عاصمہ جہانگیر کی یاد میں

پچاس کی دہائی کے آخری برسوں میں کالم نگار پنجاب یونیورسٹی (Old Campus) کے شعبہ سیاسیات میں پڑھتا تھا۔ مباحثوں میں غیر مناسب حد تک زیادہ حصہ لینا اور تقریر کے شوقِ فضول کو پورا کرنا ہی کالم نگار کی زندگی کے بہترین سالوں کو برباد کرنے کے لئے کافی تھا کہ رہی سہی کسر انتخابات میں حصہ لینے نے نکال دی۔ 1957-58 ء میں ایم اے او کالج لاہور کی یونین کا صدر بنا تو اپنے آپ کو صدرِ پاکستان کے برابر سمجھتا تھا۔ اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنے آپ پر غصہ بھی آتا ہے اور ہنسی بھی۔ لاہور کے تمام کالجوں کی طلبا یونین کے عہدے داروں کی رابطہ کمیٹی بنی تو گورنمنٹ کالج لاہور کی یونین کے صدر جناب مظفر قادر (مرحوم) کو اُس کا صدر بنایا گیا اور مجھے سیکرٹری۔ ہم دونوں نے اپنی غیر معمولی اہمیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جن سیاسی شخصیات سے راہ رسم بڑھائی اُن میں ملک غلام جیلانی مرحوم بھی شامل تھے۔ ملک صاحب ہم دونوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے اور ہمیں ملاقات کے لئے ہماری توقع سے بڑھ کر زیادہ وقت دیتے تھے اور بڑے دوستانہ انداز میں بیان فرماتے تھے کہ وہ جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں۔ اُس دور میں صرف چند لوگ اُن کے ہم خیال اور ہمنوا تھے‘ میاں افتخار الدین‘ میاں عبدالباری‘لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایم آر کیانی‘ حسین شہید سہروردی‘ عبدالولی خان‘ حمید نظامی ڈان کے احمد علی خان اور پاکستان ٹائمز کے مظہر علی خاں۔ اُس وقت مشرقی پاکستان کے سیاسی اُفق پر نہ مولانا بھاشانی اُبھرے تھے اور نہ مجیب الرحمن۔ ملک غلام جیلانی بااُصول‘ باضمیر اور بہادر آدمی تھے۔ ان کی دو نڈر اور باپ جتنی بہادر بیٹیوں کے نام ہیں عاصمہ اور حنا۔ عاصمہ نے گھر بسایا تو اُن کے نام کے ساتھ جہانگیر لگا‘جبکہ حنا آج بھی اپنے نام کے ساتھ اپنے معزز باپ کا نام (جیلانی) لکھتی ہیں۔ عاصمہ نے انسانی حقوق کی خاطر کی جانے والی جہدوجہد میں عالمی شہرت حاصل کی جو بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے لئے خصوصی طور پر باعثِ فخر تھی۔ عاصمہ کے والد سے تعلقِ خاطر کی وجہ سے اُن کے ساتھ میرے رشتہ میں اپنائیت کا احساس غالب رہا۔ مگر ایک وہ بڑا دن بھی آیا جب یہ سر جُھک گیا‘ صدمہ اور فرطِ غم سے۔ احمد اویس صاحب کے ساتھ میں GOR کالونی لاہور میں عظمیٰ سہگل کے گھر دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ اویس صاحب ایک فون کال سُن کر خاموش ہو گئے۔ ایک وقفہ کے بعد انہوں نے یہ المناک خبر سنائی کہ دماغ کی شریان پھٹ جانے سے عاصمہ جہانگیر ہم سب سے دور چلی گئیں۔
خوشی کا مقام ہے کہ عاصمہ کی بیٹی‘ بہن‘خاونداور دوسرے عزیز و اقربا نے مل کر وسط اکتوبر میں عاصمہ کی یاد میں ایک عالیشان تقریب منعقد کی۔ برطانیہ کے قانونی حلقوں کی نمائندگی چوٹی کے وکلا نے کی۔ پاکستان کے ہر حصہ سے لوگ جوق در جوق آئے۔ اجازت دیجئے کہ یہاں انگریزی کی روز مرہ گفتگو کے چار الفاظ لکھوں : So Far So Good ۔ مذکورہ بالا تقریب کی کامیابی اور اس میں عاصمہ کی ورثہ میں چھوڑی ہوئی روایات کے امین لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کی شرکت نے موسم ِ خزاں کو موسم بہار میں تبدیل کر دیا۔ ہمارے پژمردہ‘ نڈھال اور رُفو کا زیادہ کام مانگنے والے دلوں پر اُمید کے شگوفے کھل اُٹھے‘ مگر کیا اس ستم ظریفی سے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں کہ سات سمندر پار سے ایک قابل تعریف صحافی عاصمہ کو خراج عقیدت پیش کرنے لاہور کے ہوائی اڈہ پر پہنچا تو اسے داخلہ کی اجازت نہ ملی اور اُسے واپس امریکہ بھیج دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا مہمان سرکار کے کاغذات میں ناپسندیدہ تھا اور وہ بھی موجودہ حکومت پر کڑوی کسیلی تنقید کرنے کی وجہ سے۔ یہ محض میرا اندازہ ہے۔ اصل حقائق سے ناواقف ہوں۔ کتنا اچھا ہو کہ میرے قارئین میں سے کوئی میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے مجھے بتائیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا کبھی اس سے پہلے (فوجی آمریت کے دور میں بھی ) یوں ہوا؟ برطانیہ کے ایک شاہی جوڑے کے بے حد خوشگوار دورے کے بعد عالمی سطح پر ہماری عزت میں جو اضافہ ہوا تھا وہ اس ایک فیصلہ نے خاک میں ملا دیا۔
کالم نگار اپنے آپ کو بجا طور پر عاصمہ کے ورثا اور اُس کے قبیلہ کا ایک رُکن سمجھتا ہے۔ جو شخص خوگر حمد ہو اُسے گلہ کرنے کا بھی حق پہنچتا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور تنقیدی توہیں مگر دوستانہ اور مخلصانہ۔ ان کا مقصد نہ دل آزاری سے اور نہ تعزیتی تقریب کے جاہ و جلال کو گھٹانے کی کوشش۔ یہ مثبت اصلاح کے زمرہ میں آتی ہیں۔ نہ صرف مثبت بلکہ تعمیری اور اصلاحی۔دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مقررین نے نظامِ قانون اور تفتیشی طریق کار میں صلاح کے لئے جو تجاویز پیش کیں وہ سب کی سب قابل تعریف‘ موزوں ترین اور وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں‘ مگر وہ تو محض تقاریر تھیں جو کانفرنس ختم ہونے کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ ماسوائے اخباری رپورٹ کے اُن کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ کانفرنس کے شرکا‘ جج صاحبان اور وکلا کی ایک ایسی مجلس عاملہ کا انتخاب کرتے جو آنے والے دنوں میں ہر سال کے ہر ہفتہ نہیں تو کم از کم ہر ماہ ایک بار اکٹھی ہوتی اور اصلاحی عمل اور جدوجہد کو آگے بڑھاتی۔ اگر کانفرنس کے دوران ایسا نہیں ہو سکتا تو یہ ضروری قدم اب بھی اُٹھایا جا سکتا ہے۔ مگر سوال وہی پرانا ہے‘ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ایک پنجابی محاورہ کے مطابق جو شخص بھی دروازہ پر دستک کی آواز سب سے پہلے سنتا ہے اُسے ہی اُٹھ کر دروازہ کھولنا پڑتا ہے۔ کانفرنس کے شرکا نے دستک کی آواز بخوبی سن لی مگر اُنہوں نے دروازہ کھولنے کی ذمہ داری سے چشم پوشی کر تے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ کانفرنس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ میں (جھوٹے الزامات پر بنائے گئے مقدمہ میں) دی گئی عمر قید کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا گیا‘ نہ ایان علی کا ذکر ہوا اور نہ جعلی پولیس مقابلوں میں چار سو سے زائد (غالباً بے گناہ) افراد کے قاتل ( S.P کے درجہ کے پولیس افسر) رائو انوار کا۔ احد چیمہ‘ فواد علی فواد اور خواجہ سعد رفیق کا‘ ان میں سے کسی ایک کا بھی نہیں۔ وہ سب ایک عرصہ سے جیلوں میں بند ہیں۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو گرفتار کیوں کئے گئے اور اتنا عرصہ مقدمہ چلائے بغیر قید میں کیوں رکھے گئے؟ اگر اُن کے خلاف استغاثہ کا مقدمہ مضبوط ہے اور ٹھوس شواہد پر مبنی ہے تو پھر مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا؟ کس شُبھ گھڑی کا انتظار ہے؟ مذکورہ بالا افراد کے بارے میں کالم نگار کی ذاتی رائے سے قطع نظر ہمیں عاصمہ کے حوالہ سے قانون‘ انصاف اور Due Process of Law کے پرچم کو بلند کرنا چاہئے۔ اگر عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے شرکا بھی )انگریزی محاورہ کے مطابق) اپنی چونچ اپنے پروں میں دبا کر مصلحت کو سچائی پر ترجیح دینے لگیں تو پھر ہم خداوند تعالیٰ سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ تیرے سادہ دل‘ مظلوم‘ مقہور‘ ستم زدہ بندے کدھر جائیں؟ کالم نگار کی فریاد کا حاصل کلام یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی بصارت اور سماعت کی صلاحیتوں کے سامنے دو بڑے سوالیہ نشان یوں لگ گئے کہ وہ پاکستان کے ہر تھانہ میں ہر روز ہزاروں زیر تفتیش افراد کی نکلنے والی چیخیں بھی نہ سُن سکی۔ کانفرنس نے مذہبی اقلیتوں کے بارے اپنی آواز شامل نہ کی اور نہ ہی سزائے موت کے قانون کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ سزائے موت جن گواہوں کے بیانات پر دی جاتی ہے وہ کتنے سچے اور کتنے جھوٹے ہوتے ہیں‘آپ چیف جسٹس کھوسہ صاحب کے فرمودات کی روشنی میں خود فیصلہ کر لیں۔ بدقسمتی سے آج ہم جس بڑے عذاب کے الائو میں جل رہے ہیں اُس کی بدولت ہمارے جسم پر اتنے زیادہ چھالے اُبھر آئے ہیں (تن ہمہ داغ داغ شد) کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ روئی رکھیں تو کہاں؟ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا بھلا ہو کہ اُس نے اُس نیک کام کی ابتدا تو کی۔ کوئی ایک پھاہا تو رکھا۔ منزل دُور ہے اور سفر کٹھن مگر بقول ماؤزے تنگ ہزاروں میل کے سفر کے کٹ جانے کا عمل پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں