ریکوڈک کا پوسٹ مارٹم

زلزلہ ہزاروں میل دور بحر ہند اور بحر اوقیانوس کے اُس پار آیا اور پاکستان کی خستہ حال چولیں ہلنے لگیں۔ ہمارے چہروں کے رنگ (جو پہلے ہی زرد تھے) فق ہو گئے اور عین نستعلیق محاورہ کے مطابق ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ شہر آشوب کا مرثیہ لکھنے والوں کے ذہنوں میں گہری تشویش کی دھند اور گہری ہوگئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا اور ہونٹوں پر غالب ؔکا ایک مصرع : 
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
یہ تھاوہ ردعمل جو سات سمندر پار سے ایک بہت بری خبر ملنے پر لاکھوں ہموطنوں کے دل و دماغ میں بہت سے سوالوں کی صورت میں ابھرا۔ ابھی ہم کرکٹ کے ورلڈ کپ میں سیمی فائنل کے مرحلے تک نہ پہنچ سکنے کے صدمے سے نہ سنبھلنے پائے تھے کہ واشنگٹن میں عالمی بینک کے ایک ثالثی ادارے نے کان کنی کرنے والی کمپنی ٹیتھیان سے غیر قانونی طور پر معاہدہ منسوخ کرنے پر حکومت پاکستان کو چھ ارب ڈالر بطور ہرجانہ اور سود ادا کرنے کا حکم دے دیا۔یہ معاہدہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے مقام پر تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر کو نکالنے کا تھا۔کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان ذخائر کاپتہ چلانے پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے‘ مگر جب اُس نے حکومت بلوچستان سے ایک مخصوص علاقہ Long Lease پر دینے کی درخواست کی تو وہ مستردکر دی گئی۔ افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لے کر اس معاہدے کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔ کالم نگار اپنے دوسرے لکھے ہوئے کالموں کی اشاعت روک کر مندرجہ ذیل سطور رات دیر تک جاگ کر لکھ رہا ہے تاکہ اپنے قارئین کی توجہ اُن سوالوں کی طرف مبذول کرائی جا سکے جو ان دنوں سوتے جاگتے کالم نگار کے بوڑھے دماغ میں اس طرح گردش کر رہے ہیں کہ کوئی اور بات نہیں سوجھتی۔ یہاں تک کہ کلبھوشن کے تنازع پر عالمی عدالت کے فیصلے کی طرف بھی میرا دھیان نہیں جاتا۔ برائے مہربانی اب گیارہ سوالوں کی فہرست ملاحظہ فرمایئے تاکہ ہم اپنے صاحبانِ اقتدار و اختیار اور اربابِ بست وکشاد سے ان کے جواب مانگیں ۔
1:جب مقدمہ بلوچستان کی عدالت عالیہ میں پیش ہوا تو حکومتِ بلوچستان نے معاہدہ برقرار رکھنے کی حمایت کی اور جب وہ اپیل میں عدالتِ عظمیٰ میں لایا گیا تو اُسی حکومت نے کن وجوہات اور دلائل کی بنیاد پر اپنا مؤقف بدلا اورU Turn لے کر اُس معاہدے کی مخالفت کی؟
2: حکومت بلوچستان نے جب ٹیتھیان کے کان کنی کے معاہدے پر طویل مذاکرات کے بعد دستخط کئے تو یقینا اُس کی شرائط باہمی رضا مندی اور گفت و شنید سے طے ہوئی ہوں گی۔ کیا متعلقہ سرکاری محکموں اور کابینہ کی کارروائی کا ریکارڈ دستیاب ہے جو تحقیقی کمیشن پڑھ سکتا ہے اور ہمیں بتا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ ان شرائط پر (جو بعد میں ناقابل قبول سمجھی گئیں) کیوں طے پایا؟
3: قارئین نے جمعرات (18 جولائی) کو اسی صفحہ پر شائع ہونے والے کالموں میں کنور محمد دلشاد صاحب اور اکرام سہگل صاحب کے اسی موضوع پر مضامین ضرور پڑھ لئے ہوں گے (سہگل صاحب کا خصوصی شکریہ کہ انہوں نے جناب مقبول احمد کے بے حد معلوماتی مضمون کا بھی حوالہ دیا) اس لئے میرے لئے ان میں لکھی گئی باتوں کو دُہرانا قطعاً غیر ضروری ہوگا۔ مجھے اجازت دیجئے کہ مندرجہ بالا کالموں میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کے بیٹے ارسلان کی بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کی سربراہی اور ریکوڈک کے حوالے سے شک و شبہ کو جنم دینے والے کردار کی جس طرح نشان دہی کی گئی ہے‘ میں اُس پر اپنا تبصرہ ایک انگریزی زبان کا محاورہ لکھ کر بیان کروں:I smell a rat ۔ کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم کوڑا کرکٹ کو قالین کے نیچے چھپانے کی بجائے سارے حقائق (چاہے وہ کتنے تلخ ہوں اور ہمارے اعصاب پر کتنے ہی گراں گزریں) کو منظر عام پر لائیں۔ میں ایک بار پھر لکھتا ہوں کہ ارسلان افتخار کو لازماً شاملِ تفتیش کیا جائے۔ اپنے معزز باپ کی سفارش کے علاوہ ارسلان میں اور کون سی خوبی تھی کہ اُسے اتنی بڑی ذمہ داری سونپی گئی؟ اور اگر (ہماری بدقسمتی سے) وہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائض کر دیا گیا تھا تو ریکوڈک تنازع میں اُس کا کیا کردار تھا؟
4 : کالم نگار ایک تجربہ کار وکیل نہ بھی ہوتا اور وکالت کی صرف ابجد سے واقف ہوتا تب بھی وہ یہ لکھنے کی جسارت کرتا اور نہ گستاخی کہ ہم اب جناب افتخار چوہدری صاحب کے لکھے گئے فیصلے کو خورد بین کے نیچے رکھ کر پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ اس میں کون کون سے قانونی سقم ہیں مگر غالباًہم (دو اور انگریزی محاوروں کے مطابق) اپنی ساری جرأت کو اپنی مٹھی میں سمیٹ کر اور بیل کو اُس کے دونوں سینگوں سے پکڑ کر یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ افتخار چودھری صاحب کو از خود نوٹس لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ انہوں نے درجنوں بین الاقوامی معاہدوں میں سے صرف اسی ایک کو اپنی خصوصی توجہ کا مستحق کیوں سمجھا؟ کیا یہ مضحکہ خیز قلابازی بھی اُن کی آنکھوں سے اوجھل رہی کہ بلوچستان حکومت عدالتِ عالیہ میں جس معاہدے کی مدافعت کر رہی تھی وہ عدالتِ عظمیٰ کی سطح پر اُسے منسوخ کرانے میں کیوں پیش پیش تھی؟ 
5:کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری نے حکومت بلوچستان کو کیا مشورہ دیا اور اُن کی معاونت کن ماہرین نے کی؟ 
6 : یہ پوچھا جائے کہ ایک نامور سائنس دان نے عالمی ٹربیو نل میں کس کے ایما پر گواہی دی؟ اُن کی گواہی کا مقصد کیا تھا؟ اُن کے علاوہ اور کون کون سے ماہرین نے گواہی دی اور اپنی گواہی میں کون سے بیانات جمع کرائے؟
7: اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کالم نگار کی طرح ہر شخص کو بڑی دشواری ہوتی ہے کہ معزز عدالت یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ بین الاقوامی کمپنی سے کئے گئے معدنیات نکالنے کے کمرشل معاہدہ کو منسوخ کرنے کی مجاز نہ تھی۔ عالمی ٹربیونل کے طویل فیصلہ کے پیراگراف نمبر171 پر اس ناقابل یقین لاعلمی کو Oblivious کا نرم لفظ استعمال کر کے بیان کیا گیا ہے؟
8 : عدالتِ عظمیٰ صرف ایک صورت میں مذکورہ بالا معاہدہ کو منسوخ کرنے کی مجاز تھی اگر اُس کے پاس ٹھوس ثبوت ہوتا کہ اس معاہدہ سے کرپشن کی بو آتی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے پہلے ضروری تھا کہ عدالت ایک تحقیقی کمیشن مقرر کرتی اور اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کرتی۔یہ کمیشن کیوں نہ بنایا گیا؟
9: ہمیں اس بات کا کون جواب دے گا کہ معاہدے کی شرائط لکھتے وقت یہ کیوں مان لیا گیا کہ کروڑوں ٹن کی کچ دھات (Ore ) کو چاغی سے کراچی اور پھر کراچی سے بحری جہازوں سے کسی اور ملک کو روانہ کی جائے گی۔ اس Logistical Nightmare کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیا گیا۔ کیا وجہ تھی کہ تانبے اور سونے کو کچ دھات سے علیحدہ کرنے کی ریفائنری چاغی میں (جہاں اس کمپنی نے ایک ایئر پورٹ بنایا) تعمیر نہ کی جا سکتی تھی؟
10: ٹیتھیان کے ساتھ معاہدہ منسوخ کرنے کے بعد ریکوڈک سے تانبے اور سونے کے اربوں ڈالر مالیت کے ذخائر کو کان کنی سے نکالنے کے منصوبے کے کون سے متبادل انتظامات کئے گئے؟
11:آخری نکتے کا تعلق کالم نگار کے اپنے پیشے سے ہے۔ غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق صرف ایک قانونی مشورے کے لئے (جس کا تعلق عالمی ثالثی ادارے کے دائرہ اختیارسے تھا‘ ایک برطانوی وکیل (مسز شیری بلیئر) کو ایک ارب روپے فیس ادا کی گئی۔ اتنی بڑی فیس کی ادائیگی کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ وہ Queen's Counselتھیں۔ کالم نگار کا اپنا ایک بیٹا بھی Queen's Counselہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کتنی فیس لیتا ہے۔ چوٹی کے وکیل کے مشورے کی فیس کبھی ایک لاکھ پائونڈ سے زیادہ نہیں ہوتی تو حکومت پاکستان نے چھ لاکھ پائونڈ کس حساب سے ادا کئے؟ تحقیقی کمیشن دیکھے کہ کیا برطانوی وکیل نے واقعی چھ لاکھ پائونڈ کا بل بھیجا؟ کیا اسے اتنی فیس ادا کی گئی یا 85 فیصدفیس درمیانی سہولت کار کھا گئے؟ ہم جب تک ریکوڈک کے معاملے کا پوسٹ مارٹم نہ کریں گے ‘ہمارا نظام حکومت آنے والے وقتوں میں بھی ایسے المیوں سے دوچار ہوتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں