسم۔ کالم نگار کی طرح سعید تبسم بھی ساٹھ کی دہائی کے آخر میں برطانیہ آگئے۔ کالم نگار کی طرح انہوں نے بھی برطانیہ میں اپنی زندگی معمول کے برعکس پڑھنے کی بجائے پڑھانے سے شروع کی۔ وہ ریٹائر ہونے تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے۔ خوش لباس‘ خوش شکل اور خوش مزاج۔ ان خوبیوں میں اچھی آواز میں گیت گانا بھی شامل کر لیں۔ بدقسمتی سے سعید تبسم کی زندگی کے آخری سات سال بڑے عذاب میں گزرے۔موذی اور ناقابلِ علاج بیماریوں نے ان کے چہرے سے تبسم کو چھین لیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُن کے بیٹے (راشد) نے کالج میں لیکچرار کی بڑی اچھی ملازمت چھوڑ دی تاکہ وہ ہمہ وقت اپنے بیمار باپ کی خدمت کر سکے۔ خدمت بھی جزوقتی نہیں‘ بلکہ ہمہ وقت‘ سال کے 365 دن اور وہ بھی پانچ سال۔ کمال کر دیا اُس نے۔ آخری دنوں میں سعید کی بے ہوشی نے انہیں اپنے خدمت گزار بیٹے اور اُس کی وفا شعار والدہ کو ایک نظر دیکھ کر اُن کا شکریہ ادا کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔
لاہور میں رانا اعجاز کی آخری آرام گاہ کی ‘بقول اقبالؔ سبزہ نورستہ حفاظت کرے اور آسمان اُن کی لحد پہ شبنم افشانی کرے۔ چھ ہزار میل دور میرے دوسرے دوست کی قبر پر آسمان سے شبنم کی بجائے برف گر رہی ہے اور برف کے اُوپر رکھے پھولوں کو بھی یہ برف ڈھانپتی چلی جا رہی ہے ۔ برطانیہ کی برف ہو یا لاہور کی مٹی۔ وہ پس ماندگان کے دلوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ سعید تبسم اور رانا اعجاز دونوں کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ انہوں نے اپنی محنت اور لیاقت سے ترقی کے مراحل طے کئے۔ رانا اعجاز نے لاہور ہائی کورٹ میں نصف صدی پریکٹس کی اور وہ بھی اپنے راجپوتی خون کی بدولت بڑے دھڑلے سے۔ پاکستان بار کونسل کے نائب صدر بھی بنے ۔2002 سے 2007 ء تک پنجاب کے وزیر قانون بنائے گئے اور یہ ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھائی۔ یہ تنی ہوئی رسی پر چلنے سے بھی زیادہ مشکل اور صبر آزما کام تھا۔ 
جس طرح بلدیہ ٹائون کراچی کی کپڑوں کی فیکٹری میں 275 کارکنوں کے جل کر راکھ ہو جانے‘ سانحہ قصور‘ سانحہ ماڈل ٹائون اور اس سال وسط جنوری میں سانحہ ساہیوال نے ساری قوم کو رنجیدہ اور غم زدہ بنا دیا تھا‘ اسی طرح بارہ برس پہلے مظفر گڑھ میں (جرگہ کے حکم پر) مختاراں مائی کی عصمت دری کی خبر کروڑوں افراد کے لئے زبردست صدمے کا باعث بنی۔ کالم نگارGang Rape کے ایک یا زیادہ ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اُن پر مقدمہ چلانے کی درخواست صدر مشرف سے تو نہیں کر سکتا تھا مگر وہ اپنے ایک پرانے دوست (جو وزیر قانون تھا) کے کانوں تک اپنی فریاد پہنچا سکتا تھا۔میں نے یہی کیا اور رانا اعجاز نے فی الفور میری بات مان لی۔ وہ مظفر گرھ جا کر مختاراں مائی سے خود ملے۔ موقع کے گواہان سے مل کر جو تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی وہ گورنر پنجاب کے سامنے پیش کی اور مجرموں کو سزا دلوانے کی کارروائی میں ذاتی دلچسپی لی۔بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ رانا اعجاز‘ امریکہ جا کر رمزی یوسف کو جیل میں بھی ملے تھے۔ یہ ایک غیر معمولی اور خطرات سے بھرپور کام تھا جو صرف رانا اعجاز جیسا بہادر شخص ہی کر سکتا تھا۔ کالم نگار نے رانا صاحب کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہم ہمدرد امریکی وکلا کے اشتراک سے رمزی کا (بطور وکیلانِ صفائی) قانونی دفاع کریں‘مگر امریکہ کے قانونی حلقوں کے مکمل عدم تعاون کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ رانا اعجاز کے کارناموںمیں دو اہم قانونی اصلاحات کی تجاویز پیش کرنا اور پھر انہیں منظور کروا کے ضابطہ قوانین میں شامل کرانا بھی شامل ہے۔ ان میں سے ایک وَنی کی رسم کو فوجداری جرم قرار دلوانا اور دوسری فیملی لا آرڈیننس میں یہ ترمیم تھی کہ تمام خانگی تنازعات کا فیصلہ دوماہ کے اندر اندر کیا جائے گا۔ 
لاہورہائی کورٹ بار کی لائونج کے جس کونے میں ملک سعید حسن اور رانا اعجاز سالہا سال رونق افروز ہوتے رہے ۔ اب وہ ان دونوں کی غیر حاضری میں پہلے جیسا باغ و بہار ہو تو کیونکر؟ وہ جناب منظور قادر ‘ جناب ایم انور‘ جناب محمود علی قصوری یا ہمارے دور میں ایس ایم ظفر صاحب کے پایۂ کے وکیل نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے اُن بہت کم وکیلوں میں سے ایک تھے جو بین الاقوامی اداروں کی پاکستان میں نمائندگی کرتے تھے اور برطانیہ کی اعلیٰ عدالتوں میں بھی بطور وکیل پیش ہوتے تھے اور کالم نگار کے تحفظات کو غلط ثابت کر تے ہوئے کامیابی حاصل کرتے تھے۔ برطانیہ میں Bedford سے لے کر لاہور تک کی وہ مجلسیں جو یہاں سعید تبسم اور وہاں رانا اعجاز کی وجہ سے آباد تھیں‘اب ویران ہوگئیں۔ بہت سے لوگوں کی طرح میں مزید دو دوستوں سے محروم ہوئے۔ دوا اور مسافروں کی راہ تمام ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں