فرعون برائے فروخت

اس کالم کو شروع کرتے ہی یہ صدقِ دل (جو اِن دنوں بہت کمیاب جِنس بن چکی ہے) سے مان لینا چاہئے کہ کالم نگار نے اپنے کالم کا جو عنوان رکھا‘ وہ جان بوجھ کر گمراہ کن بنایا گیا تاکہ پیارے قارئین کی توجہ ان سطور کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔ جب فرعون قبیلے کے بادشاہوں کو صفحہ ہستی سے مِٹے ہوئے بھی ہزاروں سال گزر چکے ہیں تو اب صرف ان کی حنوط شدہ لاشوں (Mummies) یا اُن کے بتوں کو فروخت کیا جا سکتا ہے اور فروخت بھی نیلامی کے ذریعے۔ تقریباً ایک صدی گزر گئی مگر نیو یارک‘ لندن اور پیرس کے نیلام گھروں میں باقاعدگی سے فرعونوں کے بت یا اُن کا سازوسامان سب سے زیادہ بولی دینے والے کے ہاتھوں فروخت کئے جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آج آپ جو سطور پڑھیں گے وہ اُس خبر کے حوالہ سے لکھی جا رہی ہیں جو دو جولائی کے برطانوی اخبار The Times کے صفحہ نمبر گیارہ پر نمایاں طور پر شائع کی گئی۔ خبر یہ تھی کہ شہرہ آفاق فرعون طوطن اخمون (Tutan Akhamun) کے مجسمہ (جو صرف اُس کے چہرہ تک محدود ہے) کو لندن کا چوٹی کا نیلام گھر Christies مستقبل قریب میں نیلام کرنا چاہتا ہے اور مصری حکومت اس نیلامی کے راستے میں ہر ممکن رُکاوٹیں کھڑی کرکے اسے منسوخ کرانا چاہتی ہے۔ اُس کا موقف یہ ہے کہ یہ مال مسروقہ ہے اور ایسی نیلامی کی اجازت نہیں دینی چاہئے جس کے ذریعے چوری کے مال کو ٹھکانے لگانے کے لئے غیر قانونی اقدامات کیے جا رہے ہوں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو یقینا علم ہوگا کہ فرعون کسی ایک خاص شخص کا نہیں بلکہ بادشاہوں کی ایک ایسی Dynasty کا نام ہے جس نے مصر پر تین ہزار سال حکومت کی۔ مصری بادشاہ اُسی طرح فرعون کہلاتے تھے جس طرح رُوس کے بادشاہوں کو زار اور جرمن بادشاہوں کو قیصر کہا جاتا تھا۔ اب ہم واپس طوطن اخمون کی طرف چلتے ہیں جس کا فرعونوں کی اٹھارہویں پشت سے تعلق تھا۔ (1340 قبل مسیح)Akhenton اُس کے باپ کا نام تھا۔ وہ بارہ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں فوت ہو گیا۔ 1822 میں برطانوی ماہر آثارِ قدیمہ ہاروڈ کارٹر نے Thebes کے مقام پر اُس کا زیر زمین مقبرہ دریافت کرکے اور اُس کی کھدائی کرکے حنوط شدہ لاش نکال کر اپنے سرپرستLord Carvanron کے حوالے کر دی تھی‘ جس نے اسے برٹش میوزیم کو بطور عطیہ دے دیا تھا۔ طوطن اخمون کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اُس نے Amoon کو اہل مصر کا دیوتا بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے Thebes کو مصر کا دارالحکومت بنا دیا۔ Amoon سے تعلق کی وجہ سے اسے مقدس شہر سمجھا جاتا تھا۔ طوطن اخمون کے چہرے کا بت تین ہزار سال پہلے تراشا گیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ بت لندن کس طرح پہنچا؟ نیلامی کرنے والے اصرار کر رہے ہیں کہ سب سے پہلے یہ بت جرمن شہزادے کی ملکیت بنا اور پھر کئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا لندن کے نیلام گھر تک پہنچا۔ اب مصری حکومت مطالبہ کر رہی ہے کہ لندن کا مذکورہ نیلام گھر دستاویزات دکھا کر ثابت کرے کہ فرعون کے بت مصر سے برطانیہ کا سفر کیسے طے کر پائے۔ یہ ہے وہ بھاری پتھر جو لندن کے نیلام گھر نے چوم کر چھوڑ دیا ہے۔
طوطن اخمون کی والدہ اُس کے والد کی بہن تھی (قبل از مسیح دور کے مصر میں اور فرعونوں کی بادشاہت میں سگے بہن بھائی کو شادی کی اجازت تھی)۔ مندرجہ بالا سطور گپ شپ کے زمرہ میں نہیں آتیں بلکہ یہ مستند سائنسی تحقیق کے بعد ثابت ہو جانے والے حقائق پر مبنی ہیں۔ یہ تحقیق جدید تجربہ گاہوں میں (DNA) Genetic Testing کی بدولت نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ طوطن اخمون تخت نشین ہوا تو اُسے کم عمری کے باوجود شادی کرنا پڑی۔ ملکہ اُس کی سوتیلی بہن تھی۔ شادی سے پہلے اُس کا نام Ankhese Paatenتھا اور شادی کے بعد Ankhesenamun ۔ نام کا پہلا حصہ وُہی رہا اور آخری حصہ Paaten سے بدل کر Namun ہو گیا۔ شادی شدہ جوڑے کے گھر بیٹیاں پیدا ہوئیں جو ایام طفولیت میں ہی وفات پا گئیں۔ سائنسی تحقیق نے ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور پر معذور تھیں۔ طوطن اخمون کے دور میں مصر دُنیا کا سب سے بڑا طاقتور ملک تھا۔ سو اس نے اپنے والد (اور سابق بادشاہ) کے دور کا سرکاری مذہب (ماہرین کے الفاظ میں Radical Religious Innunation ) مسترد کرتے ہوئے دقیانوسی عقائد کو اپنا لیا۔ طوطن اخمون کی بادشاہت کا عرصہ اُس کی عمر کے Teenage سالوں تک محدود رہا۔ یہی وجہ ہے کہ عنانِ حکومت اُس کے وزیر (AY) کے ہاتھوں میں رہی۔ وہ اُمور مملکت کا اتنا اچھا ماہر تھا کہ وُہی طوطن اخمون کا جانشین بنا۔ طوطن اخمون دُوسرے فرعونوں سے اس لحاظ سے ممتاز تھا کہ اُس کی زندگی میں ہی لوگ اُس کی پرستش کرنے لگے۔ اُس کی رعایا کا عقیدہ تھا کہ اگر وہ گناہوں کے مرتکب ہوں تو اُنہیں دیوتا بیماری کی شکل میں سزا دیتے ہیں اور جب تک بادشاہ اُنہیں معافی نہ دے وہ صحت یاب نہیں ہو سکتے۔ جب طوطن اخمون فرعونوں کے تخت پر بیٹھا تو مصر مالی طور پر بڑے بحران کا شکار تھا۔ دُوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی بڑے غیر دوستانہ تھے۔ طوطن اخمون نے اپنے ملک کی مالی حالت کو سدھارنے اور خارجہ تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف خصوصی توجہ دی۔ اُس نے اپنے پڑوسی ملک Nubia کے خلاف کئی جنگوں میں حصہ لیا مگر اُسے کوئی قابل ذکر فتح حاصل نہ ہو سکی۔
ڈینگی بخار کے عذاب کی آمد سے پہلے ہم نے مچھر سے ڈرنا چھوڑ دیا تھا۔ برائے مہربانی آپ یاد رکھیں کہ بیسویں صدی میں کونین کے ذریعہ ملیریا کے علاج کی دریافت تک یہ انسانی زندگی کے سب سے بڑے دُشمنوں کی فہرست میں شامل تھا۔ طوطن اخمون کی لاش کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ بار بار کے ملیریا بخار نے آخر اس بے چارے کی جان لے لی۔ وہ فرعون کہلاتا تھا۔ ایک سلطنت کا مطلق العنان فرماں روا تھا۔ رعایا اُس کی پرستش کرتی تھی۔ محاورتاً نہیں بلکہ لفظاً مگر وہ مچھروں سے زندگی کی بازی ہار گیا۔ اُس دور کے رسم و رواج کے مطابق وفات اور تدفین میں 70 دنوں کا وقفہ ہوتا تھا تاکہ میّت کو حنوط شدہ بنایا جا سکے اور ظاہر ہے کہ یہ کام دقت طلب ہوتا ہوگا۔ ماہرین کی رائے میں طوطن اخمون کی حنوط شدہ میّت کو جن اشیا کے ساتھ دفن کیا گیا اُن کی کل تعداد 5398 تھی۔ خالص سونے کا بنا ہوا تابوت۔ Face Mask۔ تحت وتاج۔ تیرکمان۔ آلات موسیقی۔ اعلیٰ درجہ کی خوراک اور شراب۔ جوتے اورکپڑے۔ قبرتلاش کرنے والے ماہر آثارِ قدیمہ (ہاروڈ کارٹر) کو قبر میں ملنے والے سارے سامان کی شناخت اور فہرست سازی میں دس سال لگے۔ ایک اور ماہر (Nicholas Reeves ) کی رائے میں طوطن اخمون کی قبر میں دفن کئے جانے والے سامان کا 80 فیصد ایک فرعون ملکہ Neferite کے مزار سے لیا گیا تھا۔ وہ فرعون Akhenaten کی سب سے بلند درجہ ملکہ تھی اور اپنے شوہر کی وفات پر اُس کے تحت پر بیٹھی۔ طوطن اخمون اُس کا جانشین بنا اور اپنی پیش رو ملکہ کے سفرِ آخرت کے لئے رکھے گئے زادِ راہ کا بڑا حصہ اُس کی وفات پر ایک بار پھر کام آیا۔ ایک صدی قبل برطانیہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ جو لوگ طوطن اخمون کی قبر کے اندر داخل ہوں گے اُنہیں اس بے حُرمتی کی سزا قبل از وقت وفات کی صورت میں ملے گی۔ مثال دی جاتی تھی کہ یہ Earl Carnavlon مذکورہ فرعون کی قبر کی کھدائی کے بعد اُس میں چار نومبر1922 کو اُترا اور صرف پانچ ماہ بعد پانچ اپریل 1923کو جہانِ فانی سے رُخصت ہوا۔ قبر کشائی کے وقت موقع پر موجود لوگوں کی کل تعداد58 تھی مگر اگلے بارہ سالوں میں اُن میں سے صرف آٹھ فوت ہوئے۔ مندرجہ بالا افواہ یوں بھی غلط ثابت ہوئی کہ ایک خاتون قبر کشائی کے 57 سال بعد تک زندہ رہی۔ طوطن اخمون کے مزار سے نکالے جانے والے سامان کی برٹش میوزیم نے 1972 میں چھ ماہ نمائش کی جسے اس کالم نگار نے دُوسرے سولہ لاکھ لوگوں کے ساتھ دیکھا۔ آج کا کالم ختم ہونے کو تھا کہ ریڈیو پر ایک خبر سنائی دی۔ Christies میں ہونے والی نیلامی میں طوطن اخمون کے چہرہ کا بت (Bust) 45لاکھ پائونڈ کی سب سے بڑی بولی دینے والے نے حاصل کر لیا۔ خود طوطن اخمون کی اپنی مختصر زندگی کا سفر 1340قبل مسیح ختم ہو گیا تھا مگر اُس کے چہرے کے بت کا سفر بدستور جاری ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں