قصہ چار بادشاہوں کا

اگر آپ نے چار درویشوں کا وہ قصہ جو ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ ہے‘ نہیں پڑھا تو اس کے بارے میں سنا ضرورہوگا۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اس Digital دور میں جب مصنوعی ذہانت کی دریافت ہمارے علم کے دروازے پر دستک دے رہی ہے‘ درویشوں کا زمانہ گزر چکا‘ نا صرف درویشوں کا‘ بلکہ قلندروںکااور پہنچے ہوئے فقیروں کا اور جسم پر راکھ مل کر ساری عمر کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر گیان دھیان کرنے والوں کا۔ میں نے یہ الفاظ لکھے تو مجھے خوشی محمد ناظر کی وہ نظم یاد آئی ‘جو میں نے 70 سال پہلے پڑھی تھی۔ نظم کا عنوان تھا جوگی اور شاعر کا تعلق گجرات کے ایک معروف قصبے ہریاانوالہ سے تھا۔ موصوف نے ریاست جموں و کشمیرکے ایک بڑے عہدے پر فائض ہونے کے باوجود یہ کمال کی نظم لکھی ۔نظم کے مطلع کا پہلا مصرع لکھتا ہوں۔ایک کلّہ کوہ پہ رہتا تھا‘ ایک مست قلندبیراگی ۔اب بھی پہاڑہیں اور ان کی چوٹیاں بھی‘ مگر وہاں وہ سادھو نہیں رہتے ‘جو خوشی محمد ناظر کی بے مثال نظم کا موضوع تھا۔
مندرجہ بالا الفاظ کو جملہ ہائے معترضہ سمجھ کر نظر انداز فرمایئے گا‘ میرے ذہن میں یہ سارا فساد سادھو کا لفظ لکھنے سے بپا ہوا۔ کالم کا موضوع چار بادشاہ ہیں‘ ایک سابق بادشاہ‘ دو ریٹائرڈ بادشاہ اور ایک ہونے والے بادشاہ کا بیٹا ‘یعنی محض شاہ زادہ۔ خانہ پرُی کے لئے میں نے اُسے بھی آج کے کالم میں گھسیٹ لیا۔ کیوں نہ آج کا کالم اُس کے فکر انگیز بیانیے سے شروع کریں؟ مگر مناسب ہوگا کہ مندرجہ ذیل سطور پڑھنے سے پہلے قارئین اپنے آپ کو یہ یاد لائیں کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒکی نظر میں عیاری کے معاملے میں سلطانوں اور درویشوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ سوال وہی پرانا ہے‘ جائیں تو جائیں کہاں؟ بدقسمتی سے ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اقبال ؔکو کیا جواب ملا؟اب ہم چلتے ہیں مذکورہ بالا شاہ زادے کی طرف جس کا نام ہیری ہے‘ وہ ملکہ برطانیہ کے ولی عہد اور بڑے بیٹے شہزادہ چارلس کے بیٹوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ سرکاری نام Duke of Sussexہے اور وہ تخت برطانیہ کے ورثا میں نمبر چھ پر ہے۔ بیوی کا نام ہے Meghan ۔ وہ نا صرف امریکی نژاد ہے‘ بلکہ والدہ کے سیاہ فام ہونے کی وجہ سے سفید فاموں کے زمرہ میں نہیں آتی۔ برطانیہ کی ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی تاریخ میں وہ پہلی خاتون ہے ‘جو رنگدار ہونے کے باوجود شاہی خاندان کی رکن بن گئی۔ برطانیہ اخباروں اور رسالوں کی اشاعت میں ساری دنیا میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ برطانیہ میں چوٹی کے ایک فیشن رسالے کا نام ہے Vogue‘ اس ماہ نامے نے اپنی اگلی اشاعت کے لئے Megan کو اعزازی مدیرکی ذمہ داری سونپی۔ فاضل مدیرہ کی فرمائش پر اُس کے شوہر نے بھی ایک بہت اچھا اور توجہ طلب مضمون لکھا۔ مضمون ہر گز مختصر نہیں اس لئے میں اس کا خلاصہ لکھنے پر اکتفا کروں گا۔ شہزادہ ہیری کی رائے میں ہمارے ذہن میں شعوری طور پر نہیں‘ بلکہ غیر شعوری طو رپر جو تعصبات ہوتے ہیں وہ یا تو بزرگوں کی تربیت سے یا ورثے میں ملنے والی قدروں اور روایات سے نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ اگر ہم دھیان سے اپنے خیالات‘ رجحانات اور ترجیحات کا تجزیہ کریں تو ہمیں ایک کے بعد دوسرا پرَت اُٹھانے کے بعد ان کی تہہ میں بیٹھے غیر شعوری تعصبات کا پتھریلا اور سنگلاخ وجود نظر آئے گا۔ جو ہمیں ان تعصبات سے نجات حاصل کر کے روشن دماغی اور انسان دوستی کی طرف قدم بڑھانے میں ممدو معاون ثابت ہوگا۔ 
اب ہم چلتے ہیں دو حالیہ ریٹائرڈ بادشاہوں کی طرف۔ سپین کا بادشاہ ریٹائر ہو کر اب شکار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ بلاشبہ مزے کی زندگی گزار رہا ہے‘ مگر جولائی میں ایک برُی خبر نے اُس کے رنگ میں بھنگ ڈال دی جب بادشاہ تحت سے دستبردار ہوا تو اُس کا بیٹا Felipe VI تحت نشین ہوا‘ اب اس کے بہنوئی کو فراڈ اور ٹیکس چوری کے جرائم ثابت ہو جانے پر چھ سال قید کی سزا دی گئی ہے‘ جو ناصرف مجرم کی بیوی‘ جو ایک سچ مچ کی شہزادی ہے‘ بلکہ اُس کے برادر نسبتی اور اُس کے والد کیلئے شدید شرمندگی کا باعث بنی ہے۔ ہم جنوبی یورپ سے شرق بعید کا لمبا سفر کریں تو ملائیشیا پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں سے آنے والی خبر بھی کچھ کم برُی نہیں۔ سلطان محمد پنجم ماہ جنوری میں ملائیشیا کے تخت و تاج سے دستبرداری پر مجبور ہو گئے تھے‘ چونکہ انہوں نے ایک روسی حسینہ سے شادی کر لی تھی‘ جو شاہی خاندان اور حکمران طبقے کے افراد کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ شادی سے صرف ایک سال بعد اور بچے (تنکو اسماعیل) کی پیدائش کے صرف آٹھ ہفتوں بعد نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس سے یاد آیا کہ موجودہ ملکہ برطانیہ کا چچا ایڈورڈ ہفتم 1936 ء میں تحت پر بیٹھا ‘مگر صرف ایک سال کے اندر وہ برطانوی سلطنت کی بادشاہت سے دستبردار ہوگیا ‘کیونکہ برطانوی روایات کے مطابق بادشاہ کو طلاق یافتہ خاتون (امریکی نژاد مسز سمپسن) سے شادی کی اجازت نہیں مل سکتی تھی۔ 1936ء کے بعد 2019 ء میں چشم فلک نے یہ منظر دوبارہ دیکھا جب ایک بادشاہ نے شادی کی خاطر تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی۔ ایڈورڈ ہفتم کی شادی مرتے دم تک قائم رہی‘ مگر سلطان محمد پنجم کی صرف 13 ماہ ۔ آج کا کالم ختم ہوگا Louis XIVپر‘ جو 1643 ء سے لے کر 1715 ء تک فرانس کا بادشاہ رہا۔ اپنے محلات کے وسیع و عریض رقبے سے لے کر اپنے جوتوں کی اونچی ایڑیوں تک‘ وہ ہر معاملے میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس کے محلات میں چلنے والے فواروں کی دھار88 فٹ کی بلندی تک جاتی تھی۔ اُس کی سلطنت بیلجیئم سے لے کر سپین تک پھیلی ہوئی تھی۔ چودہویں لوئی کی زندگی کے حالات پڑھیں (حال ہی میںاُس پر Philip Mannsel کی لکھی ہوئی640 صفحات کی کتاب شائع ہوئی ہے) تو اُن پر حقیقت کی بجائے افسانہ نگاری اور داستان طرازی کا گمان ہوتا ہے۔ لوئی کی تخت نشینی سے پہلے کے 80 سالوں میں فرانس خانہ جنگی اور بغاوتوں کی لپیٹ میں رہا۔ لوئی نے فرانس کو سیاسی‘ معاشی اور عسکری طور پر مضبوط اور مستحکم بنایا۔قارئین میں سے جو لوگ فرانس کی سیر کر آئے ہوں وہ یقینا پیرس کے مضافات میں ورسائے (Versailles ) کے قابلِ دید محلات کے ناقابل فراموش نظارے سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ بدقسمتی سے کالم نگار پیرس ان گنت بار جانے کے باوجود ورسائے جانے کی خوشی سے ابھی تک محروم ہے اور اس سال موسم خزاں میں اس کی تلافی کا ارادہ رکھتا ہے۔ مذکورہ بالا بادشاہ (لوئی نمبر 14)کے سر پر ورسائے کے محلات کی تعمیر اور تزئین و زیبائش کا سہرا باندھا جاتا ہے ‘جو آج صرف فرانس نہیں‘ بلکہ ساری دنیا کے تہذیبی ورثے کے ماتھے کا جُھومر سمجھے جاتے ہیں۔
1969 ء میں شہنشاہ لوئی کے دربار نے سلطنت عثمانیہ سے سفارتی تعلقات قائم کئے تو اہلِ فرانس کافی کے مشروب سے پہلی بار متعارف ہوئے۔ بادشاہ کو اُن تقریبات (خصوصاً آتش بازی) کے انعقاد کا جنون کی حد تک شوق تھا‘ جو دیکھنے والوں کی نظروں کو خیرہ کر دیں۔ وہ مریضانہ حد تک نرگسیت کا شکار تھا ۔ اُس نے رات کو بستر پر سونے کیلئے لیٹنے اور صبح جاگنے اور بستر سے اُٹھنے کو ایک ایسی رسم میں تبدیل کر دیا تھا‘ جس میں اُس کے مصاحبین ہر روز شاہی گرجا گھر جا کر اظہار تشکر کیلئے موم بتیاں جلاتے تھے اور حمدیہ گیت گاتے تھے کہ یسوع مسیح کی برکتوں کے طفیل اُسے ایک اور دن زندہ رہنے اور فرانس کو اُس کی بادشاہت کے مبارک سائے تلے ایک اور دن گزارنے کا موقع ملا۔ اس بادشاہ کو شان و شوکت کے اتنے بڑے مظاہرے کرنے میں اس لئے بڑی آسانی ہوئی کہ اُس کے عہد میں فرانس فن کاروں کے معاملے میں بہت خوش نصیب تھا ‘مثلاً :Libéral Bruant جیسا ماہر تعمیرات‘پیرس میں Les Invalides اُس کی تخلیق ہے۔ Rigaudاور Le Brunجیسے مصور۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے فرانس میں تعمیرات‘ موسیقی اور مصوری کے شاہکاروں کے کمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر اُن کا انسانی تاریخ میں وہی مقام ہے ‘جو مغلیہ سلطنت کے زوال کے وقت تاج محل کی تعمیر کا۔ 1715ء میںLouis XIVکی آنکھیں بند ہوئیں اور صرف 74 برس میں فرانس میں انقلاب آگیا ‘تو وہاں کے ستم زدہ اُفتادگان خاک کی صدیوں سے بندآنکھیں کھلیں‘بقول چواین لائی (سابق چینی وزیراعظم) : ''ہم آج بھی بعد ازانقلابِ فرانس عہد میں جی رہے ہیں‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں