اچھی حکومت، مقامی حکومت

آج کے عنوان کے مطابق‘ اچھی حکومت اور مقامی حکومت لازم و ملزوم ہیں۔ مقامی سے مراد ہے گھاس کی جڑوں کی طرح زمین سے قربت اور پیوستگی ‘ زمین کا اور زمین پر رہنے والوں کا احترام‘ افتادگانِ خاک کی اقتدار میں شرکت‘ خود مختاری‘ اپنے وسائل پر مکمل اختیار‘ ٹیکس لگانے اور ٹیکس وصول کرنے اور پھر اپنی مقامی ضروریات کے مطابق اپنی آمدنی کو خرچ کرنے کا حق۔
پاکستان کو انگریز کا بنایا ہوا نظامِ حکومت ورثے میں ملا۔ افسر شاہی اس عوام دشمن نظام کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ برٹش راج کے دوران نہ صرف انگریزبلکہ مقامی افسران بھی دیانت ‘ لیاقت اور فرض شناسی کی زندہ تصویر تھے۔ برٹش راج دو سو سالوں پر پھیلا ہوا تھا‘ اس طویل عرصے میں ایک بھی افسر کو نااہلی یا بدعنوانی کے جرم کی پاداش میں ملازمت سے نہ معطل کیا گیا اور نہ نکالا گیا (غالباً یہ اعزاز صرف اختر حمید خان کو حاصل ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے عہدے سے احتجاجاً استعفیٰ دے کر اور قفل سازی کا ہنر سیکھ کر محنت مزدوری کرنے لگے)۔ مذکورہ بالا افسران کی قابلیت اور جفا کشی اور ناقابلِ تصور محنت کی بدولت برٹش راج نے آزادی کی تحریک کے ہر سال بڑھتے طوفانی ریلے کی شدت کے باوجود اورجلیانوالہ باغ ‘ قحط بنگال اور اس طرح کے بے شمار واقعات کے باوجود کہ جن میں کئے جانے والے وحشیانہ ریاستی تشدد نے برٹش راج کو اس کے اخلاقی جواز سے محروم کر دیا‘ اتنی لمبی عمر پائی ۔ پاکستان بنا تو نظام جوں کا توں رہا مگر ایک غلامانہ نظام ایک آزاد مملکت کے افراد (جو رعایا سے تبدیل ہو کر شب بھر میں شہری بن گئے) کے لیے مفید کارآمد اور قابلِ استعمال ہونے میں کامیاب ہوتا تو کیونکر؟ ایک تو نظام بوسیدہ اور فرسودہ‘ دوسرا یہ کہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی۔ 1947 ء کو تو رہنے دیں‘ 1971 ء کو دیکھیں ‘ اس سال مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور پاکستان آدھا رہ گیا۔ اُس وقت کل آبادی غالباً بارہ کروڑ تھی۔ (جب حبیب جالبؔ نے ہمیں مخاطب کر کے گہری نیند میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے کمال کی نظم لکھی تو ہماری آبادی دس کروڑ تھی۔ یہی زندگی سے بیگانہ لوگوں کی تعداد تھی) بارہ کروڑمیں سے سات کروڑ مشرقی پاکستان میں آباد تھی اور مغربی پاکستان (آج کے پاکستان) میں صرف پانچ کروڑ ۔ 38 سال گزرے تو پانچ کروڑ کی آبادی (چار گنا بڑھ کر)20 کروڑ ہو گئی‘ مگر نظام حکومت وہی رہا۔ اب آپ بتائیں کہ اس نظامِ حکومت کو کامیابی سے چلانے کے لئے جادو کا کون سا منتر پڑھا جائے؟ کون سی ترکیب کو اپنایا جائے؟ کس نسخے کو آزمایا جائے؟ کون سا کرتب؟ کون سا بندوبست؟ کون سی ترتیب نو؟ 
پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن اور ق اور اصلی یعنی تینوں) اور چارفوجی آمریتیں (جو 30 سال پر محیط ہیں)‘ ہم نے سب کو باری باری سہا‘ چونکہ بفضل تعالیٰ جاں باقی تھی‘ اس لئے ہم پر ایک اور ستم ڈھایا جاتا رہا یعنی ستم بالائے ستم۔ 72 سال گزر گئے اور فلاحی مملکت ‘جس کے قیام کے لئے پاکستان اتنی قربانیاں دے کر بنایا گیا‘ کا خواب پورا نہیں ہوا اور نہ ہی اُفق پر پورا ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس بدقسمتی پر ہم جتنے آنسو بہا سکیں کم ہوں گے کہ آج بھی (72 سال گزر جانے اور تمام تجربات کرنے کے بعد) ہماری ساری توجہ گاڑی چلانے والے ڈرائیور پر مرکوز ہے۔ گاڑی پر نہیں جو گل سڑ چکی ہے اور چلنے سے معذور ہے‘ صرف معذور ہی نہیں مفلوج اور قریب از مرگ ہے۔
خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد رکھنے کے لئے شاعر نے تو حُسنِ کرشمہ ساز کے سر پر سہرا باندھا تھا‘ کالم نگار کو مبالغہ آرائی کا مریض ہونے سے انکار نہیں مگر وہ سیدھا سادا ''پینڈو‘‘ ہے شاعر نہیں (قطع نظر اس حقیقت کے کہ فیض احمد فیضؔ‘ احمد ندیمؔ قاسمی اور راجندر سنگھ بیدی جیسے بلند پایہ شاعر اور ادیب بھی پینڈو تھے اور اپنے دیہاتی پس منظر پر فخر کرتے تھے)۔ خرد اور جنوں کو خلط ملط کرنے کا ذکر یوں کرنا پڑا کہ ہماری سیاسی لُغت کی رُو سے ہماری ساری تاریخ کو دو اد وار میں تقسیم کیا جاتا ہے‘ ایک جمہوری اور دوسرا آمرانہ۔ یہ سراسر گمراہ کن ہے۔ اگر سو فیصد جھوٹ نہیں تو اسے کم از کم نصف سچ کہا جاسکتا ہے۔ جمہوری دور میں مقامی حکومتوں کے پودے کو لگائے جانے کا موقع نہیں دیا گیا‘ بلکہ آمرانہ دور کے لگائے ہوئے پودے کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ آمریت ایوب خان کی ہو‘ ضیا الحق کی یا پرویز مشرف کی‘ ہمیشہ مقامی حکومتوں (چاہے ان کا کوئی بھی نام رکھا گیا) کے نظام کی بساط بچھائی گئی ‘جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے‘ جبکہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی صف لپیٹ دی گئی یا انہیں ایک آمر مطلق (نام نہاد صدر) کے ماتحت کر دیا گیا۔
قارئین چاہے کتنے ناراض ہوں ‘ مگر وہ مجھے یہ کڑوا سچ لکھنے سے نہیں روک سکتے کہ کالم نگار کی نظر میں جمہوریت کا اصل امتحان (Litmus Test ) قومی اور صوبائی اسمبلیاں نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ کونسل‘ تحصیل کونسل اور یونین کونسل کی شکل میں مقامی حکومتیں ہیں۔ کالم نگار نے علم سیاسیات (Political Science) 1954ء سے لے کر آج تک کل 65 سال پڑھا ہے یا پڑھایا ہے‘ جن میں برطانیہ میں تدریس کے دس سال بھی شامل ہیں۔ 1967ء سے لے کر آج تک ایک آزاد ملک میں اس طرح زندگی گزاری کہ آنکھیں‘ کان اور دماغ کو کھلا رکھا۔ نا صرف برطانیہ‘ بلکہ امریکہ اور یورپی ممالک کے سیاسی نظام اور حرکیات کا بغور مطالعہ کیا۔ وفاقی (Federal) نظام‘ اقتدار کی عدم مرکزیت (Decentralization)اور کاروبارِ مملکت میں نچلی سطح پر عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت کا عوام کی خوشی اور خوشحالی سے براہ راست رشتہ دیکھا۔ مغرب کی قابلِ رشک ترقی کی کئی وجوہات ہیں‘ مگر اس کی ایک بڑی وجہ مقامی حکومتوں کا بے حد کار آمد‘ مستعد‘ زندہ تابندہ اور جاندار نظام بھی ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں دوسری وجوہات بھی بیان کرتا ہوں: عدل و انصاف‘ قانون کی حکمرانی‘ سلطانیٔ جمہور‘ احتساب‘ شفافیت‘ غلطی (چاہے وہ کتنی بڑی ہو) مان لینے کا حوصلہ اور ہمت‘ ضمیر کے خلاف کئے جانے والے ہر فیصلے سے جرأتِ انکار‘سول سوسائٹی کا مثبت اور مؤثر کردار۔
آپ جانتے ہیں کہ اس کالم نگار نے ایک عرصے سے رَٹ لگا رکھی ہے کہ موجودہ چاروں صوبے (برٹش راج میں بنائے جانے والے اور غیر ملکی تسلط کے تقاضوں کو پورا کرنے والے) ہمارے راستے میں کوہِ گراں کی طرح حائل ہیں‘ چار بڑے بڑے پتھر! ہم ان کو اپنے راستے سے ہٹائیں گے تو آگے بڑھ سکیں گے۔ پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 154 ہے‘ اگر 154 ضلعی حکومتوں کا نظام بنانے میں ہماری بزدلی‘کم ہمتی‘ذہنی غلامی او رپسماندگی آڑے آتی ہو تو پھر ہر ڈویژن کو ہی صوبائی درجہ دے دیں۔ ہر شہر کے عوام کے ووٹوں سے چنا گیا میئر‘ ہر تحصیل اور ضلع کا اپنا ناظم‘ہر صوبے کا (عوام کے ووٹوں سے چنا گیا) گورنر۔ آبادی میں کئی گنا اضافے کا ذکر ایک بارپھر کرتا ہوں۔ پاکستان بنا تو کراچی کی آبادی یقینا پانچ لاکھ سے کم تھی اور اب یقینا دو کروڑ کے قریب ہے‘ جو مشرقِ وسطیٰ کے درجن بھر ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ 72 سال گزر گئے‘ دریائے سندھ بھی سوچتا ہوگا کہ اس کی قسمت میں ایسے بدنصیب خطہ میں بہتے رہنا کیوں لکھا گیا‘ جہاں وادیٔ سندھ کے رہنے والوں کے ذہنوں کی سُوئی (انگریز کے بنائے ہوئے) چار صوبوں پر اٹکی ہوئی ہے۔ یہ مرض تو جمہور سے بھی بڑھ کر سنگین ہے۔ کون کہتا ہے کہ ہم نے چودہ اگست 1947 ء کو طوقِ غلامی اُتار پھینکا۔ ہم نے دور ِ غلامی کی ہر نشانی کو اپنے ایمان اور عقیدے کا حصہ بنا رکھا ہے۔ ہماری کیا مجال ہے کہ ہم ان کی تقدیس کے سامنے سوالیہ نشان لگائیں۔ بقول اقبال: ہمارے صنم کدوں کے بُت پرُانے ہو گئے ہیں‘ مگر ہم جب بھی یہ سچ بولیں تو (بقول اقبال) سارے برہمن (یعنی تنگ نظر ‘ مفاد پرست‘مراعات یافتہ ٹھیکیدار اور ناعاقبت اندیش) بہت ناراض ہو تے ہیں۔ بقول اقبال: ایک نیا شوالہ بنانے کی نہ صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہمت اور نہ عقل و فہم۔کالم کی تان اُسی بات پر ٹوٹے گی‘ جس سے شروع ہوئی تھی کہ نا صرف علمِ حساب‘ بلکہ علمِ سیاست کی رُو سے بھی اچھی حکومت کا مطلب ہے مقامی حکومت۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں