ایک بڑا سوالیہ نشان

آج ہم بطورِ قوم جس مقام پر کھڑے ہیں ‘وہاں سے جس طرف بھی دیکھیں ہمیں ایک بڑا نشان نظر آتا ہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے‘ جو ہمیں گھور گھور کر غیر دوستانہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ یہ سوالیہ نشان ہم سے کئی جواب مانگتا ہے‘ مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے؟ زادِ راہ ہمارے پاس ہے تو ہمیں اس کا تعارف کرنا ہوگا۔سوالیہ نشان 14 اگست1947 ء سے ہمارا تعاقب کر رہا ہے اور اب ہم تھک کر اتنے بے حال ہو چکے ہیں کہ ہم غالب کی زبان میں فریاد کرتے ہیں'' نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے۔ نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے‘‘ ۔لیکن میں اپنے قارئین کو یقین دلاتا ہوں کہ ان سوالوں کا جو اب دینے کے لئے نہ افلاطون کی حکمت چاہیے اور نہ بقراط کی۔
سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ ہم بصیرت اور بصارت کی نعمتوں سے کیوں محروم ہو گئے ؟ماضی قریب میں میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا‘ میں وہ بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ‘تاکہ اپنے مؤقف کووضاحت سے پیش کر سکوں۔ میں لندن کے ایک علاقے میں کار چلا رہا تھا ‘جس سے میں ہر گز واقف نہ تھا۔ منزل کی تلاش میں ایک ایسی سڑک پر جا نکلا‘ جس کے سامنے T کا نشان لگا ہوا تھا۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ یہ سڑک آگے جا کر ختم ہو جاتی ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ کار کا رخ تو میں نے بدل لیا ‘مگر میں وہاں رک کر یہ سوچتا رہا کہ میری قوم بھی ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے‘ جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ طریقہ۔ ہم سے یہ بھول ہوئی کہ ہم نے T کا وہ نشان نہیں دیکھا۔ 
سوالیہ نشان روزِ روشن سے کم منور اور کم تابندہ نہ تھے‘ مگر ہماری قیادت سے یہ تاریخی بھول ہوئی کہ نہ اس نے خود سوالیہ نشان دیکھا اور نہ قوم کو دکھایا۔ یہ ہے وہ غفلت ‘جس کا کروڑوں لوگ 71 برسوں سے خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں اپنے ساتھی کالم نگاروں کا شکریہ ادا کروں‘ جنہوں نے اپنی عالمانہ اور فاضلانہ تحریروں میں میرے اس مؤقف کو بڑے مدلل انداز میں بیان کیا ہے کہ اگر ہم آنے والے دنوں میں ایک گہری دلدل میں گرنا نہیں چاہتے اور ایک گلی کی بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو مزید ذلیل و خوار ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی مملکت کی عمارت کو جن بارہ ستونوںپر کھڑا کرنا ہوگا ‘وہ مندرجہ ذیل ہیں: 
1: فلاحی مملکت کا قیام ۔2: قانون کی حکمرانی۔ 3: احتساب اور شفافیت کا نظام ۔4: اختیارات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اجارہ داری کی بجائے خود مختار ضلعی حکومتوں کا قیام ۔5:شراکتی جمہوری نظام ۔ہر سطح پر عوام اور بالخصوص محنت کشوں کی شرکت اور فیصلہ سازی کے عمل میں موثر کردار۔6:کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین کی لاکھوں بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم ۔7: غیر منافع بخش قومی کاروباری اداروں‘ مثلاً: ریلوے‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل کے ملازمین اور کارکنوں کو ان کا مالک بنا دیا جائے ۔8:عوام دوست اور عوام کے آگے جوابدہ سرکاری نظام ۔9: ایسا قانونی نظام جو سستا اور جلدی اور ہر قسم کی کرپشن سے پاک انصاف دے سکے ۔10: اردو کو سرکاری زبان بنانا اور تمام علاقائی زبانوں کو تعلیمی اداروں میں پڑھانا۔11:آئین میں لکھے ہوئے تمام بنیادی حقوق خصوصاً اظہارِ رائے کی آزادی کا عملی احترام ۔12: خود کفالت کی حکمت عملی پر سختی سے عمل ۔ درآمدات اور سرکاری اخراجات کو فی الفور نصف کر دیا جائے‘ تاکہ ہم اربوں کھربوں ڈالروں کے قرضوں کے جال سے اپنے آپ کو آزاد کروا سکیں۔ 
چھ ہزار کے فاصلے اور راستے میںسمندروںاور اونچے پہاڑوں کی موجودگی کے باوجود اس کالم نگار کے کان وطن ِعزیز کی طرف لگے رہتے ہیں اور ان دنوں اسے جو آواز سب سے بلند سنائی دیتی رہی ہے‘ وہ ہے؛ میثاقِ معیشت کی۔ یہ سن کر اور پڑھ کر میرے دل میں اضطراب کی اور بڑی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اگر‘ موجودہ سیاسی جماعتوں کے نمائندے اس میثاق کو مرتب کریں گے تو وہ اتنا ہی عوامی دشمن ہوگا جتنا ان کا میثاقِ جمہوریت۔ لوٹ مار کرنے والا طبقہ نہ ہماری حکومت کو بچا سکتا ہے اور نہ ہماری معیشت کو۔ میں اس انگریزی محاورہ کا ترجمہ پہلے بھی اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ آپ بیک وقت شکاری کتے اور شکار کئے جانے والے خرگوش کے ساتھ نہیں دوڑ سکتے۔ جلا کر راکھ بنا دینے والی آگ اور اس آگ کو بجھانے والے فائیر بریگیڈ میں نہ دوستی ہو سکتی اور نہ خیر سگالی اور نہ مفاہمت۔ اگر‘ آپ خون چوسنے والے جونکوں اور خوبصورت خواتین کے ذریعے چوری کا مال بیرون ملک پہنچانے اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں کے Lockers کو اربوں ڈالروں سے بھرنے والوں سے مشورہ کریں گے کہ ہم اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو کس طرح بچائیں ‘جس میں آپ کو بدعنوانیوں نے اتنے سوراخ کئے ہیں؟ تو وہ آپ کووہی 'صائب‘ مشورہ دیں گے جو پہلے شوکت عزیز پھر اسحاق ڈار اور دوسرے سابقہ ادوار کی حکومتوں کو دیتے چلے آئے ہیں۔آزادی مل جانے کے بعد ہم نے یہ اتنی فاش غلطی کی کہ انگریز کو تو اپنی سرزمین سے نکال دیا‘ مگر ان کے بنائے ہوئے غلامانہ نظام خصوصاً انیسویں صدی کے آخر میں بنائے گئے قوانین کو جوں کا توں رکھا۔ اسی طرح ہم نے اپنے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو تو برطرف کر دیا‘ مگر ان کے معاشی نظریہ کو بدستور نسخہ کیمیا کا درجہ دے رکھا ہے۔ کالم نگار کون سی دعا مانگے کہ ہمارے قائدین کو یہ حقیقت سمجھ آجائے کہ اسد عمر بطورِ وزیر ہر گز ناکام نہیں ہوئے‘ بلکہ ان کی معاشی پالیسی کو منہ کی کھانی پڑی ‘د وسرے الفاظ میں وہ منہ کے بل گر پڑی۔ نجومی ہونے کا دعویٰ کئے بغیر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی اتنے ہی ناکام ہوں گے جتنے ان کے 'نابغہ روزگار‘ پیشرو۔ آنے والے وقت میں ڈالر اور اونچا جائے گا‘ روپیہ مزید گرے گا‘ مہنگائی اور بڑھے گی اور بے روزگاری بھی۔ افراطِ زر میں اضافہ ہوگا اور کروڑوں لوگوں کیلئے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا اور محض گزارہ کرنابھی مزید مشکل ہو جائے گا۔ آپ‘ ارب کھرب پتی لوگوں کو ایک طرف رہنے دیں‘ متوسط طبقہ بھی ''مال مست ہے‘‘ ‘وہ خطرے کی گھنٹی سن تو رہا ہے‘ مگر وہ نہ ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی حمایت کرتا ہے اور نہ اساتذہ کی‘ نہ لیڈی ہیلتھ ورکروں کی اور نہ خواتین اساتذہ کی‘ نہ کسانوں کی اور نہ مزدوروں کی۔ حمایت تو دور کی بات ہے‘ اُسے تو لگتا ہے کہ پروا بھی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ محنت کشوں کو افتادگانِ خاک بنایا گیا ہے‘ وہ اس مقام پر سسک سسک کر جینے کے مستحق ہیں۔ کالم نگار کی بوڑھی آنکھوں میں اتنے آنسو نہیں کہ اس المیے پر باافراط بہائے جانے کا حق ادا کرسکیں۔ کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟
کالم ختم ہونے کو آیا تو میرے کانوں میں اقبال کی آواز آئی۔ وہ فارسی بول رہے تھے اور کہہ رہے تھے: پس چہ باید کرد۔ یہ اُن کی ایک مشہور نظم کے مطلع کے پہلے الفاظ ہیں۔ اُردو ترجمہ ہے کہ پھر ہم کیا کریں؟ سوال وہی ہے ‘جو اقبال نے سو سال پہلے ہمارے سامنے رکھا تھا۔ ایک صدی گزر گئی‘ ہم ابھی تک جواب نہیں دے سکے۔ ہمارے ملک میں نہ کوئی پارٹی ناکام ہوئی اور نہ کوئی لیڈر۔ ایک بوسیدہ‘ فرسودہ‘ گلاسڑا‘ عوام دشمن اور انگریز کا بنایا ہوا نظام ہے ‘جو 71 برسوں سے مسلسل ناکام ہوتا چلا آیا ہے۔ ناکامی اس کا مقدر ہے۔ اگر ‘ایسا ہے تو نجات کس میں ہے؟ عقل و دانش کا چراغ کہاں روشن ہے؟ ہم اندھیرے سے روشنی کا سفر طے کریں تو کیونکر؟ یہ وہ سوالیہ نشان ہے‘ جو آج بھی جواب طلب ہے۔ 
آج ہم بطورِ قوم جس مقام پر کھڑے ہیں ‘وہاں سے جس طرف بھی دیکھیں ہمیں ایک بڑا نشان نظر آتا ہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے‘ جو ہمیں گھور گھور کر غیر دوستانہ نظروں سے دیکھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں