رحیم یار خان کے سو مزدور

آج میں لندن کے دریائے ٹیمز کے کنارے سیر کر رہا تھا تو مجھے چھ ہزار میل سے شگفتہ پروین کی آواز سنائی دی۔ صد افسوس کہ میرے ہموطنوں نے وطن میں رہنے کے باوجود نہیں سُنی۔ شگفتہ بی بی (آخری لفظ کا میں نے احتراماً اضافہ کیا) نے یہ فریاد کی کہ پو پھوٹتی ہے تو رحیم یار خان کے بیلجیئم چوک میں تقریباً ایک سو مزدور وں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ اس امید پر کہ جن لوگوں کو گھروں میں یا دفتروں میں مرمت یا تعمیری کام کے لئے محنت کشوں (روزانہ اُجرت لے کر مزدوری کا کام کرنے والوں) کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ ہر محنت کش کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے چُنا جائے تاکہ وہ روزی کمائے۔ ظاہر ہے کہ کافی دھکم پیل ہوتی ہے۔ کبھی کبھی معاملہ بگڑ جائے تو ہاتھا پائی کی نوبت آجاتی ہے۔ سڑک کے کنارے سے شروع ہونے والی جسمانی کشمکش سڑک کے درمیان تک پہنچ جائے تو پھر اس سڑک پر چلنے والی ٹریفک (جو صبح کے وقت ضرور معمول سے زیادہ ہوتی ہوگی) رُک جاتی ہے۔ مسافروں کو انتظار کی زحمت ہوتی ہے۔ جب تک مزدوروں کی باہمی دھکم پیل (شگفتہ نے شائستگی سے اس کے لیے Mild Scuffle کے الفاظ استعمال کئے) ختم نہ ہو۔ ٹریفک رکی رہتی ہے اور یہ ایک دو دن کا معاملہ نہیں‘ بلکہ سال کے 365 دنوں کا ہے۔
شگفتہ بی بی نے بڑی معقول تجویز پیش کی ہے۔ اگر حکومت ان محنت کشوں کو ملازمت نہیں دے سکتی تو کم از کم یہ تو کر سکتی ہے کہ اس چوک کے قریب کوئی ڈھنگ کی انتظار گاہ بنا دے جہاں ہر روز ایک سو محنت کش بیٹھ سکیں اور ایک معروف سڑک پر دست و گریبان ہونے کی بجائے اس طرح قطار میں بیٹھیں کہ باری باری آجر کے ساتھ جا سکیں۔ کالم نگار کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ رحیم یار خان کے پولیس سربراہ سے درخواست کرے کہ اگر وہ صرف ایک سپاہی کو مذکورہ بالا مقام پر دو گھنٹوں کے لئے تعینات کر دیا کریں تو بیلجیئم چوک میں روزانہ نقصِ امن کی صورتحال پیدا نہ ہوگی۔ اُمید ہے کہ یہ صاحب میرا اخبار پڑھتے ہوں گے (اور غالباً میرا کالم بھی) اور وہ ایک اچھا مشورہ بلا تامل قبول کر لیں گے۔اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو میں اُنہیں اس کالم میں چھپنے والی سطور پوسٹ کر دوں گا۔ رحیم یار خان میں وکلا کی تعداد ضرور سینکڑوں میں ہوگی‘ کیا انہیں بیلجیئم چوک پر ہر روز ہونے والا ہنگامہ نظر نہیں آتا؟یقینا ہزاروں آنکھیںیہ منظر بیلجیئم چوک میں روزانہ دیکھتی ہیں ۔ نصف صدی قبل میرے پرانے رفیق کار اور نظریاتی دوست جناب مسعود اشعر کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا تو اُس کا نام تھا ''دو آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘۔ اُن کے وہم و گمان میں نہ ہوگاکہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب رحیم یار خان کے وکلا‘ صحافی‘ دانشور‘ اساتذہ اور سول سوسائٹی کے صاحبان سچ مچ اپنی آنکھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ لیں اور وہ بھی روایتی گل محمد کی طرح کہ زمین اپنی جگہ سے ہلے یا نہ ہلے ‘مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوں گے۔ 
قارئین کی اجازت سے کالم نگار اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑانا چاہتا ہے۔کیا ہماری عقلِ سلیم ہمیں یہ کہنے کی اجازت نہیں دیتی کہ جو کچھ مندرجہ بالا سطور میں(شگفتہ پروین کا ہزاروں میل کے فاصلے سے بھیجا گیا توجہ دلائو نوٹس موصول ہونے پر) رحیم یار خان کے بارے میں لکھا گیا؟ غالباً وہی (یا اس سے ملتی جلتی) صورتحال پاکستان کے طول و عرض میں ہر شہر میں ہوگی۔ اندازہ لگایئے کہ اگر آپ اور میں بھی ان ہزاروں گم نام‘ مسکین‘بے بس‘ لاچار‘ بے زبان مگر محنتی‘جفا کش اورباہمت محنت کشوں میں شامل ہوتے (جنہیں پنجابی زبان میں دیہاڑی دار کہا جاتا ہے۔ یعنی روز کے روز کما کر بیوی بچوں کو کھلانے والے) تو ہر روز طلوعِ آفتاب کے وقت ہمارے دل کی دھڑکن کا کیا عالم ہوتا؟ اُمید ہے کہ آج بفضل تعالیٰ کام مل جائے گا مگر ساتھ ہی یہ خوف کہ نہ ملا تو پھر کیا بنے گا؟ گھر کا چولہا کس طرح جلے گا؟ کالم نگار 65 سالوں پر پھیلے ہوئے مطالعہ اور سوچ و بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جبHaves (مراعات یافتہ متوسط طبقہ) کی سوچ کا مرکز اور محور(Have Nots) اُفتادگانِ خاک اور روزانہ اُجرت پر کام کی تلاش کرنے والے بن جائیں گے تو سماجی ناانصافی ختم ہو جائے گی۔ امیروں اور صاحبِ حیثیت لوگوں کا (بقول اقبال) مال مست ہونا اُس سکے کا ایک رُخ ہے‘ جس کے دوسرے رُخ پر محنت کشوں کا حال مست ہونا نظر آتا ہے۔ کالم نگار خداوند تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہوگا کہ اسے برطانیہ میں آرام دہ‘ محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کرنے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس سے مستفید کرنے کی نعمت عطا کی گئی‘ مگر اس نعمت کے عوض میرا رب مجھ سے یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ میں رحیم یار خان میں رہنے والی شگفتہ کی فریاد سنوں‘ اگر میں اپنے قارئین سے بھی یہی توقع رکھوں تو کیا میں حق بجانب نہیں؟
رحیم یار خان کے سو مزدوروں کا تذکرہ کالم نگار کے بوڑھے دل کو اُداس اور آنکھوں کو اشکبار کر گیا۔ اب ہم کالم کے دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں جو میرے قارئین کے احساسات کو اداسی‘ بے چارگی اور دل گرفتگی سے شدید غصہ میں بدل دے گا کیونکہ میں اب اُن گیارہ مفت خوروں کا ذکر کروں گا جو پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا (Senate ) کے گیارہ معزز اراکین ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو بے دریغ خرچ کر کے برطانیہ آئے تاکہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے اُن اراکین سے مل سکیں جو پہلے ہی کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے حامی ہیں اور فارغ وقت میں لندن کے بازاروں میں خریداری کے جوہر دکھائیں اور (بقول شخصے) کارروائی ڈالنے کے لئے برطانیہ میں آبادکشمیریوں کی دوسری اور تیسری نسل کے سامنے بھرپور تقاریر کریں ۔ میرے محتاط انداز ے کے مطابق گیارہ افراد کے وفد کے اس بے مصرف اور بے مقصد دورے سے سرکاری خزانے پر 40 سے لے کر 50 ہزار پائونڈ (آپ انہیں180 سے ضرب دے کر روپے بنا لیں) کا بھاری بوجھ پڑا ہوگا۔ کیا ہم اپنے وزیر اطلاعات سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ اس دورے پر کل کتنی رقم خرچ آئی اور اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اگر اس طرح کے نمائشی اور پرُ فریب سرکاری دوروں کا کشمیر کی آزادی سے دُور کا بھی واسطہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کے اَن گنت دورے اب تک کشمیر کا مسئلہ حل کروا چکے ہوتے۔ اب کشمیر کے دریائوں کے پلوں کے نیچے کافی پانی اور سرینگر کی شاہراہوں پر ہزاروں کشمیری شہدا کا خون بہہ چکا ہے۔ تاریخ چلتے چلتے ہمیں اس جگہ لے آئی ہے جہاں کشمیر کی آزادی کی تائید نہ صرف کشمیر کے بہادر لوگ ‘بلکہ بھارت کے باضمیر افراد بھی کرنے لگے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے بیانیے کی سوئی آج بھی 68 سال گزر جانے کے بعد بھی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے۔ پرانے زمانے کے خراب ہو جانے والے گرامو فون کی طرح۔ نعرے ہم ''نئے پاکستان‘‘ کے لگاتے ہیں اور حماقتیں (وہ بھی مہنگی) ''پرانے پاکستان‘‘ کی کرتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ جناب عمران خان نے اس گیارہ رکنی وفد کو کشمیر پر ہمارے بیانیے کے کفن میں مزید کیل ٹھونکنے کی اجازت کیوں دی۔یہ لوگ وزیر اعظم عمران خان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کس طرح کامیاب ہو گئے؟ 
اب کشمیر کے دریائوں کے پلوں کے نیچے کافی پانی اور سرینگر کی شاہراہوں پر ہزاروں کشمیری شہدا کا خون بہہ چکا ہے۔ نعرے ہم ''نئے پاکستان‘‘ کے لگاتے ہیں اور حماقتیں (وہ بھی مہنگی) ''پرانے پاکستان‘‘ کی کرتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ جناب عمران خان نے اس گیارہ رکنی وفد کو کشمیر پر ہمارے بیانیے کے کفن میں مزید کیل ٹھونکنے کی اجازت کیوں دی۔ یہ لوگ وزیر اعظم عمران خان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کس طرح کامیاب ہو گئے؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں