ریاست کا پانچواں ستون…2

غلام یا نیم غلام نو آبادیاتی(سامراجی تسلط سے آزاد ہو جانے والے) ممالک میں انتظامیہ کے ہاتھ میں باگ ڈور ہوتی ہے‘ نہ کوئی روک ٹوک‘ نہ احتساب‘ نہ پوچھ گچھ۔ ہاتھ میں ڈنڈا جو رعایا پر بے دریغ برسایاجاتا ہے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکمران کے ہاتھ میں ڈنڈا بھی اتنا مضبوط ہونا چاہئے جتنا محکوموں کی کمر کو ‘جس پر ڈنڈابلا توقف ضربات لگاتا رہتا ہے۔ رعایا کو جانوروں کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ وہ صرف آقا کے حکم کے پابند ہوتے ہیں‘ کیا مجال کہ چوں چراںکریں یا اپنا کوئی حق مانگیں یا اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیں۔ وہ لوگ جو کئی کئی صدیاں غلامانہ زندگی گزارتے ہیں اُن کے ہاتھ میں پڑی ہتھکڑیاں اور پائوں میں پڑی بیڑیاںاُتر بھی جائیں تو وہ ذہنی طور پر آنے والی صدیوں میں بھی غلام ہی رہتے ہیں۔ جسمانی طو رپر نہیں بلکہ ذہنی طور پر۔ ایسے لوگوں کو نہ اپنے حقوق کا شعور ہوتا ہے اور نہ اپنے فرائض کا۔ وہ اپنے نام نہاد آزاد ملک میں گندگی پھیلانے‘ ملاوٹ کرنے‘ رشوت لینے اور دینے‘ ہر قسم کی بدعنوانی کا مرتکب ہونے‘ قانون توڑنے‘ طاقت کے آگے سجدہ ریز ہونے‘کمزور کو دبانے او رپائوں تلے کچلنے‘ چڑھتے سورج کو سلام کرنے‘ اخلاقی قدروں کو پامال کرنے‘ غرضیکہ ہر برائی میں ملوث ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ 
مذکورہ بالا سطور میں ہمارا موجودہ حدود اربعہ بیان کیا گیا ہے۔ کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ قارئین اس کالم نگار سے اتفاق نہ کریں۔ اب ہمارے سامنے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ علاج کیا ہے؟ بقول اقبال :؎ 
دل توڑ گئی ان کا دوصدیوں کی غلامی
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
اقبال اس پر بس نہیں کرتے‘ وہ پیر حرم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ وہ رسم خانقاہی چھوڑ کر نوائے سحری کو سُنے اور اس کا مطلب اور مقصد سمجھے۔ سو سال گزر گئے مگر پیر حرم نے اقبال کا مشورہ نہیں مانا۔ اقبال پیر حرم سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جوانوں (اقبال ان کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں) کو خود شکنی اور خود نگری کا سبق دے اور خارہ شگافی کے طریقے سکھائے‘ چونکہ مغرب نے ہمارے جوانوں کو شیشہ گری کا فن اس حد تک سکھایا کہ ہماری نئی نسل اپنی مادری اور قو می زبان بھول گئی۔ وہ غیر ملکی زبان میں تیسرے درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ناریل بن گئی‘ باہر سے رنگدار اور اندر سے سفید۔ آپ نے غور فرمایا کہ اقبال نے علاج کے بارے میں سوچا تو پیر حرم کی طرف دیکھا ‘حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ تہہِ محراب مسجد سویا پڑا ہے۔ آنکھیں کھول بھی لے توکچھ نہیں دیکھ سکتا۔ کالم نگار کو اقبال کا مداح ہی نہیں مرُید ہونے پر فخر ہے۔ اقبال کی طرح وہ بجا طور پر سُوئے حرم دیکھتا ہے اور پاکستان کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں سے دست بستہ درخواست کرتا ہے کہ اگر وہ سنجیدگی سے (اُن کی نیک نیتی تو شک شبہ سے بالاتر ہے) ہمارے ملک میں سماجی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو مساجد کے امام صاحبان کو ایک ایسی انقلابی تحریک کا حصہ بنائیں جو مسجد کو محض عبادت گاہ بنائے رکھنے کی بجائے اسے خدمت خلق کے مرکز میں تبدیل کر دے‘ جہاں نماز پڑھنے والے مسجد میں حلف اُٹھا کر عہد کریں کہ وہ نہ محلے میں گندگی پھیلائیں گے‘نہ کچرا گھر سے باہر پھینکیں گے‘چار سو پھیلی ہوئی گندگی کو اُٹھائیں گے اور ٹھکانے لگائیں گے۔ وہ کسی قسم کی ملاوٹ یا چور بازاری یا ذخیرہ اندوزی یا سماج دشمن کارروائی کے جرم کا ارتکاب نہیں کریںگے۔ وہ خود قانون کا احترام کریں گے اور مجرموں کے ساتھی نہ بنیں گے۔ وہ اپنے ماحول کو بہتر بتائیں گے۔ پھولدار پودے اور سایہ دار درخت لگائیں گے۔ امداد باہمی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنے علاقے میں رہنے والے ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔وہ مسجد میں فالتو کتابوں‘ فالتو کپڑوں اور فالتو خوراک کی مفت تقسیم کا مرکز قائم کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ وہ تمام ایسے کام کریں گے جومغربی ممالک میں (جو صحیح معنوں میں آزاد ہیں) عوام بصد خوشی کرتے ہیں۔ رضا کارانہ طور پر۔ بطور ایک مقدس فرض کے۔ اقبال نے جب غلامی اور آزادی کا موازنہ کیا تو کمال کے دو اشعار لکھے۔؎
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیباکہیں آزاد بندے‘ ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
آپ چاروں طرف نظر دوڑائیں‘ آپ کو کروڑوں کی آبادی میں کتنے مردانِ حُر نظر آتے ہیں؟ گنتی کرلیں تو کالم نگار کو ضرور بتایئے گا۔ کسانوں‘مزدوروں اور محنت کشوں کی تنظیمیں ناپید ہیں۔ مزارعوں سے لے کر مزدوروں تک‘ ڈاکٹروں سے لے کر اساتذہ تک سب نوحہ کناں ہیں اور کوئی ان کی فریاد نہیں سنتا۔ سول سوسائٹی بہری‘ گونگی اور اندھی ہے۔ جب تک ایک زندہ و تابندہ اور آزاد ملک کا بنیادی ستون نہیں بنتی باقی کے چاروں ستون برُی طرح ڈگمگاتے رہیں گے۔ اس وقت تک نہ ہماری سیاست عوام دوست ہوگی اور نہ ہماری معیشت ۔ جب تک سول سوسائٹی خصوصاً مذہبی عبادت گاہیں‘ تعلیمی ادارے‘ ٹریڈ یونین‘ وکلا اور اساتذہ کی انجمنیں ہر اول دستے کا کردار ادا نہیں کرتیں ہمارا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ نصف صدی پہلے پینے کو صاف پانی ‘ سانس لینے کو صاف ہوا اورزندہ رہنے کے لئے گزارے موافق روزگار‘ امن و امان‘ کار آمد سرکاری سکول اور ہسپتال‘ مل جاتے تھے‘ اب نہیں ملتے۔ اسے انگریزی میں Downward slide کہتے ہیں۔ زوال اور پستی کی طرف سفر۔ہم ایک گہری دلدل سے نکلیں تو کیونکر؟
اگر ہماری قوم کا نصب العین یہ ہو تو ہمیں اختیارات کی مرکزیت ختم کر کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا ہوگا‘ خود مختار ضلعی حکومتیں قائم کرنا ہوں گی‘ عوام کو اختیارات اور اقتدار اور مالیات کا مالک بنانا ہوگا۔ عوام سے چھینی ہوئی حاکمیت انہیں واپس کرنا ہوگی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ وہ پتھر جن سے قوت ِ اخوتِ عوام کی دیوارِ چین تعمیر ہوتی ہے وہ اس وقت نو آبادیاتی غلامانہ نظام کی تاریک غار کی تہہ میں گرے پڑے ہیں۔ کروڑوں عوام قید میں ہیں اور بقول شیخ سعدیؒ عوام کی بوٹیاں نوچنے والے خونخوار اور پاگل کتے آزادنہ گھوم پھر رہے ہیں۔ کیا کوئی بھی سیاسی پارٹی اکیلے ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیا افسر شاہی ملک کو اندھیرے سے روشنی کی طرف لے جا سکتی ہے‘ ہر گز نہیں۔ آمریت ہو یا جمہوریت‘ دونوں ایک جیسی ہیں۔ جس نظام کی جڑیں عوام میں نہ ہوں‘ اُس کا انجام نوشتۂ دیوار ہے ‘مگر ہمارا حکمران طبقہ اسے پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر ہم بھیڑیے کو بھیڑوں کی حفاظت پر مامور نہیں کر تے تو آپ عوام دشمن لوگوں پر عوامی نمائندگی کا جعلی لیبل لگا کر انہیں عوام پر بطور حکمران مسلط کرتے رہیں گے تو ہمارا یہی حشر ہوگا جو ہو رہا ہے۔ براہ مہربانی عوام کو اقتدار اختیار لوٹا دیں۔ انہیں اپنے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا حق دیں وہ اپنا اپنا محلہ‘ گائوں‘شہر‘ ضلع ‘ڈویژن یا اپنا صوبہ خود سنوار لیں گے۔ انگریزی بولنے‘ انگریزی لکھنے اور انگریزی میں سوچنے والی افسر شاہی اپنی ہیئت ترکیبی اور بناوٹ اور ساخت کے اعتبار سے عوام دشمن ہے‘ وہ سو سالوں میں صرف دو عوام دوست پیدا کر سکی‘ مسعود کھدر پوش اور اختر حمید خان۔ موجودہ سرکاری نظام اور سول سروس اور معاشی بندوبست اور سیاسی ڈھانچہ ہمارے کسی ایک مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حکمران طبقہ (آپ جانتے ہیں کہ اس میں کون لوگ شامل ہیں) کا ہر فرد اپنے آپ کو آقا اور عوام کو غلام سمجھتاہے۔ ہم اس نظام کو تبدیل کریں گے تو کروڑوں عوام کو خوشی‘ خوشحالی اور آزادی ملے گی۔ مناسب ہوگا کہ کالم کو اقبال کے ایک اور کمال کے شعر پر ختم کیا جائے۔؎
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر و بیکراں ہے زندگی

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں