ریاست کا پانچواں ستون

انتظامیہ‘ قانون ساز اسمبلیاں ‘ عدلیہ اور پریس ‘ یقینا قارئین ریاست کے ان چاروں ستونوں سے بخوبی متعارف ہوں گے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ کالم نگار نے پانچویں ستون پر قلم اُٹھانے کا ارادہ اُس وقت باندھا جب وطن عزیزمیں مسلمہ اور مستند‘ معروف اور جانے پہچانے‘ آزمودہ اور برسوں سے اُستوار چاروں ستون لرزہ بر اندام ہیں۔ چاروں کی حالت اتنی ناقابلِ رشک ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ دوا لائیں تو کہاں سے اور دُعا مانگیں تو کون سی؟ غالبؔ نے جو رخشِ عمر (تیزی سے گزرتی ہوئی زندگی) کے بارے میں کہا تھا وہ مذکورہ بالا چاروں ستونوں کے بارے میں اُتنی صداقت سے کہا جا سکتا ہے۔ ہماری 72 سالہ پرانی (مگر نوزائیدہ) مملکت کا گھوڑا سر پٹ بھاگے جا رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس منزل پر جا کر تھمے گا۔ کہاں پہنچ کر دم لے گا‘ جہاں کوئی ہنگامی صورتحال نہ ہوگی‘ خطرے کی کوئی گھنٹی نہ بج رہی ہوگی‘ نہ کوئی سُرخ بتی روشن ہوگی‘ نہ کوئی داخلی بحران ہوں گا اور نہ کوئی اضطراب یا انتشار یا خلفشار۔غالبؔ نے دوسرے مصرع میں ہماری موجودہ حالت یوں بیان کی ہے‘ جس طرح انہوں نے یہ شعر انیسویں صدی کے وسط کی بجائے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے سال نمبر19 کے موسم خزاں میں لکھا ہو۔اب آپ وہ کمال کا مصرع پڑھیں: 
ع نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے پاس اُن دانشوروں کی کافی بڑی تعداد موجود ہے جو مذکورہ بالا چاروں ستونوں کی زبوں حالی اور ان کے آپس میں غیر دوستانہ تعلقات کے بارے میں نا صرف ہر روز اور ہر ہفتے لکھتے ہیں ‘بلکہ اعلیٰ معیار کی انشا پردازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ اس تمہید کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں۔ آج یہ کالم نگار ریاست کے جس پانچویں ستون کے بارے میں اپنے قارئین سے ہم کلام ہوگا وہ اتنا ہی بنیادی اہمیت رکھنے والا (انگریزی میں Pivotal ) ہے جتنے کہ پہلے چار ستون۔ اس کا نام سیدھا سادا ہے اور وہ ہے سول سوسائٹی۔ جس کا مطلب ہے کہ شہریوں کی اپنی انجمنیں اور تنظیمیں‘جو رضا کارانہ ہوں یا پیشہ ورانہ‘ مگر سیاسی ہر گز نہ ہوں۔ تمام مذہبی عبادت گاہیں‘ وکلا کی بار ایسوسی ایشن‘ کسانوں‘ مزدوروں اور محنت کشوں کی مقامی یا قومی سطح پر انجمنیں‘غور و فکر اور سوچ بچار کی غیر سرکاری تنظیمیں‘خدمت خلق کرنے والے عوامی ادارے ‘ یونیورسٹیاں‘ انسانی حقوق‘ ماحولیات‘ شہری آزادیوں اورصار فین کے حقوق کی حفاظت کے لئے سرگرم افراد اور ہم خیال افراد کی جماعتیں ۔ کالم نگار کی 82 سالہ زندگی تین حصوں میں گزری‘ گیارہ برس برطانوی راج کی غلامی میں‘ اگلے 21 برس بظاہر ایک آزاد ملک (پاکستان میں مگر دراصل انگریز کے بنائے ہوئے غلامانہ اور نو آبادیاتی نظام میں اور گزشتہ 57 سال ایک آزاد ملک (برطانیہ) میں۔ مجھے ایک آزاد ملک کا دوسرے ( یا شاید تیسرے)درجے کا شہری ہونے کے باوصف جو حقوق‘ مراعات اور سہولیات حاصل ہیں وہ بدقسمتی سے میرے آبائی وطن (جو آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر قوت ِاخوت عوام سے محروم ہے) میں پہلے درجے کے شہری کے خواب و خیال سے بھی بڑھ کر ہیں مثلاً بڑے اعلیٰ معیار کا مفت طبی نظام‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف تک رسائی‘ آزادیٔ تحریر و تقریر‘ مکمل مذہبی آزادی‘ جان و مال کی حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست‘ بیروزگاری‘ بیماری اور بڑھاپے کی صورت میں معقول گزارہ الائونس کی فراہمی۔ 
میں جب اپنے آبائی وطن کا اپنے نئے (Adopted) وطن سے موازنہ کرتا ہوں تو مجھے سب سے زیادہ فرق سول سوسائٹی کے پانچویں ستون کے برطانیہ میں نمایاں اور زندہ تابندہ کردار اورپاکستان میںنحیف و نزار ہونے‘ بلکہ اکثر علاقوںمیں نہ ہونے کے برابر وجود کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اقبالؔ نے بجا طور پر لکھاکہ صدیوں کی غلامی نے ہمارا دل توڑ دیا اور ہمیں رعایا بنا دیا‘ بھیڑوں کا ایک گلہ جسے ہر طاقت ور ہانک کر لے جا سکتا ہے۔ ہم نے اپنی سادہ لوحی میں یہ سمجھا کہ اگر ہمارے حکمرانوں کی جلد کا رنگ بدل گیا تو ہم آزاد ہو گئے۔ اُجالا ہوا تو داغ داغ اور سحر ہوئی تو شب گزیدہ۔ آج بھی سکولوںاور کالجوں میں تعلیم کی تکنیک رٹے رٹائے سبق کو یاد رکھنے کی ہے‘ تخلیقی سوچ کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہبی عقائد کی بنیاد اُس تقلید پر ہے جس پر اقبال خون کے آنسو بہاتے بہاتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ 
غلامانہ نظام تعلیم (اور وہ بھی غیر زبان میں) نے صرف لکیر کے فقیر اور میکالے کے تراشیدہ بابو پیدا کئے۔نہ جدتِ فکر اور نہ افکار کی تازگی‘ نہ روشنیٔ طبع‘نہ اجتہاد کی صلاحیت۔ آپ جدھر بھی دیکھیں آپ کو Status Quo(نظام کہنہ) اور جمود نظر آئے گا۔ ہمارا سیاسی یا معاشی یا آئینی یا قانونی نظام ہو‘ فرسودہ اور بوسیدہ ہو کر گل سڑ چکا ہے اور ہم میں اتنی عقل اور ہمت نہیں کہ اس سے نجات حاصل کر لیں۔ ہم کبھی جمہوریت(چاہے وہ نام نہاد ہو) آزماتے ہیں اور کبھی آمریت۔ عوام کو خوشی اور خوشحالی کی نعمتوں سے مالا مال کرنے میں دونوں برُی طرح ناکام ہوئی ہیں۔ پچھلے سال ہمارے خیال میں ہماری بدحالی کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا حکمران طبقہ نہ صرف نااہل اور نالائق ہے‘ بلکہ پرلے درجہ کا بدعنوان بھی ہے۔ اگر ہم اس سے جان چھڑا لیں تو ہمارا مبارک سفر شروع ہو جائے گا۔ آپ نے غور فرمایا کہ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ وجہ بتانے کے لئے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا ضروری نہیں۔ ہماری ساری توجہ گاڑی کے ڈرائیور پر مرکوز رہی اور ہم سے یہ بھول ہوئی کہ ہم نے یہ نہ یکھا کہ گاڑی کا نہ انجن ہے اور نہ ٹائروں میں ہوا۔ گاڑی ناقابل استعمال ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق آپ ایک مردہ گھوڑے کو اس اُمید پرچابک مار رہے ہیں کہ مردہ گھوڑا اُٹھ کھڑا ہوگا اور چلنا شروع کر دے گا۔ 72 سال گزر گئے‘ مگر ہم بدستور احمقوں کی جنت میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اسحاق ڈار گیا تو اُس کی جگہ اسد عمر نے لے لی۔ وہ گیا تو حفیظ شیخ آگئے۔ میں صرف وزارت خزانہ کی مثال دے رہا ہوں۔ میرا استدلال سارے سرکاری محکموں اور ساری وزارتوںکے لئے اتنا ہی منطبق اور منطقی طور پر درست ہے‘ جتنا وزارت خزانہ پر۔ موجودہ سیاسی نظام عوام کو اُن سیاسی حقوق کا عشرِ عشیر بھی نہیں دے سکتا جو اُنہیں ہر آزاد ملک میں مانگے بغیر ملتے ہیں‘ صاف ہوا میں سانس لینے کے حق کی طرح۔ 
موجودہ معاشی نظام کی بنیاد اندرون ملک لوٹ مار اور بیرون ملک قرضے اور خیرات مانگنے پر ہے۔ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ موجودہ نظام نہ مہنگائی کم کر سکتا ہے اور نہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری ۔ یہ ہمیں ہمیشہ متوازن بجٹ بنانے کی منزل سے کوسوں دُور رکھے گا۔ ٹیکس دینے والوں اور وصول کرنے والوں میں ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ ساری سیاسی جماعتیںمل بھی جائیں‘ (جس کا صفر امکان ہے) تو وہ اس خلیج کو پرُ نہیں کر سکتیں۔ یہ معجزہ صرف ریاست کا پانچواں ستون (سول سوسائٹی) سرانجام دے سکتا ہے۔ نیم خوابیدہ بلکہ نیم مردہ سول سوسائٹی کو صرف ایک انقلابی تحریک جگا کر حرکت میں لا سکتی ہے‘ جس طرح سوویت یونین‘ چین‘ ویت نام او رایران میں ہوا۔ عمران خان صاحب کی دیانت داری اور نیک نیتی شک و شبہ سے بالاتر ہے‘ لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صدیوں پرانے غلامانہ نو آبادتی نظام کو قائم و دائم رکھتے ہوئے ہماری کایا پلٹ دیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ عوام دشمن نظام کے ذریعے عوام دوستی نہیں کی جا سکتی۔ طبقاتی مفاد اور عوامی مفاد ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ارب پتی سیٹھ اور ساہو کار ایک طرف ہیں اور دوسری طرف مزارعین اور مزدور۔ 
پشاور اور کئی دوسرے مقامات پر رونما ہونے والے دلخراش واقعات‘ حوالاتوں میں ہر روز اور ہر گھنٹہ زیر تفتیش ملزموںپر تشدد اور صلاح الدین جیسے ان گنت افراد کی ہلاکت۔ ناپسندیدہ افراد کی پرُ اسرار گمشدگی‘ ڈینگی مچھر کی مہلک تباہ کاریاں‘ کراچی اور دوسرے شہروں میں گندگی کے انبار۔ سرکار کے بجٹ میں مستقل خسارہ۔ اختیارات کی عدم مرکزیت‘ مقامی حکومتوں کا فقدان‘ سرکاری ترجمانوں کی خرافات کی آبشار۔ کالم نگار جو وطن عزیز سے 52 سالوں سے چھ ہزار میل کے فاصلے پر رہتا ہے‘ اپنے قارئین کو کونسی نئی بات بتائے‘ جو وہ نہیں جانتے۔ غالباً وہ مسائل کا حل نہیں جانتے‘ جو اگلے کالم میں بیان کیا جائے گا۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں