دلوں میں پڑی ہوئی لکیریں

صرف دلوں میں نہیں بلکہ دماغوں میں بھی لکیریں پڑی ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ لکیریں اتنی گہری اور پختہ ہو چکی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حامیوں‘ ووٹ دینے والوں اور زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے والے لاکھوں کروڑوں افراد کو اپنے پیارے راج دُلارے رہنمائوں کی اربوں ڈالروں کی کرپشن‘چوری چکاری‘ لوٹ مار‘ منی لانڈرنگ اور قومی خزانے کا بے دریغ ضیاع نظر نہیں آتا۔ بالکل نظر نہیں آتا۔ نہ بصارت کہ نظر آجائے اور نہ بصیرت کو سیدھی سادی بات سمجھ میں آجائے۔ اب ذرا دیوار کی دوسری جانب دیکھئے گا‘ عمران خان صاحب کے مداحوں کو بھی ان کی معاشی پالیسی کی ناکامی پر ابھی تک پوری طرح اعتبار نہیں آیا۔ اب آپ رختِ سفر باندھیں اور میرے ساتھ مشرق وسطیٰ چلیں۔ ہماری منزل اسرائیل ہے جہاں کے عوام کی اکثریت ہر انتخاب میں ایک ایسی پارٹی کو ووٹ دیتی ہے جو فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی سخت مخالف ہے اور یہ بھی دل و جان سے سچ مانتی ہے کہ اسرائیل کی فوجی طاقت فلسطینی عوام کے جذبۂ آزادی کا شعلہ بجھا دے گی۔ جرمنی میں ہٹلر‘ اٹلی میں مسولینی‘ سپین میں فرانکو‘ پرتگال میں سلازار‘ سوویت یونین میں سٹالن ‘ آج کے امریکہ میں ٹرمپ‘ مصر میں جنرل سیسی ‘ گزرے ہوئے چلی میں جنرل پنوشے‘ ہیٹی میں Papa Doc ‘ فلپائن میں مارکوس‘ برما میں فوجی جنتا‘اٹلی میں برلسکونی‘ارجنٹائن میں Peron ‘ تیونس میں زین العابدین‘ لیبیا میں کرنل قذافی۔عراق میں صدام حسین۔ غالباً یہ سولہ مثالیں کافی ہوں گی‘ مجھے انہی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ان میں تیرہ مثالیں ماضی قریب کی ہیں اور صرف تین دورِ حاضر کی‘ مگر ان میں ایک قدر مشترک ہے یعنی عوام دشمن حکمرانوں کی وسیع پیمانے پر بھرپور عوامی حمایت۔ یہ ہوتا ہے ؛Populist اور فسطائی (Fascist) حکمران اور نظامِ حکومت کا کمال۔ عوام دشمن حکمرانوں کو عوامی حمایت سے اقتدار مل گیا اور پھر عوام کی اکثریت یا اشرافیہ یا دونوں کی اخلاقی تائید سے اقتدار کے گھوڑے پر سالہا سال سواری کی۔ دھن‘ دھونس اور دھاندلی کی بدولت۔ سیاسی مافیا کے ترکش میں ایسے بہت سے تیر ہیں جو عین نشانے پر بیٹھتے ہیں۔ نہ کوئی ایسی عدالت بنی ہے جو اتنے بڑے مجرموں کو سزا دے سکتی ہے۔ نہ کوئی ایسی جیل بنی ہے جہاں ایسے بڑے مجرموں کو قید میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ کوئی ایسا سُرمہ یا آئی ڈراپ ایجاد ہواہے کہ وہ ہم عوام کی آنکھوں میں ڈالیں تو ہمیں اپنا خون چوسنے والی جونکیں نظر آنے لگیں۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ عوام جن رہنمائوں کو اقتدار کی گدی پر بٹھانے کے لئے اپنا گھر لٹاتے ہیں ‘وہی برسر اقتدار آکر انہیں بے ننگ و نام کہتے ہیں۔ ان سے قریبی رابطہ رکھنا تو درکار انہیں دور سے سلام کرنا بھی کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ خاکِ راہ میں رزق ڈھونڈنے والے افتادگانِ خاک کو وہ طبقہ ناقابلِ بیاں حقار ت سے دیکھتا ہے‘ جو بے پناہ دولت اور اختیارات کے نشہ میں ‘بقول اقبال نو پٔہر کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ 
کوئی بھی باضمیر شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے ملک میں حکومت لوگوں سے ووٹ لے کر فرش سے عرش تک یکایک پہنچ جانے والوں کی ہو یا کسی اور کی‘ ایک عام آدمی‘ عام کسان‘عام مزدور بلکہ نچلے متوسط طبقہ کا ایک فرد 72 سالوں سے تھانوں‘ کچہریوں اور سرکاری دفتروں میں دھکے کھاتا اور ذلیل و خوار ہوتا آرہا ہے۔ نہ تعلیم ‘نہ علاج‘ نہ انصاف‘ نہ روزگار‘ نہ تحفظ‘ نہ امن و امان‘ نہ صاف پانی اور نہ صاف ہوا۔ جس وقت اور جس دن یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کراچی پریس کلب کے باہر سینکڑوں مظلوم اور ستم زدہ نرسیں‘ ہماری بہنیں اور بیٹیاں‘ دس دنوں سے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی دھرنا دے رہی تھیں۔ سندھ کی حکومت ہی نہیں وہاں کی سیاسی جماعتیں‘ سماجی اور مذہبی تنظیمیں‘ وکلا کی بار ایسوسی ایشن کے عہدے دار‘ چھوٹے اور بڑے اخبارات اورنیوز چینلز ‘ کیا انہیں خدمت گزار نرسوں کا احتجاج نظر نہیں آیا؟ انہوں نے نرسوں کے جائز مطالبات کی طرف ذرہ بھر توجہ نہیں دی۔ کراچی کی سینکڑوں مساجد میں نماز جمعہ سے پہلے دیئے جانے والے خطبے میں اُن کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ ایک عرصہ ہوا کہ ہمارے ایک بڑے شاعر نے ہم سے پوچھا تھا کہ :
ثنا خوانِ تقدیس ِمشرق کہاں ہیں؟ہم آج تک تو اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔ اب محنت کش لوگوں خصوصاًخواتین کی حمایت میں آواز نہ اُٹھانے والوں کی تلاش گمشدگی کی رپٹ کہاں درج کرائیں؟ کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟ یہ ہیں وہ سوال جو یہ کالم نگار ہر ماہ ایک بار تو ضرور آپ کی سامنے رکھتا ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ نہ صرف متاعِ کارواں جاتا رہا بلکہ احساسِ زیاں بھی۔ آج کے کالم کا موضوع وہ ہمارے دلوں پر پڑی ہوئی گہری لکیرتھا۔ غور کیا ‘دیکھا تو معلوم ہوا کہ رفُو کا زیادہ کام کرنا ہوگا۔ چونکہ مجھے دلوں پر پڑے ہوئے جو قفل نظر آئے‘ وہ بھی زنگ آلود ہیں‘ گم شدہ چابی مل بھی جائے (حالانکہ یہ تہِ محرابِ مسجد سو جانے والوں اور فرنگی بت کدوں میں کھو جانے والوں کے بس کی بات نہیں) تو ہم زنگ آلودہ قُفل کو کھولیں تو کیونکر؟ کھل جا سم سم کے منتر کا میں کتنی بار تکرار کروں؟ کون سی دعا مانگوں اور کتنی دفعہ؟ آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر آنکھیں پتھرا چکی ہیں‘ مگر افلاک سے نالوں کا جواب نہیں آتا۔ کانوں میں صرف ایک آواز آتی ہے‘ رب العزت نے ہمیں آزادی کی صورت میں سب سے بڑی نعمت دی‘ ہم نے اس نعمت کی قدر نہیں کی‘ اسے ٹھکرا دیا اور یہ ثابت کیا کہ ہماری ذہنی غلامی اتنی پختہ ہو گئی ہے کہ ہم آزادی کے بحر بے کراں کی بجائے بندگی میں گھٹ کے رہ جانے والی جوئے کم آب کے مستحق ہیں۔ اب ہم پر ہر قسم کے عذاب نازل ہوں گے‘ ہم آسمان سے گریں گے تو کھجور میں جا اٹکیں گے۔ تلنے والے تیل سے نجات ملے گی تو ہم چولہے کی آگ میں جھلس جائیں گے۔ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت میں خود کفیل نہ ہوں گے۔ ہم کروڑوں ڈالروں کی زرعی پیداواردرآمد کریں گے۔ ہمارے چلتے ہوئے کارخانے بند ہوتے جائیں گے۔ ہمارے دہقان کو کھیت سے روزی میسر نہ ہوگی۔ ہماری برآمدات کا حجم گھٹتا جائے گا۔ افراطِ زر بڑھتی جائے گی اور اس حساب سے مہنگائی اور بے روزگاری بھی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کمی کو ہم خیرات مانگ مانگ کر پورا کرنے کی کوشش کرتے جائیں گے اور بتدریج یہ کوشش بھی ناکام ہوتی جائے گی۔ ہمارے آبی ذخائر اتنے سوکھ جائیں گے کہ نہ آبپاشی کے لئے کافی پانی میسر ہوگا اور نہ پینے کے لئے۔ ناکارہ‘ فرسودہ‘ گلاسڑا‘ عوام دشمن نظام‘ نہ عدالتوں میں انصاف‘ نہ ہسپتالوں میں علاج‘ نہ سکولوں کالجوں میں تعلیم۔ مادری زبان ایک ‘قومی زبان دوسری‘ مگر سرکاری زبان (اور وہ بھی غیر ملکی) تیسری۔ گونگے بہروں کی قوم بن گئے ہم اور اسی میں مگن ہیں کہ ماشا اللہ انگریزی لکھ پڑھ کر فلاح کی راہ ڈھونڈلی۔ 
کالم نگار اور اس کے قارئین جنرل نعیم خالد لودھی صاحب کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے ہمیں اندھیرے سے روشنی تک سفر کرنے کا ٹھوس حل بتایا ہے۔ کیا یہ ہمارے صحافیوں‘وکلا‘ اساتذہ‘ دانشوروں‘ مذہبی رہنمائوں اور محنت کشوں کے نمائندوں کا فرض نہیں کہ وہ جنرل صاحب کے تجویز کردہ حل پر جلد از جلد سنجیدگی سے غور کریں اور اگر اُن کی بتائی ہوئی بات سمجھ میں آجائے (جس کی توقع کی جانی چاہیے) تو وہ اُس کی اسی طرح حمایت کریں جس طرح قوم نے انیسویں صدی میں سرسید احمد خان اور بیسویں صدی میں قائداعظم محمد علی جناح کی کی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مشکلات درپیش ہیں‘ مگر ہم بہادر اور باہمت لوگ ہیں۔ آیئے ہم دلوں پر پڑی لکیریں مٹا دیں‘اکٹھے ہو جائیں‘ایک زبان بولیں‘ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی بجائے جامع مسجد کی جانب رجوع کریں۔ قومی مسائل کا اتفاق رائے سے حل ڈھونڈیں تو فصلِ خزاں میں سوکھ جانے والی ٹہنی سحابِ بہار سے ہری ہو جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں