مغرب کے دو عہد ساز فلسفہ دان

برصغیر میں مسلمانوں کی جدید تاریخ میں جن سات دانشوروں اور مفکروں کو عہد ساز کہا جا سکتا ہے وہ ہیں عبید اللہ سندھی‘ شاہ ولی اللہ‘ سرسیّد احمد خاں‘ ڈاکٹر حمید اللہ‘ علامہ محمد اقبال‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور ابو الاعلیٰ مودودی۔ مسلمانوں کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم کن نو مفکرین کو عہد ساز کہہ سکتے ہیں؟ الطبری‘ ابن حزم‘ امام غزالی‘ ابن رُشد‘ جلال الدین رومی‘ ابن تیمیہ۔ امام حنبلؒ‘ ابن خلدون۔ آیئے اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔آج کے کلام میں صرف دو مغربی عہد ساز فلاسفروں کا ذکر کر لیا جائے گا۔ اس کے باوجود کہ دس سال سے ایک بہت اچھی خاتون میری بہو ہے۔ میری جرمن زبان سے واقفیت صفر کے قریب ہے۔ مجھے بمشکل پانچ جرمن الفاظ آتے ہیں۔ ایک لفظ1956ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں اپنے جرمن اُستادDr. Frittersسے سیکھا تھا۔ یہ لفظ مشکل ہے مگر آپ جی کڑا کر کے اُسے آج پڑھ ہی لیں۔ Weltanschauung۔ اس کا مفہوم یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ سوچنے اور حقائق دیکھنے کا زاویۂ نظر۔ انگریزی الفاظ میں Philosophtical Stand Point ۔ اس سے پہلے کہ میری قارئین ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہو جائیں میں سادہ الفاظ میں مثال دے کر مفہوم واضح کرتا ہوں۔ پاکستان کی ثقافت میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے اُس میں ہم انشا اللہ اور ماشااللہ کا استعمال کرتے ہیں‘جو کوئی انگریز یا امریکی یا یورپی باشندہ ساری عمر استعمال ہی نہیں کرتا چونکہ اُس کے سوچنے اور خیالات ظاہر کرنے کا انداز بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح ہم کوئی خبر سن کر بے ساختہ کہتے ہیں کہ یہی اللہ کی مرضی تھی یا ہم اپنی تقدیر کے سامنے بے بس ہیں۔ وطن عزیز میں مذکورہ بالا جملے اتنی کثرت سے بولے جاتے ہیں کہ آپ اُن میں سے کوئی نہ کوئی یقینا ہر روز بلاناغہ سنتے ہوں گے۔ یقینا آپ یہ پڑھ کر ہر گز حیران نہ ہوں گے کہ یورپ میں رہنے والے لوگ اپنی ساری زندگی میں اس طرح کا ایک جملہ بولنے کا بھی تصور نہیں کر سکتے چونکہ اُن کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ 
اہل یورپ کی سوچ بدل دینے میں یہاں کے دانشوروں‘ ادیبوں‘ اساتذہ‘ فنکاروں اور فلسفہ دانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جس شخص نے توہمات کے مقابلے میں عقل و دانش کا پہلا چراغ جلایا اُس کا نام Pelagius تھا۔ وہ کئی سال مسیحی دُنیا کے سربراہ (پوپ) سے علمی بحثوں میں الجھا رہا۔ آخر 418 عیسوی میں پوپ Zosimus کا صبر جواب دے گیا اور اس نے اس انگریز دانشور کے خیالات کو ملحدانہ اور کافرانہ کہہ دینے کا فتویٰ جاری کر دیا۔ بحث کا موضوع ایک ہی تھا۔ تدبیر یا تقدیر؟ انگریز فلسفہ دان کا نظریہ تھا کہ خداوند تعالیٰ نے انسان کو Free Will یعنی کوئی بھی فیصلہ (اچھا یا برُا) کرنے کی پوری اجازت دے رکھی ہے۔ یہ بحث اگلے ایک ہزار سال جاری رہی۔ پہلے نشا ۃ ثانیہ ( Renaissance) اور پھر تحریک اصلاح کلیسا (Reformation ) کے دوران ۔ پھر سترہویں صدی کے ہالینڈ میں اور پھر برطانیہ اور فرانس کے دانشوروں میں۔آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ یہ دانش ورکہاں اور کب پیدا ہوا۔ ہم صرف یہ جانتے ہیںکہ وہ چوتھی صدی کے آخر تک برطانیہ سے رُوم منتقل ہوچکا تھا جہاں اُس کے پیرو کاروں کی ایک جماعت بھی معرض وجود میں آچکی تھی۔ اُس کے خیالات کو Saint Augustine سے منسوب ایک دُعا کے یہ الفاظ سن کر مہمیز ملی ''یا خُدا مجھے وہ دے جس کا تو حکم دیتا ہے اور وہ حکم دے جو تو چاہتا ہے‘‘۔ یہ کوئی متنازعہ دعا نہ تھی‘ مگر اصل جھگڑا ایک اور نقطے پر تھا۔ Saint Augustineکا ایمان اس بات پر تھا کہ کوئی شخص چاہے کتنی نیکیاں کمالے یا کتنے گناہوں کا مرُتکب ہوجب تک خداوند تعالیٰ کی رحمت شامل ِحال نہ ہو وہ بخشش کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ Pelagiusکو اس سے شدید اختلاف تھا۔ اُس کا موقف یہ تھا کہ خداوند تعالیٰ نے انسان کو اچھے یا برُے کام کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہر نیک شخص خداوند تعالیٰ کی رحمت کا مستحق نہ ہو۔ 418 عیسوی اس لئے بھی ایک یادگار سال ہے کہ روم میں Pelagiusکے حامیوں پر مشتمل ایک بڑے ہجوم نے وہ ہنگامہ کیا ‘جو روم کے بادشاہHonorius کی نظر میں فتنہ و فساد کے زمرہ میں آتا تھا۔ اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ پوپ کے فتویٰ کی روشنی میں اس کی سرکوبی کی جائے۔ یہ کام تو سرکاری جبرو تشدد نے خوش اسلوبی سے کر لیا ‘مگر راکھ میں چھپی چنگاری دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی زندہ سلامت ہے اور آج وہی مغربی سوچ اور مغربی افکار کی خشتِ اوّل ہے۔ 
دوسرے عہد ساز یورپی فلاسفر کا نام تھا Diderot۔ فرانس کا رہنے والا روس کی ملکہ کیتھرائن کا مشیر 1751ء سے لے کر 1772ء تک اکیس سال لگا کر اٹھائیس جلدوں میں شائع ہونے والے انسائیکلوپیڈیا کا مدیر اعلیٰ ۔ اُسے نہ صرف فرانس بلکہ یورپ میں عقل جدید (The Enlightenment)کے دور کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ اس سال Diderot پر دو اچھی کتابیں شائع ہوئی ہیں‘ جن میں سے ایک ہارورڈ یونیورسٹی نے شائع کی ہے۔ رُوس کی ملکہ خود ایک افسانوی کردار تھی۔ وہ بچپن سے مطالعہ سے گہرا شغف رکھتی تھی۔ 33 برس کی عمر میں اپنے غیر موثر اور خبطی خاوند (زار پیٹرسوئم) کو اقتدار کی جنگ میں شکست دے کر تخت پر قابض ہو گئی اور وہ بھی بڑے ڈرامائی انداز میں۔ زار پیٹر سوئم ڈنمارک پر حملہ کرنے کے لئے فوجی تیاریوں میں مصروف تھا۔ کیتھرائن نے اُس کے خلاف سازش کا جال بچھایا ۔ خاوند کی ہدایات کے برعکس وہ سینٹ پیٹر برگ تک سفر کر کے گئی اور وہاں کی بڑی شاہراہ پر اس طرح پیدل چلی کہ روسی فوج کے دستوں نے اُس کے پیچھے مارچ کیا۔ منزل پر پہنچ کر جب وہ محل کی بالکونی پر کھڑی ہوئی تو محل کے صحن میں کھڑے ہزاروں لوگوں نے اُس کی حمایت میں نعرے لگائے‘ اگلے دن کیتھرائن نے فوجی وردی پہنی‘ گھوڑے پر سوار ہوئی اور فوجی دستوں کو لے کر چل پڑی کہ زار سے تخت چھوڑنے کے اعلامیہ پر دستخط کروا سکے۔ بے چارہ زار مرتا کیا نہ کرتا۔ کیتھرائن نے 1796ء میں اپنی وفات تک روس پر حکومت کی۔ Diderot نے ملکہ کو مشاورتی اور جمہوری ادارے بنانے اور اپنے آپ کو اُن کے ماتحت کر دینے کے مشورے دیئے مگر ملکہ نے اُس کی ایک نہ مانی اور ایک آمر مطلق کے انداز میںحاکم بنی رہی۔
کیتھرائن کا کتابی علم تو اپنے مشیر کے عشر عشیر بھی نہ تھا مگر عقل سلیم بدرجہا زیادہ تھی۔ ملکہ نے روس کی سرکاری زبان (فرانسیسی) میں اپنے فرانسیسی مہمان اور مشیر سے بڑی شائستگی سے کہا کہ اُس کے خیالات کتابوں کی حد تک تو بہت قابل صد ستائش ہیں مگر وہ حقائق کی کھردری دنیا میں برُی طرح ناکام اورناقابل عمل ثابت ہوں گے۔اس لئے وہ ہر گز قابل قبول نہیں۔ آج کے دور میں مغرب کے اہل علم نے Diderot سے (جو انسانی عقل کی برتری کا علمبردار تھا) یہ سیکھا کہ ؛بقول اقبالؔ ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
وہ اتنا روشن دماغ اور ذہین تھا کہ اُس نے عقل و دانش کا نہ بجھنے والا چراغ روشن کرتے وقت بھی اس کے کامل ہونے کے اُوپر کئی سوالیہ نشان لگائے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ فلسفے کے علم کی بنیاد ہی سوال اُٹھانے پر ہے۔ جواب دینے پر نہیں۔ ہم یہ جان کر ہر گز حیران نہیں ہوئے کہ موصوف کے قریبی دوستوں میں اُس عہد کا سب سے بڑا دانشور (رُوسو) Jean-Jacques Rousseau بھی شامل تھے۔ اُس کے پاس کتابوں کا بہت اچھا اور بہت بڑا ذخیرہ تھا جو اُس نے روس کی ملکہ کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ اٹھارہویں صدی کے فرانس میں آزاد خیالی اتنا بڑا جرم تھا کہ ایک انقلابی دانشور Marquis de Condorcet جیل میں قید کے دوران مرا۔ Diderot کی قسمت اچھی تھی کہ اُسے صرف سو دن کی قید کے بعد رہائی مل گئی۔ وہ اُس طرح پانی کے بہاؤ کے خلاف تیرنے والوں اور ہوا کے رُخ کے خلاف اُڑنے والوں کا سردار تھا جس طرح ہمارے ہاں سرسید احمد خاں‘ شاہ ولی اللہ ‘عبیداللہ سندھی ‘علامہ اقبال ‘ڈاکٹر حمید اللہ اور ان دنوں جناب جاوید احمد غامدی اور جناب خورشید ندیم۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں