حلوائی کی دُکان

گھسے پٹے محاوروں کو انگریزی میں Cliche کہتے ہیں اور لسانیات کے ماہرین سختی سے مشورہ دیتے ہیں کہ ان کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین تک یہ خبر جا پہنچے کہ اس کالم نگار نے نہ صرف اس غیر پسندیدہ فعل کا ارتکاب کیا ہے اور وہ بھی اتنے نمایاں طور پر کہ اسے اپنے کالم کا عنوان بنا دیا تو وہ یقینا ناراض ہوں گے‘ میری سرزنش کریں گے اور میرے قارئین تک اپنی قرارداد مذمت پہنچا کر دم لیں گے۔ مصیبت یہ ہے کہ جب میںسرکاری اداروں میں اربوں روپوں کی خیانت اور سرکاری خزانے کے بے دریغ استعمال اور ضیاع کے بارے خبریںپڑھتا ہوں تو میرے بوڑھے کانوں میں اُردو کے محاورے اتنے زور و شور سے گونجتے ہیں کہ میرے لئے اُن سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں رہتا۔ ایک ہے: مال مفت دل بے رحم۔ دُوسرا ہے حلوائی کی دُکان اوردادا جی کافاتحہ۔ میں جانتا ہوں کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی لوگوں نے قومی خزانہ کی تباہی و بربادی کے موضوع پر قلم اُٹھایا‘ اُنہوں نے بھی حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ پڑھنے والوں پر ایک نظر ضرور ڈالی ہو گی۔ پہلے اُن پر تین حرف بھیجئے اور پھر آگے بڑھئے۔
ہمارے بہت سے محاوروں کی طرح مذکورہ بالا محاورہ کئی لحاظ سے غیر منطقی ہے۔ اوّل‘ فاتحہ پڑھنے یا فاتحہ دلوانے کا حلوائی کی دُکان سے کیا تعلق؟ نہ یہ منظر کبھی دیکھا گیا اور نہ سنا گیا۔ دوم‘ اگر دادا جی کے پوتوں میں وہ حلوائی شامل نہیں تھا‘ جس کی دُکان پر فاتحہ پڑھنے کا اہتمام کیا گیا تو اُسے کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ اپنی دُکان پر پڑھے جانے والی دعائوں کا ثواب حاصل کرنے کے لئے مرحوم کے لواحقین کو مفت مٹھائی کھلوائے۔ سوم‘ اگر اہل خانہ نے فاتحہ خوانی کے اختتام پر حلوائی کو بل ادا کرنا ہے تو اُنہوں نے اپنے گھر پر غریبی گزارہ کا بندوبست کیوں نہ کر لیا؟ محاورے کا تجزیہ کیا جائے (اس کا حُلیہ بگاڑنے کا اور کوئی نسخہ میرے ذہن میں نہیں آیا) تو اس کا ایک یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ جب سوگواروں نے دادا جی کے فاتحہ کا انتظام حلوائی کی دُکان پر کر لیا تو وہ نہ صرف انتظامات کی زحمت سے بچ گئے بلکہ ضروری اخراجات سے بھی۔ دُوسرے الفاظ میں فاتحہ خوانی کے مالی بوجھ سے بچنے کے لئے حلوائی کی دُکان کی مفت خدمات حاصل کی گئیں جہاں مہمانوں کی زیادہ فیاضی سے خاطر مدارات کی جا سکتی ہے۔ ایک اور (حکیمانہ) محاورے کے مطابق 'نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری‘ (ظاہر ہے کہ یہ محاورہ پنسلین اور دُوسری جراثیم کش دوائیوں کی ایجاد سے پہلے کے زمانہ کی یادگار ہے) 
ہم 19 سال پیچھے جائیں تو دیکھتے ہیں کہ 2000ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں احتساب کے ادارے کو بیرون ملک 200 سے زائد پاکستانیوں کے اثاثوں کا سراغ لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس فہرست میں زرداری اور نواز شریف کے نام سب سے اُوپر تھے۔ ایک برطانوی جزیرے Isle of Man میں رجسٹرڈ کمپنی کو سراغ رسانی کا کام اس شرط پر سونپا کہ جتنی رقم برآمد ہو گی‘ اُس کا پانچواں حصہ اس کمپنی کو بطور معاوضہ دیا جائے گا۔ اس کمپنی‘ جس کا نام Broadsheet ہے‘ نے پاکستانی عدالت میں یہ درخواست دائر کی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی دسویں جلد کی نقل مدعی کو فراہم کی جائے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ اس ٹیم نے کس حد تک اس کمپنی کی سراغ رسانی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی تفتیش مکمل کی ہے۔ یہ کمپنی اب میاں نواز شریف کو عائد کردہ 25 ملین ڈالر کے جرمانے میں سے پانچویں حصہ کی طلبگار ہے ۔ اپنے معاوضہ کی وصولی کے لئے اُس نے لندن میں ثالثی کی عالمی عدالت (London Court of International Arbitration) سے رجوع کیا‘ کالم نگار جو معلومات حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے اُن کے مطابق مذکورہ کمپنی نے مندرجہ ذیل کاروباری اداروں اور افراد کے خلاف تفیش کرنے کے لئے جو فیس مانگی اور ادا نہ ہونے والے بل میں لکھی اُس کی تفصیل یہ ہے شون گروپ 48,760 ڈالر۔ لاکھانی 25,000 ڈالر‘ قاسمی 85,600 ڈالر۔ زاہد علی اکبر 381,600 ڈالر‘ شیر پائو 210,000 ڈالر‘ انصاری 180,000 ڈالر158,000 + ڈالر+ 1,089,460 ڈالر‘ میاں نواز شریف کی لندن میں ایون فیلڈ جائیداد 1,500,000 ڈالر‘ شریف خاندان کی لندن میں دُوسری جائیدادیں19,000,000ڈالر۔ Broadsheet نے ادا نہ ہونے والے واجبات پر جو سُود مانگا وہ بھی کئی لاکھ ڈالر ہے۔ بد قسمتی سے کالم نگار کے حساب کتاب میں پیدائشی کمزوری ایک بار پھر آڑے آئی۔ میرے حساب کے مطابق ثالث نے 8.3 ارب روپے (اندازاً 45 ملین ڈالر) ہرجانہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔ جو لغزش اتنی مہنگی پڑی وہ مختصر الفاظ میں یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ ایک مرحلہ پر Broadsheet دیوالیہ ہو گئی اور اُس کے پرانے مالک نے ایک نیا معاہدہ کر لیا جبکہ وہ شخص اپنی پرانی کمپنی کی نمائندگی کرنے کا مجاز نہ تھا۔ یہ حق صرف دیوالیہ ہو جانے والی کمپنی کے Liquidator کو تھا۔
کالم نگار نے دِل کڑا کرکے ایک مرثیہ لکھ کر اپنی قارئین تک پہنچا دیا۔ مگر درد ناک داستان یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ آپ اپنے آپ کو دو اور بری خبریں سُننے کے لئے تیار کر لیں۔ 2017 کے وسط میں مملکت پاکستان کو یکے بعد دیگرے دو بڑے صدمے اُٹھانے پڑے۔ بین الاقوامی ثالثی کے دو مقدمات میں پاکستان کے خلاف فیصلے کئے گئے اور ہرجانہ کی رقم 900 ملین ڈالر(90کروڑ ڈالر)سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے ان دونوں مقدمات کے بارے میں باری باری بڑے اختصار کے ساتھ اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پہلا مقدمہ عالمی بینک کے ذیلی ثالثی ادارہ میں سُناگیا۔ مدعی کا نام تھا:Karkey Kara Denize Lcektrik یہ ترکی کی کمپنی ہے اور اسے حکومت پاکستان نے کرایہ کی تھرمل بجلی فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا تھا۔ معاہدہ کرتے وقت پاکستان کے قومی مفادات پر معاہدہ کرنے والے پاکستانی وزیروں اور سرکاری افسروں کے ذاتی مالی مفاد کو ترجیح دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب راز افشا ہوا تو اس معاہدہ کو منسوخ کرنا پڑا۔ ثالثی عدالت کے فیصلہ کے مطابق (معاہدہ سے کرپشن کی بو آنے کے باوجود) حکومت پاکستان اس کی مجاز نہ تھی اور ہرجانہ کی رقم (800 ملین ڈالر کے قریب) واجب الادا قرار پائی۔
دُوسری خبر بھی بری ہے مگر پہلی کے مقابلہ میں بہت کم بری چونکہ ثالثی عدالت نے ہرجانہ 135 ملین (مذکورہ بالا ہرجانہ سے چھ گنا کم) ڈالر مقرر کیا۔ (میں نے ضرب کا مشکل سوال حل کیا تو جواب 14 ارب روپے آیا) یہ مقدمہ بھی بجلی بنانے والی نو کمپنیوں نے مل کر دائر کیا تھا۔ اچھی خبر یہ ہے کالے سیاہ بادلوں کے کناروں پر مجھے روشنی کی ایک مدہم سی سُنہری کرن نظر آئی۔ ثالثی عدالتوں کے فیصلے اپنے جگہ مگر حکومتِ پاکستان مدعیان سے Out of court settlement کر سکتی ہے۔ اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے قارئین کو (جن سے میں ہفتہ میں صرف ایک بار ہم کلام ہوتا ہوں) کالم کے آخر میں مزید بری خبریں سنائوں۔ غنیمت یہ ہے کہ اس کالم میں مزید سطور لکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔ جسم جل کر داغ داغ ہو جائے تو معالج کے سٹاک میں روئی کم پڑ جاتی ہے۔ اس طرح ہمارے ملک میں حلوائی کی دکان ہے اور اُس پر دادا کا فاتحہ پڑھنے والے زیادہ سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں‘ لاکھوں ہیں‘ جن میں غالباً آپ اور میں بھی شامل ہیں۔ چونکہ میرا اور آپ کا تعلق اس مفاد پرست اور بے ضمیر طبقے سے ہے جو حلوائی کی دُکان تک خود تو دسترس نہیں رکھتا مگر لٹیروں کی بلند و بالا میز (Dining Table) سے گرِے ہوئے ٹکڑے اُٹھا اُٹھا کر زندگی گزارتا ہے۔ انہیں رزق حلال سمجھ کر کھاتا ہے اور خداوند تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں