قیدی نمبر27534

یہ تھا؛ وہ نمبر‘جو ایک قابلِ فخر‘ ناقابلِ فراموش ‘ بہادر اوراور بے پناہ تشدد کا نشانہ بنائی جانے والی خاتون کو ہٹلر کے نازی جرمنی کے ایک عقوبت خانے میں دیا گیا۔ انسانی بہادری کی روشن رہنے والی کہکشاں پر جگمگانے والی اس خاتون کا نام تھاNeus Català۔ مذکورہ بالا عقوبت خانہ صرف خواتین قیدیوں پر مشتمل تھا۔ ان کی کل تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی۔ فرانسیسی‘ پولش‘ ولندیزی اور روسی خواتین۔ جنگ عظیم ختم ہوئی تو عقوبت خانے کے دروازے کھول دیئے گئے‘ مگر صرف نصف قیدی زندہ بچی تھیں‘ تشدد آمیز قید نے نصف کی جان لے لی تھی۔ ہماری ہیروئن Neus زندہ بچ جانے والوں میں شامل تھی۔ 13 اپریل2019 ء کو اُس نے 103 برس کی لمبی عمر پا کر وفات پائی تو سارے یورپ کے اخباروں میں اس کے اعزاز میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے ‘جن میں اس کے مضبوط اعصاب اور بلند عزم و ہمت کو سلام پیش کیا گیا ۔
نازی جرمنی کے عقوبت خانے میں لمبی قید کے دورانNeus بیمار ہو گئی تو وہاں کے ڈاکٹروں کو شک ہوا کہ ممکن ہے وہ تپ دق کی مریض ہو اور وہ دوسرے قیدیوں کو اس مہلک بیماری کا شکار بنا سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ اُس کی سانس کی بیماری کا تپ دق سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عقوبت خانے کے قانون کے مطابق اُسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا۔ جونہی وہ صحت یاب ہوئی‘ اُسے ایک دوسرے عقوبت خانے‘ جو چیکو سلواکیہ میں تھا‘ منتقل کر دیا گیا؛ چونکہ نگران افسروں کووہ نا صرف ذہین نظر آتی تھی‘ بلکہ جسمانی طور پر بھی اوسط خاتون سے بدرجہا بہتر تھی ؛چنانچہ عقوبت خانے میں اس سے جرمن فوج کے استعمال میں آنے والا اسلحہ بنانے کا کام لیا گیا ۔ Neus نے وہاں اپنی ہم خیال خواتین کا ایک خفیہ گروپ بنا لیا۔ یہ خواتین اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسلحے میں کام آنے والے بارودی پائوڈر میں تھوڑا سا پانی ملا دیتی تھیں‘ تاکہ وہ گولیاں اور توپوں کے گولے بنانے کے کام نہ آسکے۔1939 ء میں سپین میں جنرل فرانکو کی فسطائی فوج اقتدار کی جنگ جیت گئی تو Neus وہاں سے جان بچا کر فرانس بھاگ گئی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس پر قابض جرمن فوج کے خلاف ہتھیاروں سے لڑی جانے والی زیر زمین مزاحمتی تحریک کی سرگرم رکن بن گئی۔ Neus سپین کے شہر بار سیلونا کے مغرب میں ایک پہاڑی گائوں میں1915ء میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد حجام تھے اور ماں ایک گھریلو خاتون۔ 1931 ء میں سپین میں دوسری جمہوری حکومت قائم کی گئی تو اس انقلابی تبدیلی کی لہریں دور دراز پہاڑوں میں چھپے اُس گمنام گائوں تک بھی جا پہنچیں ‘جہاںNeus پل بڑھ کر جوان ہوئی تھی۔ وہ اپنے صوبہ Catalonia کی سوشلسٹ پارٹی کے نوجوانوں کے گروپ میں شامل ہو گئی اور نرسنگ کی تربیت حاصل کر لی۔ 1936ء میں سپین خانہ جنگ کی لپیٹ میں آگیا‘ تو اس نے زخمیوں اور بچوں کی حد درجہ خدمت اور نگہداشت کی۔ بدقسمتی سے سپین میں تاریکی کے سائے روشنی پر غالب آگئے تو وہ اپنے ساتھ 182 بچوں کو بھی حفاظت سے فرانس لے جانے اور وہاں پناہ دلوانے میں کامیاب رہی۔ 
نازی جرمنی کی رسوائے زمانہ پولیس Gestapoنے اسے 1943ء میں پیرس سے گرفتار کر لیا۔ جرمن عقوبت خانے سے رہائی کے بعد وہ پیرس واپس آئی اور شادی کر کے گھر بسایا اور دو بچوں کی ماں بنی۔ بیٹی ماہر نفسیات بنی اور بیٹا لائبریری کا ڈائریکٹر بنا۔ اُس نے اپنی زندگی کے بہت سے سال اُن خواتین کی یادداشتیں اکٹھی اور مرتب کرنے میں صرف کر دیئے جو نازی جرمنی کے عقوبت خانوں میں توڑے جانے والے مظالم اور تشدد کو برداشت کر گئیں اور زندہ رہ جانے میں (جو ایک معجزے سے کم نہ تھا) کامیاب رہیں۔ Neus کی انتھک کوششوں سے برسوں بعد اسے یہ کامیابی ملی کہ جرمن حکومت اس عقوبت خانے میں ہلاک ہو جانے والی ہزاروں خواتین کی یاد میں ایک مینار تعمیر کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ سپین میں جنرل فرانکو کی فسطائی حکومت کی صورت میں جو اندھیری رات 1939ء میں شروع ہوئی اس نے وہاں 1975 ء تک طول پکڑا۔ Neus Catrons کی سوشلسٹ پارٹی کی رکن بن کر سپین میں عوام دوست حکومت کے قیام کی جدوجہد میں اپنی زندگی کے آخری دنوں تک سرگرم رہی۔ وہ 1975 ء میں سپین اپنے آبائی گھر واپس آگئی۔ جب وہ یہاں سے بھاگی تھی تو وہ ہسپانوی تھی مگر جب واپس آئی تو اُس کی جیب میں فرانسیسی پاسپورٹ تھا‘ جو اُسے فرانسیسی باشندے سے شادی کرنے کی وجہ سے ملا۔ 2005ء میںNeus کی کتاب شائع ہوئی تواسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کتاب کا نام ہے:Resistance and Deportation: 50 Testimonies of Spanish Women ۔
Neus نے وفات پائی تو اُس کی بیٹی نے اپنی بہادر ماں کے ہزاروں‘ لاکھوں مداحوں کو بتایا کہ وفات سے کچھ دن پہلے تک وہ بلند آواز میں اطالوی اور روسی زبانوں میں انقلابی گیت گاتی تھی۔ آج ‘اگر غالبؔ کا مرثیہ لکھنے والے الطاف حسین حالی یا شاہ ِایران کے خلاف جدوجہد میں شہید ہو جانے والے ایرانی طلبا اور مشرقی پاکستان کے مقتولوںکا مرثیہ لکھنے ولے فیض احمد فیضؔ زندہ ہوتے توہ یقینا Neus کے اعزاز میں ایک ایسی نظم لکھتے‘ جو مرثیہ سے زیادہ رجزیہ شاعری کا شاہکار ہوتی۔ 
آخر میں کچھ برطانیہ سے توشہ خاص: پہلی خبر کا تعلق ہے‘ کرکٹ کی سب سے مشہور گرائونڈ لارڈز سے اور دوسری کا کاروباری دنیا سے۔ لارڈز کرکٹ گرائونڈ قانونی طور پر ایک کرکٹ کلب کی ملکیت ہے‘ جس کا نام ہے: Marylbone Cricket Club۔ ایم سی سی کا رکن بننے کیلئے درخواست گزار کو تقریباً28 سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 20 برس ہوئے جب خواتین کواس کلب کا رکن بن جانے کی پہلی بار اجازت دی گئی۔ اب اُن کی کل تعداد 645 ہے۔ رکن بن جانے کی فیس کتنی ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لئے میں نے اپنے دوستGraham Kirk سے رجوع کیا‘ جو 20 سال کے انتظار کے بعد 20 سال پہلے MCC کا رکن بنا اور ہر سال مجھے اپنی جیب سے ٹکٹ خرید کر لارڈز میں کلب کے اراکین کی خصوصی نشستوں پر بٹھا کر ٹیسٹ میچ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ رہی MCC کی داخلہ اور سالانہ فیس تو میں جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا تاکہ میرے قارئین کے دل میں حسد (جو برُی بلا ہے)کے جذبات پیدا نہ ہوں۔MCC کے بارے میں تازہ خبر یہ ہے کہ اراکین نے ہنگامی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ Special Enclosures میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کے لئے لباس کی پابندی پر سختی سے عمل کیا جائے۔ ٹائی لگانا لازمی قرار پا گیا ہے۔ (چاہے گرمی کتنی زیادہ ہو)۔ سری لنکا کے مشہور کھلاڑی اور سابق کپتان کمار سنگا کاراکو MCC کا پہلا غیرانگریز صدر بنائے جانے کا اعزاز دیا گیا ہے جو کرکٹ کے اَن گنت شیدائیوں کے لئے قابل فخر ہے۔ 
آخری خبر اہمیت کے اعتبار سے سرفہرست ہونی چاہیے۔ کمپنی کا نام ہے ؛ Richer Soundsاور اُس کے مالک کا نام Julian Richer ہے‘ جس نے 1978ء میں یہ کمپنی شروع کی‘ جس کے ملازمین کی تعداد اب 522 ہے۔ برطانیہ کے ایک بڑے سٹور John Lewis کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے سٹاف کو ہی کمپنی کے مالکانہ حقوق منتقل کر دیئے جائیں۔ ان حقوق کی مالیت 35 لاکھ پائونڈ بنتی ہے۔ اوسطاً ہر کارکن کو آٹھ ہزار پائونڈ مل جائیں گے اور اس کے علاوہ 3600 پائونڈ کی سالانہ اضافی آمدنی۔ یہ کمپنیHi-Fi کی 47 دکانوں کی مالک ہے اور سالانہ تقریباً ایک کروڑ پائونڈ منافع کماتی ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم بھی اپنے بیمار اور گھاٹے میں چلنے والے قومی کاروباری اداروں‘ مثلاً: پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے کے ملازمین کو ہی ان کا مالک بنا دیں اور دائمی نقصان کو دائمی نفع میں تبدیل ہونے کا معجزہ دیکھنے کی خوشی حاصل کریں۔ کاش‘ ایسا ہی ہو...! فارسی کے ایک شعر کے مطابق ؛میں نے کاش کے لفظ کو سو بار لکھا اور سو بار دعا بھی مانگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں