قومی مجلس مشاورت ضرورت‘اہمیت اورافادیت

یہ سطور پڑھنے والے بجا طور پر یہ سوال کریں گے کہ آخر قومی مجلسِ مشاورت کی ضرورت کیا ہے‘افادیت کیا ہے اوراہمیت کیا ہے؟ جواب سیدھا سادھاہے۔ تھوڑی سی عقلِ سلیم رکھنے والا اور اوسط درجے کی ذہانت کا مالک بھی یہ جانتا ہے کہ قومی مسائل (جو اُفق تا اُفق پھیلے ہوئے ہیں) کو صرف قومی اتفاق رائے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جن خوبیوں کا فقدان ہے اُن میں سرفہرست قومی اتفاق رائے کی کمی ہے اور کمی بھی اتنی کہ نام ونشان نظر نہیں آتا۔ دورِ جدید میں ہماری نشاۃ ثانیہ کا آغاز سرسید کی تحریک سے ہوا۔ اُن کے پاس بہت ہی تھوڑے وسائل تھے اور رائے عامہ کا ایک بڑا حصہ (جو قدامت پسند اور رجعت پسند ذہن رکھتا تھا) اُن کا مخالف تھا‘ مگر جونہی قومی اتفاقِ رائے سرسید کی علی گڑھ تحریک اور جدید تعلیم کے حق میں ہوا‘ اُن کا ذوق و شوق (سرو سامان سے رقابت کے باوجود) تمام مشکلات پر غالب آیا اور سرسید کامیابی حاصل کرکے دنیا سے رخصت اور اللہ کے حضور پیش ہوئے تو سربلند اور سرفراز تھے۔ یہ تو تھا انیسویں صدی میں رُونما ہونے والا معجزہ۔ اگلی صدی (یعنی بیسویں) آئی تو قائداعظم نے مسلم قومیت کا پرچم بلند کیا۔ تیس کی دہائی میں مسلم لیگ پر اتنا برُا وقت آیا کہ قائداعظم مایوس اور دل شکستہ ہو کر ہندوستان چھوڑ کر برطانیہ آگئے اور یہاں اپنی وکالت کا سکہ جمایا۔ موسم بدلا‘ رائے عامہ بدلی اور مسلمانوں کی اکثریت نے اتفاقِ رائے سے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا دیا تو اُن کی قیادت میں پاکستان بن گیا۔
1947ء سے آج تک ہمارے اُوپر بے برکتی اور ایک طرح کی نحوست کا بادل چھایا ہوا ہے ۔ کسی ایک بھی مسئلے پر قومی اتفاقِ رائے سے محرومی ہمارا مقدر بن گئی۔ سب سے بڑی مثال تو سیاسی اختلاف کی دی جا سکتی ہے۔ 1974ء تک پاکستان کا حکمران طبقہ وحدانی نظام اور مضبوط مرکز کو جزوایمان سمجھتا تھا۔ وہ وفاقی نظام (کمزور مرکز اور بااختیار وحدتیں اور داخلی معاملات میں خودمختار صوبے) کا اتنا سخت دشمن تھا کہ اُس نے 1970 ء میں پاکستان کو خانہ جنگی کے جلتے ہوئے الائو میں دھکیل دیا اور بنے بنائے ملک کو انتخابات کے ایک سال کے اندر اندر توڑ دیا۔ صرف یہی نہیں‘ ہمارے حکمران طبقے نے رائے عامہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اور قومی اتفاقِ رائے کے برعکس پاکستان کو مغربی سامراجی ممالک (امریکہ اور برطانیہ) کا غلام بنا دیا۔ جزوقتی نہیں‘ بلکہ ہمہ وقتی اورمکمل غلام۔ 72 سال گزر گئے اور ہم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مشروبات اور خوراک بھی مغرب کی‘ زبان بھی مغرب کی بولتے ہیں‘ سوچتے بھی انگریزی میں ہیں۔ سارا نظامِ حکومت نوآبادیاتی (Colonial)ہے۔ اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے ہم شکاری کتے کے ساتھ شکار کرتے اور خرگوش کے ساتھ بیک وقت دوڑتے ہیں۔ ہم امریکہ اور چین کے بیک وقت دوست اور اتحادی ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ بیس کروڑ کے ملک میں بیس افراد بھی ایسے نہیں جو اپنے سیاسی اور معاشی مفاد سے بالاتر باہمی اتفاقِ رائے سے بیک زبان وہ بات کہیں جو آوازِ خلق ہو اور عوامی مفاد کی ترجمانی کرے۔ (Ket Words) کلیدی الفاظ دوبارہ لکھتا ہوں‘ قومی اتفاق رائے اور عوامی مفاد۔
قومی مسائل کی تعداد تو کافی زیادہ ہے‘ مگر اہم ترین کی فہرست بنائی جائے تو اُن میں مندرجہ ذیل شامل کئے جائیں گے: بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری‘ افراطِ زر‘ مستقل خسارے کا بجٹ‘ اربوں کھربوں ڈالروں کے سالانہ قرض (اور خیرات) پر گزارہ‘ اُردو کو سرکاری زبان نہ بنا کر آئین کی خلاف ورزی‘بدترین عدالتی نظام‘ یکساںنصابِ تعلیم کا فقدان‘ نالائق اور بددیانت افسر شاہی‘ اختیارات میں عوام کی عدم شرکت‘ ماحول کی روز افزوں خرابی‘ صاف پانی اور صاف ہوا کی عدم فراہمی‘ تمام انسانی حقوق سے محرومی‘ ریاستی اختیارات کی مرکزیت‘ مقامی حکومتوں (جو شہر‘ ضلع‘ تحصیل اور گائوں کی سطح پر ہوں) کے عوام دوست اور عوامی شرکت پر بنائے گئے نظام کو نہ قائم ہونے دینا اور نہ چلنے دینا‘ پولیس کے تفتیشی طریقۂ کار میں اصلاح کی اشد ضرورت‘ تمام تھانوں میں ہر روز زیر حراست لوگوں پر تشدد‘ جعلی پولیس مقابلے ‘ قانون کی حکمرانی کا بدستور خواب رہنا‘ نہ احتساب اور نہ شفافیت‘ انگریز کے بنائے ہوئے غلامانہ نظام (خصوصاً چار صوبوں کا وجود اور Decentralization‘یعنی عدم ارتکاز سے انکار‘ ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ نہ دینا‘ انتخابی نظام میں خرابیاں‘ تعلیم ‘ صحت اور فلاح ِ عامہ کی عدم سہولت‘ اربوں پائونڈوں اور کھربوں ڈالروں کی چوری کے مال کی بازیابی میں ناکامی اور معاشی دیوالیہ پن کی طرف سفر میں تیزی۔
آپ نے اہم ترین قومی مسائل کی مذکورہ بالا فہرست پڑھ لی۔ اب دیکھیں کہ کیا ہم ان کو حل کرنے کے لیے سر جوڑے سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں؟ جو اب نفی میں ہے۔ ہم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اولیں ترجیح اقتدار حاصل کرنا ہے یا اس کو قائم رکھنا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا اپنا اپنا منشور ہے۔ سول سوسائٹی اتنی کمزور‘ اتنی بے زبان اور اتنی غیر منظم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ صرف کسانوںاور مزدوروں کے مسائل ہیں بلکہ کلرکوں‘ نرسوں ڈاکٹروںاور اساتذہ کا احتجاج بھی باقاعدگی سے جاری رہتا ہے اور وہ بار بار پولیس کے لاٹھی چارج کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ موجودہ نظام بوسیدہ اور فرسودہ ہو کر اتنا گل سڑ چکا ہے کہ وہ نہ سانحہ ماڈل ٹائون کو روک سکتا ہے اور نہ سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار قاتلوں کو سزا دے سکتا ہے۔یہ نیم مردہ نظام ہمارے پھول جیسے بچوں کو درندوں سے نہیں بچا سکتا۔ یہ نظام جو خود مریض ہے‘ ہمیں ڈینگی مچھر کی وبا سے محفوظ نہیں رکھ سکتا‘ ہمیں پاگل کتوں سے نہیں بچا سکتا۔ اس نظام کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کو چلانے والا ایک سابق صدر‘ دو سابق وزرائے اعظم‘ کابینہ کے کئی سابق ارکان اور کئی بڑے سرکاری افسران ان دنوں جیلوں میں قید ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کریں؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں؟ بند کمروں میں بے مقصد اور بنجر بحثیں کرتے رہیں یا ایک دوسرے پر الزامات کے پتھر برساتے رہیں؟ ایک اور راستہ بھی ہے کہ ہم ایک ایسی انجمن‘ ایسا ادارہ‘ ایسا پلیٹ فارم بنائیں جو تمام تر بے سرو سامانی‘ بے حد گرد آلود ماحول‘ فکری انتشار‘ ذہنی اضطراب اور شدید خلفشار کے باوجود قومی مجلسِ مشاورت کا کردار ادا کرے۔ڈیڑھ اینٹ کی اَن گنت مساجد کو نہ گرائیں‘ ان کی محدود اہمیت اپنی جگہ‘ مگر ضرورت'' جامع مسجد‘‘ کی ہے۔ بہت ہی چھوٹے پیمانے پر ایک قومی مجلس مشاورت پانچ برس پہلے قائم کی گئی۔ لاہور اورلندن میں اس کے سہ ماہی اجلاس منعقد ہوتے رہتے تھے۔ اب ماہانہ اجلاس ہوتے ہیں (ہر مہینہ کے پہلے یا دوسرے جمعہ کے دن بعد دوپہر)۔ اب تک اس میں وکلا‘ مزارعین ‘بھٹہ مزدور‘ کراچی سٹیل مل کے مزدوروں کے ترجمان‘ اساتذہ‘ سیاسی جماعتوں کے کارکن‘ نفاذِ اُردو تحریک‘تنظیم حقوقِ انسانی اور کالم نگار و صحافی شامل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اس وقت یہ آواز بڑی نحیف و نزار ہے ‘مگر مقاصد سے اتفاق کرنے والے مزید خواتین و حضرات کی شمولیت سے یہ آوازِ خلق اتنی توانا ہو جائے گی کہ سارے ملک میں سُنی جائے گی۔ یہ سطور لکھنے والا نصف صدی سے لندن میں رہتا رہا ہے اور نصف صدی سے وطن عزیز کے عوام کے مفاد کی خاطر آوازِ خلق بلند کر رہا ہے۔ اب وہ آپ سے مخاطب ہے‘ خصوصاً کالم نگاروں ‘ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین‘ وکلا اور اساتذہ سے‘ ریٹائرڈ سفارت کاروں اور جج صاحبان سے۔ برائے مہربانی اس درخواست کی طرف توجہ دیں اور اسے قبول فرمائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں