دور دیس سے آنے والی بُری خبریں

اچھی خبریں آپ نے گزشتہ منگل کو پڑھ لیں۔ انہی پر اکتفا کریں۔ فارسی کے ایک محاورے کے مطابق ہر روز عید نہیں ہوتی‘ اس لئے آپ روزانہ حلوہ نہیں کھا سکتے۔ پھولوں کاہفتہ گزر گیا‘ اب کانٹوں کی باری ہے۔ ہر سچائی تو کڑوی نہیں ہوتی ‘کچھ میٹھی اور چند ایک بہت میٹھی بھی ہوتی ہیں۔ اس کالم کو پڑھنے والے‘ کالم لکھنے والے کو اجازت دیں کہ وہ اس ہفتہ انہیں دور دیس سے آنے والی نا خوشگوار خبریں بھی سنائے۔آج ہم مشرق بعید چلتے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے مغرب میں اور فلپائن کے جنوب میں بورنیو نامی بہت بڑے جزیرے کے شمال مشرقی ساحل کی پٹی پر برونائی کی مملکت کے بارے میں آپ ضرور کچھ نہ کچھ جانتے ہوں گے۔ بہت کم رقبہ (2,226 مربع میل) اور چھو ٹی آبادی (چار لاکھ تیس ہزار) مگر تیل کی دولت سے مالا مال۔ برونائی کی مملکت کے سربراہ کو سلطان کہتے ہیں اور موجودہ سلطان کا نام ہے؛ حسن البلقیہ۔ سلطان کے چھو ٹے بھائی کا نام جیفری (Jefri ) ہے اور برونائی کی حکومت نے اس پر سرکاری خزانے سے 15 ارب ڈالر خرد برد کرنے کا الزام لگایا اوراس کے خلاف دیوانی اور فوجداری مقدمات دائر کئے گئے۔ آخر کار جیفری نے زچ ہو کر خرد برد کئے جانے والے اربوں ڈالر کا تقریباً نصف حصہ سرکاری خزانے میں جمع کرکے اپنی جان چھڑائی۔ (شاید یہ الفاظ ہمارے کئی سابق رہنمائوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہوں)اس شہزادے نے بحری سفر کے لئے کروڑوں ڈالرکی پر تعیش کشتی خریدی اور اس کی دوTendersکے جو نام رکھے‘ وہ اس قدر غیر اخلاقی ہیں کہ ناقابل اشاعت ہیں۔ اب ہم اُس کے بڑے بھائی کی طرف چلتے ہیں‘ جو مطلق العنان حکمران ہے۔ اس کے پاس دنیا بھر میں سب سے مہنگی کار Rolls-Royce کا وہ فقید المثال ماڈل ہے‘ جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔اور ان Gold Plated کاروں کی تعداد سوسے زائد بتائی جاتی ہے۔ شاہی محل تعداد میں کئی ہیں۔ سب سے بڑے محل میں کمروں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ سلطان کو پولو کھیلنے کا شوق ہے۔ سلطان کے اصطبل میں دو سو عالی نسل گھوڑے ہیں۔ برونائی کے سلطان کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ تین اپریل کو نئی سزائوں کا قانون نافذ کرتے وقت اسے اپنے بھائی کی ریکارڈ شکن چوری یاد نہ رہی۔ نئے قوانین کے تحت چوروں کے ہاتھ یا پائوں کاٹ دیئے جائیں گے اور دوسرے جرائم کی سزا دینے کے لیے درّے لگائے جائیں گے۔ (نابالغ افراد سے کم عمری کی بنیاد پر کوئی رعایت نہ کی جائے گی)۔ اچھی خبر‘ مگر یہ ہے کہ مذکورہ بالا جرائم کے ثبوت کے لئے گواہوں کی شہادت ضروری ہوگی۔
تعزیرات کی کتاب میں لکھی ہوئی یہ سزائیں اگرچہ کسی بھی گناہ گار شخص کا خون منجمد کرنے کے لئے کافی ہیں ‘مگر باور کیا جاتا ہے کہ ان پر زیادہ سختی سے عمل نہیں کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر برونائی کے قانون میں قتل کے جرم کی شروع دن سے سزائے موت مقرر کی گئی ہے ‘مگر1957 ء سے آج تک کسی بھی مجرم کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ برونائی میں نہ سماجی انصاف ہے اور نہ مساوات اور نہ قانون کی حکمرانی۔ وہاں ایک بھی اتنی معیاری یونیورسٹی یا ہسپتال نہیں‘ جو امریکہ اور یورپ کے اعلیٰ تعلیمی اور طبی اداروں کا ہم پلہ ہو۔ سلطان کا مطلق العنان ہونا بذات ِخود جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ ہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ اس کا طرز حکومت غیر شفاف ہے۔ شاہی مشیر سلطان کو وہی مشورے دیتے ہیں‘ جو وہ سننا چاہتا ہے۔کتنا اچھا ہو تا کہ اہل مغرب کو برونائی سے اسلامی نظام کی جھلک نظر آتی ‘جو انصاف‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی کے مترادف ہے۔ 
تیونس کا جنرل زین العابدین بن علی (جو چھ ٹن سونا چوری کر کے بھاگ گیا )‘ملائیشیا کا نجیب رزاق ‘ کانگو کا موبوتو‘ فلپائن کا مارکوس‘ہیٹی کاDuvalierیاہمارے بعض رہنما جن پر بدعنوانی کے الزامات ہیں ۔ قومی خزانہ یا غیر ملکی امداد چرانے والوں کی فہرست کافی لمبی ہے‘ مگر سرفہرست کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے انہیں برونائی کے شہزادے جیفری اور اس کے بڑے بھائی سے کانٹے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یقین جانیے کہ اس کالم نگار کے پاس اور بھی بہت سی بری خبریں تھیں‘ مگر بھلا ہو کالم کی محدود جگہ کا‘ جس کی وجہ سے رہی سہی عزت سادات بچ گئی۔ یوں بھی مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے قارئین کو صبح صبح بدمزہ کروں۔ پہلے ہی وطن عزیز میں رہنے والوں کی زندگی میں خوشی اور سکھ چین صفر کے قریب ہے۔ میں انہیں ایک سے زیادہ بری خبر کیوں سنائوں؟
کالم ختم ہونے کے قریب پہنچا تو میری نظر پانچ اپریل کے رو زنامہ Timesکے صفحہ نمبر35 پر پڑی‘ جس میں سب سے نمایاں سپین کے شہر بار سیلونا (جہاں میں پانچ سال قبل صرف تین دن کے لئے گیا تھا) کے زیر تعمیر گرجا گھر کی تصویر تھی۔ اس شہرہ آفاق گرجا گھر کا نام ہے: Sagrada Familia ۔یہ کمال کی عمارت1882ء میں شروع ہوئی اور محتاط اندازے کے مطابق 2026 ء میں مکمل ہو جائے گی۔ اس گرجا گھر کے زائرین کی سالانہ تعداد 45لاکھ ہوتی ہے۔ یہ کالم نگار کئی گھنٹے صبر آزما قطار میں کھڑے رہنے کے بعد گرجا گھر کے اندر پہنچا۔ کافی وقت تو بلند و بالا چھتوں اور خوبصورت مخروطی میناروں کو اتنی حیرت سے دیکھنے میں گزرا کہ محاورے والی ٹوپی سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اگر دوسری مصروفیات آڑے نہ آتیں تو میں یقینا وہاں مزید وقت گزارتا کہ یہ مسیحی دنیا میں جلال و جمال کا اتنا ہی نادر نمونہ ہے ‘جتنا کہ مسلمانوں کے لئے مسجد قرطبہ ۔ گرجا گھر سے باہر نکلنے سے پہلے میں نے رواجاً اور عبادتاً پانچ موم بتیاں جلائیں۔ ایک پاکستان کے عوام کی خوشی اور خوشحالی کے لئے‘ دوسری اپنے اہل و عیال اور دوستوں کی خیر خیریت کے لئے‘ تیسری وفات پاجانے والے رشتہ داروں‘ بزرگوں اور احباب کی مغفرت کے لئے‘ چوتھی دنیا میں (خصوصی ہمارے ہمسایہ ممالک سے) دوستی ‘ بھائی چارے اور خیر سگالی کے لئے اور پانچویں گرجا گھر کے دوسرے ماہر تعمیر(پہلا ایک سال بعد ہی مستعفی ہو گیا) Goudiکے لئے‘ جس نے اس عظیم الشان گرجا گھر کی تعمیر پر اپنی زندگی کے 43 برس صرف کئے۔ وہ مقامی ٹرام سے ٹکرانے کے حادثے میں 1926ء میں ہلاک ہو گیا‘ مگر اس کا بنایا ہوا گرجا گھر اسے ہزاروں سال زندہ رکھے گا۔ 
برونائی سے سزائوں کے بارے میں آنے والی خبروں کو کالم نگار نے اس لئے بری خبریں لکھا ہے کہ برونائی کے پڑوس میں برما کی فوج نے مسلمان (نہتے‘بے بس لا چار اور بے یارو مددگار) اقلیت کو قتل عام کا نشانہ بنایا تو برونائی کے حکمران نے بے حساب دولت اور اثر و رسوخ کے باوجود ان کی کوئی مدد نہ کی۔ برمی مسلمان مہاجرین نے لاکھوں کی تعدا د میں بھاگ کر اور بڑی مشکل سے جان بچا کر بنگلہ دیش کے ساحلی مقامات پر پناہ لی تو برونائی نے اربوں کھربوںڈالر کے خزانے کا مالک ہونے کے باوجود اس وقت بھی ان کی کوئی مالی مدد نہ کی۔ کہاں گئی‘ اس مسلم ملک کی انسانی ہمدردی اور اخوت ؟ کیا خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو شاہی محلات اور مہنگی ترین کاروں پر خرچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ ہر گز نہیں‘ ہر گز نہیں۔
تیونس کا جنرل زین العابدین بن علی (جو چھ ٹن سونا چوری کر کے بھاگ گیا )‘ملائیشیا کا نجیب رزاق ‘ کانگو کا موبوتو‘ فلپائن کا مارکوس‘ہیٹی کاDuvalierیاہمارے بعض رہنما جن پر بدعنوانی کے الزامات ہیں ۔ قومی خزانہ یا غیر ملکی امداد چرانے والوں کی فہرست کافی لمبی ہے‘ مگر سرفہرست کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے انہیں برونائی کے شہزادے جیفری اور اس کے بڑے بھائی سے کانٹے کا مقابلہ کرنا ہوگا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں