دو بڑے جاسوس

سات نومبر1944 ء ایک جاپانی چھائونی کا عقوبت خانہ‘ رات کا سناٹا‘ تختہ دار پرنیلی آنکھوں اور لمبے قد کا یورپی نسل کا شخص۔ ہاتھ پائوں رسیوں میں بندھے ہوئے۔ گلے میں پھانسی کا پھندا‘ چہرے پر سیاہ غلاف‘مگر قیدی پرُسکون اور بے خوف۔ آخری الفاظ کیا تھے؟ سوویت کمیونسٹ پارٹی۔ یہ الفاظ اُس نے بڑی روانی سے جاپانی زبان میں بار بار اداکئے۔ وہ 49 سال کی عمر میں موت کے گھاٹ اُتر گیا‘ مگر عصرِ حاضر کی تاریخ پرانمٹ نقش چھوڑ کر مرا۔ نام تھاRichard Sorge۔ 1895ء میں پیدا ہوا‘ باب جرمن اور ماں روسی۔ پہلی جنگ عظیم میں بطور سپاہی لڑا‘ تین بار شدید زخمی ہوا مگر بچ گیا۔ جنگ میں جو ظلم و تشدد اور قتلِ عام دیکھا اُس نے اس کی ذہنی کایا پلٹ دی اور وہ اشتراکی (کیمونسٹ) بن گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں نوجوانوں کی انقلابی تنظیم Spartacusکا سرگرم رکن بن کر اُن ہنگاموں میں بھرپورحصہ لیاجو جرمنی کو خانہ جنگی کی دہلیز پر لے گئے۔ وہ بہت 
جلد روس کے جاسوسی ادارے Fourth Department کی نظر میں آگیا۔ جرمنی میں کچھ دیر روس کے لئے جاسوسی کرنے اور تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ چین کے بڑے شہر شنگھائی چلا گیا‘ وہاں جعلی صحافی بن کر سوویت یونین کے لئے جاسوسی کے کام میں حسن کارکردگی کے جوہر دکھائے۔ 1933ء میں اُسے چین سے جاپان چلے جانے اور وہاں جاسوسی کے فرائض سرانجام دینے کا حکم ملا۔ رچڑڈ نے یہ کام اتنے اعلیٰ معیار سے بارہ سال سرانجام دیا کہ عالمی امور کا رخ مڑ گیا۔ ٹوکیو میں جرمن سفیر سے قربت اوردوستی کی بدولت اُسے جرمنی کے خفیہ ترین رازدں اور خفیہ دستاویزوں تک رسائی ہو گئی۔ اُس نے ایک جاپانی صحافی Ozaks کو بھی اپنا ساتھی بنا لیا جو روس تک خفیہ معلومات پہنچانے میں اس کی سالہا سال مدد کرتا رہا۔ اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سوویت یونین پر جرمنی کے بھرپور فوجی حملے ( Operation Barbarossa)کے بارے میں نہ صرف سوویت یونین کی حکومت کو بلکہ بذات خود سٹالن کو بھی خبردار کیا۔ رچرڈ نے دوسرا کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ اس نے سوویت یونین کی اعلیٰ قیادت کو یقین دلایا کہ جاپان کے پاس نہ اہلیت ہے اور نہ منصوبہ بندی کہ وہ سائبیر یا پر حملہ کر کے اُس پر قبضہ کرے ۔اس اطلاع کے پیش نظر سٹالن نے وہاں سے درجنوں ڈویژن فوجی ہٹالی جو جرمنی کے جارحانہ حملے کی روک تھام کے لیے عین وقت پر ماسکو کے مضافات میں پہنچ گئی۔ مگرایک مقامی ایجنٹ کی چھوٹی سی غلطی سے رچرڈ کا پول کھل گیا۔ جاسوسی کا سامان پکڑا گیا تو جرم کے ثابت ہوجانے میں دیر نہ لگی۔ موت کی سزا پانے تک رچرڈ کے دل میں امید کا ایک چھوٹا سا چراغ ٹمٹماتا رہا کہ شاید جاپان اور سوویت یونین کے درمیان جاسوسوں کے تبادلے کا معاہدہ ہو جائے تو اس کی جان بچ جائے‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ سوویت یونین نے رچرڈ کی خدمات کا دو طریقوں سے اعتراف کیا۔ ماسکو کے ایک پارک میں اُس کا مجسمہ نصب کیا اور یاد گاری ٹکٹ جاری کیا ۔
رچرڈ کے کمالات اپنی جگہ مگر دھوکہ دینے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں وہ پشاور میں پیدا ہونے والے ایک ہندو پٹھان کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ جس کا نام تھا بھگت رام تلوار۔ اُس کا خفیہ نام (Code Name) Silverتھا۔ ممتاز برطانوی اخبار نویس مہر بوس (جو سبھاش چندر بوس کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں) نے جب اس شخص پر کتاب لکھی تو اُس کا نام بھی Silver رکھا۔ اُس کا بے مثال کارنامہ یہ تھا کہ وہ پانچ ممالک کو خفیہ معلومات بہم پہنچانے والا جاسوس تھا۔ نازی جرمنی کے حکمران اُس سے اتنے خوش تھے کہ انہوں نے اسے 25 لاکھ روپے انعام اور Iron Cross (جرمنی کا سب سے بڑا فوجی اعزاز) کا تمغہ دیا۔ درحقیقت یہ شخص جرمنوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہا‘ کیونکہ وہ دراصل برطانوی اور روسی حکومتوں کا جاسوس تھا۔ اس کی خدمات اتنی پسند کی گئیں کہ روس پہلی اور آخری بار اپنے ایک جاسوس کو بیک وقت روس اور برطانیہ کے لئے جاسوسی کرنے کی اجازت دینے پر رضا مند ہو گیا۔1941ء سے لے کر 1945 کے درمیان اس شخص نے پشاور اور کابل کے درمیان 12 بار سفر کیا تاکہ وہ جرمن سفارت خانے کی بالکل گمراہ کن اور سو فیصدی غلط خبریں پہنچا سکے۔ ایک بار اُسے ایک افغان سپاہی نے تفتیش کے لئے روک لیا‘ Silver کی حاضر دماغی کام آئی۔ اُس نے افغان سپاہی کو کہا کہ پوچھ گچھ بعد میں ہوتی رہے گی‘ پہلے ہم کھانا کھالیں‘ چونکہ میں دو دنوں سے بھوکا ہوں۔ کھانے کے دوران اُس نے تفیش کرنے والے سپاہی کے کھانے میں زہر (یا روایت کے مطابق شیر کی مونچھوں کے بال) ملا دیا جو کھانے والے کی ہلاکت کا موجب بنا اور جاسوس کی جان بچ گئی۔ مہر بوس کی کتاب میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ یہی شخص اپنے وقت کے سب ے بڑے انقلابی راہنما سبھاش چندر بوس کو کلکتہ سے رات کی تاریکی میں بھگا کر بحفاظت کابل پہنچانے اور پھر اسے جرمن سفارت خانے پہنچانے کا ذمہ دار تھا۔ کابل میں بھگت رام تلوار نے اپنا نام رچرڈخان بتایا۔ اطالوی سفارت خانوں میں تین ہفتوں کے اندر اُس سبھاش چندر کو جعلی اطالوی پاسپورٹ بنا کر دیا۔باقی کام رحمت خان نے یہ کیا کہ اُس نے سبھاش چندر کو (براستہ ماسکو) ٹرین کا سفر کر کے برلن پہنچا دیا جہاں نیتا جی ہٹلر سے ملے اور ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی دلوانے میں اُس مدد مانگی۔ یہ بھی اس کا کارنامہ تھا کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں اُس نے افسانوی کردار فقیر آف ایپی سے جرمن حکومت کا ہاتھ ملوایا تاکہ ان کی فوجی مدد سے اُن تمام علاقوں کوبرطانوی تسلط سے آزاد کروا کے خود مختار بنایا جا سکے۔ اگست 1947 میں ہندوستان میں برطانوی راج ختم ہو جانے کے بعد فقیر آف ایپی نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھی‘ وہ برُی طرح ناکام ہوا چونکہ وہ معاشی قوتوں کے جبر سے واقف نہ تھا۔
کالم نگار نے دو بڑے جاسوسوں سے اپنے قارئین کا تعارف کرانے اور اُن کے کارناموں پر روشنی ڈالنے کے لئے قلم اُٹھایا تو گویا دبستان کھل گیا۔ مجھے ساری انسانی تاریخ میں ان گنت جاسوس چار سو پھیلے ہوئے اور چھپے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ کام تو ایک کالم نہیں بلکہ کتاب کا ہے اور وہ بھی جو کئی جلدوں میں ہو۔ اس میدان میں جو ایک بات مجھے نمایاں لگی وہ خواتین کی جاسوسی کے میدان میں نہ صرف تعداد کافی بڑی ہے بلکہ اُن کے کامیاب جاسوس ثابت ہونے کا ریکارڈ بھی مقابلتاً بہتر ہے۔ کتاب لکھنے کی باری نہ جانے کب آئے۔ میں آج کا کالم آپ کو دو دلچسپ باتیں بتا کر ختم کروں گا اور دونوں کا تعلق بھارت اور پاکستان سے ہے۔ مراد جی ڈیسائی ہر گز محتاجِ تعارف نہیں‘ پہلے مسز اندر گاندھی کی کابینہ میں وزیر رہے اور پھر وزیراعظم بھی بنے۔ امریکہ کے سب سے معتبر اور معزز صحافیSeymour Hersh کی لکھی ہوئی کتاب میں یہ درج ہے کہ وہ 1971ء میں امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے اتنے پکے اور مستقل ایجنٹ تھے کہ باقاعدگی سے معاوضہ وصول کرتے تھے۔ وہ امریکی حکومت کو بھارت کے مشرقی پاکستان پر جارحانہ حملے کے لئے فوجی تیاری سے ہمہ وقت باخبر کرتے رہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے Brian Cloughley کی پاک آرمی پر ایک بڑی اچھی کتاب کا چوتھا ایڈیشن شائع کیا تو 173 نمبر صفحہ کا تیسراپیراگراف اسی انکشاف سے شروع کیا۔ اب آئیں وطنِ عزیز کی طرف‘ امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والے ننگ وِطن اور بے ضمیر لوگوں میں سب سے پہلا نام شعیب کا آتا ہے‘ جو جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھا۔ ورلڈ بینک سے چھٹی لے کر پاکستان آیا‘ وزارت ختم ہوئی تو ورلڈ بینک واپس چلا گیا۔ Wiki Leaksکا ہم پاکستانیوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ اُس نے ہمارے ملک میں امریکہ کو دوستانہ بنیادوں پر خفیہ معلومات دینے والے اور باقاعدہ جاسوسی کرنے والوںکے چہروں سے نقاب اٹھایا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں