دو نئی اور اچھی کتابیں

کالم کی جگہ محدود اور کالم کا موضوع وسیع و عریض۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ بے چارہ کالم نگار دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر بھی نہیں جانتا۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ قارئین سانس روک لیں اور جگر تھام لیں اور کالم نگار کو یہ موقع دیں کہ وہ آپ کو دو نئی کتابوں سے متعارف کرانے کا ارمان پورا کر لے۔ اختصار کے آزمودہ نسخے پر عمل کر کے۔
برائے مہربانی یاد رکھیں کہ امریکہ میں سارے لوگ نہ موجودہ صدر ٹرمپ کو پسند کرتے ہیں اور نہ ان کے ہم خیال ہیں۔ امریکہ میں اتنے زیادہ عوام دوستوں نے اتنے چراغ جلائے ہیں کہ ان کی روشنی بنی نوعِ انسان کا قابلِ فخر سرمایہ بن گئی ہے۔ آیئے ہم دیگ میں سے ایک چاول چکھیں۔ اس کا نام ہے Chris Arnade ۔ اُس نے بہترین درس گاہوں میں فزکس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ کئی برس یہ مضمون پڑھانے کے بعد نیو یارک کی کاروباری دنیا کی شاہ رگ (وال سٹریٹ) میں بطور تاجر دولت اور نام کماتا رہا۔ آٹھ برس پہلے اس کی کایا پلٹی۔ وہ کاروبار کو تیاگ کر اور کیمرہ لے کر نیو یارک کی ایک غریب بستی (South Bronx ) جا نکلا اور اُس کے گوشے گوشے کو پیدل چل کر دیکھا اور اپنے کیمرے میں اُن تصاویر کو محفوظ کر لیا جو افتادگانِ خاک کے شب و روز کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس نیک دل شخص کو پختہ یقین تھا کہ وال سٹریٹ امریکہ میں آنے والے مالی بحران کا ذمہ دار ہے‘ مگر وہ اپنی لوٹ مار کا شکار ہونے والے لاکھوں کروڑوں افراد کو ایک نظر اُٹھا کر دیکھنے کا روا دار بھی نہیں۔ وہ زندہ رہیں یا زندہ درگور ہو جائیں‘ ان ارب پتی افراد اور کھرب پتی کمپنیوں کی بلا سے۔ موصوف کے دل میں Have Nots ‘یعنی محروم طبقات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اُن سے ملنے اور سچائی کو براہ راست مشاہدہ سے جان لینے کی خواہش اتنی شدت سے جاگی کہ وہ کئی سال امریکہ کے طول و عرض میں چند سو یا چند ہزار میل نہیں بلکہ پورے ڈیڑھ لاکھ میل پیدل چلا۔ اس نے کیا دیکھا اور کیا سنا؟ یہ سب کچھ اس کی لکھی ہوئی کتاب میں ہے۔ جس کا نام ہے Dignity: Seeking Respect in Back Row America ۔ 304 صفحات کی یہ کتاب اُن تصاویر پر مشتمل ہے جو امریکہ میں سماجی ناانصافی اور عدم مساوات کو اتنے اچھے طریقہ سے دکھاتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر آپ کو وہ سچائی نظر آجاتی ہے جس پر امریکہ کا استحصالی نظام چلانے والے سنہرا غلاف چڑھائے رکھتے ہیں۔ اقبال نے لینن کی زبان سے یہ شعر کہلوایا تھا۔ ؎
تو قادرِ مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
امریکہ میں کم اُجرت لینے والے مزدوروں کی زندگی کی تلخی ان تصاویر سے صاف جھلکتی ہے۔ کتاب کا مصنف ان تصاویر کے ذریعے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا اور شعور کی سطح کو بلند کرنا چاہتا ہے۔ وہ صرف مال مست امیروں سے نہیں بلکہ حال مست غریبوں سے بھی مخاطب ہے۔ وہ چاہتا ہے لوٹ مار‘ خود غرضی‘ استحصال اور بے حد و حساب لالچ پر مبنی عوام دشمن نظام کو بدل دیا جائے۔ وہ ایسا انقلابی ہر گز نہیں جو ایک طرف کاخِ اُمرا کے درو دیوار ہلانا چاہتا ہے اور دوسری طرف مزارعین کو ان کے حق سے محروم کرنے والے کھیت سے اُگنے والے خوشۂ گندم کو جلانے کا سبق پڑھاتا اور سکھاتاہے۔ اُس کے خیالات ہمارے اقبال سے بالکل مختلف ہیں ‘جو فرشتوںکے نام فرمانِ خدا کو اس طرح منظوم کرتے ہیں کہ عالمی ادب میں اتنی دھماکہ خیز نظم کا ملنا دشوار ہو گیا ہے۔ Dignity کی تصاویر دیکھنا یوں ہے جیسے ہم کوئی کلاسیکی راگ بڑے دھیمے سروں میں سنیں یا بڑی ہلکی بوندا باندی میں ندی کنارے سیر کریں۔ اقبال نے بجا طور پر لکھا کہ: ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔Dignity نامی کتاب مرتب کرنے والے کی نظر میں محروم طبقات سے دوستی اور آگے چل کر محبت کارشتہ اُن کی طرف توجہ دینے سے قائم ہوگا۔ عوام دوستی کا جذبہ مراعات یافتہ طبقے کے دلوں کے قُفل کھولے گا۔ یہ ہے وہ کارنامہ جو وطن عزیز میں ایدھی فائونڈیشن‘ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت اور اور تھر میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی خیراتی تنظیم نے سرانجام دیا۔ صرف ان تینوں نے نہیں بلکہ خدمت ِ خلق کی ہر تنظیم اور ہر تحریک نے۔ اجازت دیجئے کہ امریکی شاعرہMary Oliverکا ایک قول من و عن درج کیا جائےAttention Is the Beginning of Devotion۔
جب دوسری کتاب کی طرف چلنے کا مرحلہ آیا تو ماتھا ٹھنکا‘ آدھا کالم تو ختم ہو گیا‘ کہیں بات ادھوری نہ رہ جائے۔ Yale یونیورسٹی پریس نے اسلامی تاریخ کے ایک ناقابل فراموش ہیرو سلطان صلاح الدین ایوبی پر ایک کتاب شائع کی ہے‘ جوJonathan Phillips نے لکھی۔ دریائے دجلہ کے کنارے پیدا ہونے والے صلاح الدین 1193ء میں دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی سلطنت تیونس سے یمن‘ ایران اور ترکی تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے یروشلم پر صلیبی جنگ لڑنے والے عیسائی فوج کا 88 سالہ قبضہ ختم کروایا۔ قرون ِ وسطیٰ کے عیسائی راہب صلاح الدین ایوبی کو اچھے نام سے یاد نہ کرتے تھے تاہم ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں لکھے جانے والے ناولوں میں انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ پچھلی صدی میں برطانیہ کی بحریہ نے ایک جنگی جہاز کا نام صلاح الدین رکھا اور فوج نے ایک بکتر بند گاڑی کے لئے بھی یہ نام چنا۔ فاضل مصنف نے بڑی دیانتداری سے صلاح الدین کی شجاعت‘ اعلیٰ ظرفی‘ بلند حوصلے‘ بہادری اور بے خوفی کی تعریف کی ہے ۔صلیبی ا فواج نے مسجد اقصیٰ کو اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنایا جبکہ صلاح الدین نے سارے گرجا گھروں (خصوصاً یروشلم میں Church of the Holy Sepulchre) کے تقدس کا احترام کیا۔ فتوحات کے دوران لوٹی گئی دولت غریبوں ناداروں میں تقسیم کر دی۔ کئی تاریخی کرداروں کی طرح صلاح الدین کی زندگی کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں بھی حقیقت اور افسانہ گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر والٹر سکاٹ کے ناول The Talismanمیں یہ واقعہ درج کیا گیا ہے کہ صلاح الدین بھیس بدل کر دشمن کے جنگی کیمپ میں گیا اور وہاں طبیب بن کر اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن رچرڈ شیردل کا علاج کیا۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ من گھڑت داستان ہے۔ صلاح الدین کی خوبیاں اپنی جگہ مگر قسمت نے بھی یاوری کی۔ مثال کے طور پر مصر اور شام کے حکمرانوں کی قبل از وقت وفات نے صلاح الدین کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہٹا دی۔ وہ سفارتی مذاکرات کے ذریعہ یروشلم پر قابض ہو نے میں کامیاب رہا مگر میدان جنگ میں Alre کا علاقہ کھو بیٹھا۔ صلاح الدین کی فتوحات میں سب سے شاندار 1187ء میں Hattin کی جنگ میں کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ یہ اس کی فوجی حکمت عملی کا کمال تھا کہ اس نے عیسائی حملہ آور فوج کو موسم گرما میں ایک لق و دق بیاباں میں مارچ کرنے پر مجبور کرکے ادھ مُوا کر دیا۔ پھر ان پر کبھی آگ برسائی اور کبھی انہیں سیلابی پانی کا نشانہ بنایا۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں صلاح الدین نے نہ صرف اپنے مخالفوں کا قلع قمع کیا بلکہ اسلامی تہذیب کے سب سے روشن پہلوJoie de vivre(روشن خیالی) کو بھی ختم کر دیا۔ اس نے شام کے شہر Aleppo میں ایک بڑے فلسفہ دان کو سولی پر چڑھادیا۔ صلاح الدین نے مصر پر حکمران فاطمی سلطنت کو نیست و نابود کر دیا۔ فاطمی حکمرانوں کے بنائے ہوئے کتب خانوں اور ان کی لاکھوں ایکڑوں پر مشتمل جاگیروں کو فروخت کر کے ان کے محلات میں مدرسے بنا دیئے۔ یہ تھا لکیر کی ایک طرف کا منظر جبکہ ہمیں لکیر کی دوسری طرف علامہ اقبال‘حسرت موہانی‘ عبیداللہ سندھی‘ شاہ ولی اللہ ‘ہاری رپورٹ والے مسعود کھدر پوش اور جاوید غامدی جیسے نابغہ نظر آتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں