خس کم جہاں پاک

یہ کالم نگار تین چوتھائی صدی سے جو سنتا اور پڑھتا آیا ہے‘ وہی آج کے کالم کا عنوان ہے۔ افسوس کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اگر بحث کی خاطر برائے نام تعلق مان بھی لیا جائے تو وہ بے معنی ہے۔ بدقسمتی سے خدا کی بستی میں اتنا زیادہ خس وخاشاک ہے‘ یہ تو نرم الفاظ ہیں‘ دیانتداری سے بات کی جائے تو مان لینا چاہئے کہ ظلم و ستم‘ جبرو تشدد‘ استحصال‘ آلائش‘ ملاوٹ‘جعل سازی‘ آلودگی اور نا انصافی کا اونچا پہاڑ ہے۔ مذکورہ بالا عنوان کا مطلب تو یہ ہے کہ خس (یعنی کوڑا کرکٹ) اتنا کم ہوا کہ جہاں پاک ہو گیایا کم از کم پاک ہونے کا عمل شروع ہوا۔ سکندر یونانی‘ چنگیز خان‘ہلاکو خان اور امیر تیمور سے لے کر روس میں سٹالن‘ جرمنی میں ہٹلر‘ سپین میں فرانکو‘ اٹلی میں مسولینی‘ چلی میںپنوشے‘ ہیٹی میں DuvalierالمعروفPapa Doc سے لے کر مشرق وسطیٰ کے آمران مطلق تک‘ ہمیں ایک سے ایک بڑھ کر ظالم نظر آتاہے‘ جنہوں نے ہزاروں نہیں‘ بلکہ لاکھوں بے گناہ اور معصوم افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ۔ آپ اس ننگِ انسانیت فہرست میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا نام بھی شامل کر لیں تو بجا ہوگا‘ مگراس فہرست کو مرتب کرتے ہوئے کمبوڈیا کے Nuon Cheaکو نظر انداز کر دیں گے تو اُس کی قبر کی مٹی سے یہ آواز بلند ہوگی ع
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ شخص 7 جولائی 1926 ء کو پیدا ہوا اور چار اگست 2019ء کو 93 سال کی عمر میں جہانِ فانی سے رخصت ہوا اور اپنے پیچھے یہ ریکارڈ چھوڑگیا کہ وہ ذاتی طور پر اپنے خوبصورت ملک کے آٹھ لاکھ افراد کے قتل کا ذمہ دار تھا‘اور وہ بھی1975-1979ء کے چند برسوں کے اندر۔ستر کی دہائی میں کمبوڈیا میں کمیونسٹ پارٹی برسر اقتدار آئی ‘اُس کا نام Khmer Rouge تھا اور اس کے رسوائے زمانہ صدر کا نام تھا Nuon- Pol Pot ‘جبکہNuon Chea اُس کا دست راست تھا ‘اسی لئے وہ جدید سیاسی لغت میں بھائی نمبردو کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ Nuon اور اُس کے قریبی ساتھیوں کا قاتلانہ ذہن روس کے سٹالن اور دوسرے آمرانِ مطلق کے نظریات کے سب سے انتہا پسند‘ جابرانہ‘ قاہرانہ اور پر تشددامتزاج نے بنایا۔ جس طرح داعش جیسی تنظیموں کا دین اسلام کے اصولوں سے دور کا بھی تعلق نہیں اسی طرح Pol Pot‘ Nuonاور اُن کے دوسرے مجرم ساتھیوں کے سنگین ترین جرائم کے ارتکاب کی ذمہ داری نظریہ اشتراکیت کے سر پر نہیں تھوپی جا سکتی۔
اپریل 1975 ء کا وہ دن بڑا ہی منحوس ہوگا۔ جب Khemer Rougeکی گوریلا فوج بڑی خاموشی سے کمبوڈیا کے دارالحکومتPnom Penh میں داخل ہوئی اور اُس نے چند برسوں کے اندر اندر اس بدنصیب ملک کو دنیا کا سب سے بڑا عقوبت خانہ بنا دیا۔ آٹھ لاکھ افراد تو پڑھے لکھے ہونے اور محنت کش طبقہ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے۔ (اور وہ بھی اذیت رسانی اور تشدد کے بعد) مگر یہ شیطانی حکومت براہ راست 30 لاکھ افراد کی موت کی ذمہ دار ہے‘ جس دن سے قتل عام شروع ہوا اُسے Nuon نے صفر سال (Year Zero ) کا نام دیا۔ شہروں میں رہنے والے اساتذہ ‘ ڈاکٹروں‘وکلا‘ تاجروں اور دکانداروں کو گولی مار دینے کی دھمکی دے کر دیہات میں جا کر کھیتی باڑی کرنے اور جسمانی مشقت کے کام مثلاً زمین کھودنا‘ بار برداری اور فصل کاٹنے پر مجبور کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بدترین قتل عام پر بنائی جانے والی اور دل ہلا دینے والے فلم کا نام Killing Fieldsرکھا گیا۔ Nuonاور اُس کے قائدPot Polکی نظر میں سارے کا سارا متوسط (اشتراکی زبان میں بورژوا) طبقہ عوام دشمن‘ ناقابلِ اصلاح اور انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ اُسے جسمانی طور پر نیست و نابود کرنے کے علاوہ اور کوئی موثر قدم نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ بہت سے لوگ محض اس لئے مذکورہ بالا طبقے کے فرد( اور اس لحاظ سے واجب القتل) سمجھے گئے کہ وہ نظر کی عینک لگاتے تھے اور اُن پر پڑھے لکھے ہونے کا الزام لگایا جاسکتا تھا۔
Nuon نے اپنے ماتھے پر صرف ایک نہیں‘ بلکہ کلنک کے بہت سے ٹیکے لگائے۔ اُس نے کمبوڈیا کا مالیاتی نظام (خصوصاً اس کی کرنسی) نظام‘ تعلیم‘ نظام عدل و انصاف‘ سارے انسانی حقوق اور جمہوری ادارے‘سب کے سب صفحہ ہستی سے مٹا دیئے۔ اس بدقسمتی پر جتنے بھی آنسو بہائے جائیں کم ہوں گے کہ نئی تعمیر کا مرحلہ تو کبھی نہ آیا‘ مگر تخریب تمام کا مرحلہ مکمل ہوا تو کمبوڈیا کے دریائوں کا رنگ انسانی خون سے سرخ تھا۔ Nuon کی اپنے بہیمانہ مشن سے دل و جان سے وابستگی اور لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں (چاہے وہ نزدیک کے ہوں یا دُور کے) کو بھی معاف نہ کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق‘ اُس کے جو رشتہ دار اُس کے احکام پر موت کے گھاٹ اُتارے گئے اُن کی تعداد 60 تھی‘جن میں اُس کا مفلوج چچا زاد بھائی اور دو معصوم بھتیجیاں بھی شامل تھیں۔ تفتیش اور تشدد کے لئے سکول کی جس عمارت کو استعمال کیا جاتا تھا وہ سرکاری کاغذات میں 5-21 کہلاتی تھی۔ مذکورہ بالا بھتیجیاں ڈاکٹر تھیں‘ وہ دونوں‘ اُن کے شوہر اور بچے‘ سب کا نہایت برُا انجام Killing Fields میں ہوا۔
آخر ایک دن یومِ حساب آگیا‘ 2009ء میں Nuon پر انسانیت سوز جرائم اور War Crime کے ارتکاب پر بین الاقوامی ٹریبونل میں مقدمہ چلا تو استغاثہ کے وکلا نے اس کے خلاف سارے ٹھوس اور دستاویزی شواہد پیش کئے۔ مگر آپ کوشاید اعتبارنہ آئے کہ کسی برُے آدمی کی رسی اتنی دراز کبھی نہیں ہوئی جتنی Nuon کی۔ اس کا عہدِ اقتدار 1998ء میں ختم ہوا تو وہ نوبرس تک ایک عام شہری کی طرح آزادانہ زندگی گزارتا رہا۔ 2007ء میں اُس کی گرفتاری عمل میں آئی تو اُس کی عمر81 برس تھی۔ وہ اپنے جرائم کے اعتراف اور کمبوڈیا کے عوام سے معافی مانگنے کی بجائے جیل میں سہولیات اور اچھے کھانے کی فراہمی کا مطالبہ کرتے کرتے اپنے انجام کو پہنچا۔ سب سے بڑا مجرم جسمانی طور پر نحیف نزار ہو چکا تھا‘ پچکے ہوئے گال‘ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے‘ چلنے سے معذور ‘وہیل چیئر پر بیٹھا کر عدالت لایا جاتا تھا۔ اگست 2014 ء میں اُسے عمر قید کی سزا دی گئی۔ اُس نے آخری دم تک نہ اپنے جرائم کو تسلیم کیا اور نہ ندامت کا اظہار کیا اور نہ اپنی قوم سے معافی مانگی۔ 
مناسب ہوگا کہ کالم ختم کرنے سے پہلے Nuon کے برسر اقتدار آنے کا پس منظر بیان کیا جائے۔ کمبوڈیا پر Prince Sihanouk نے ایک طویل عرصہ بطور مطلق العنان بادشاہ حکومت کی۔ اُسے فوجی جنتا کے قائدMarshal Lon Nol نے تخت سے معزول کر کے خود حکومت سنبھالی۔ وہ دوسرا آمر مطلق تھا جو بادشاہ سے بھی بڑھ کر غیر ہر دل عزیز تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے اپنے ملک میں دو بار ہوا‘ پہلے بھٹو صاحب اور جنرل ضیا الحق اور پھر میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی صورتوں میں۔ کمبوڈیا کی اشتراکی جماعت نے 1970ء میں شمالی ویت نام کی جنگ آزمودہ فوج کی مدد سے فوجی حکومت کو شکست دے کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نو سال بعد (1979ء میں) ویت نام کی فوجوں نے ہی کمبوڈیا میں مداخلت کر کے Nuon کی Khmer Rougeپارٹی کے آہنی اور خونی گرفت سے کمبوڈیا کے عوام کی جان چھڑائی۔ Nuon کی ہمت اور سخت جانی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ پورے 20 سال جنگلوں میں چھپا رہا۔ نہ گرفتاری اور نہ کوئی مقدمہ اور نہ کوئی احتساب اور نہ کسی سزا کا احتمال۔ آخر وہ دن بھی آیا جب قانون کے لمبے ہاتھ اُس تک پہنچے اور وہ شکنجے میں آگیا۔ ایک بیوہ‘ ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کے علاوہ اُس کی وفات پر اور کوئی فرد ماتم کناں نہ تھا۔ کمبوڈیا کے لاکھوں افراد کی آنکھیں پرنم تھیں مگر خوشی سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں