نقل کے لیے عقل کہاں سے لائیں؟

آج کے کالم کا عنوان فارسی کے ایک محاورے سے لیا گیا ہے '' نقل را عقل باید‘‘۔ پاکستان کے تین اچھے دوست ہیں‘ اور وہ ہیں ترکی‘ ملائیشیا اور چین ۔ تینوں نے کمال کی ترقی کی اور وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے‘ یعنی دیکھتے ہی دیکھتے۔ آج تک یہی سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے‘ ہم تو خربوزوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ اپنے ذہن پر زور ڈال کر سوچیں اور مجھے بتائیں کہ ہم نے اپنے تین مذکورہ بالا دوست ممالک سے کیا سیکھا؟ اجازت دیجئے کہ میں آپ کی طرف سے دیا گیا جواب لکھوں اور وہ جواب ہے ''صفر‘‘۔ اس بے حد تشویشناک صورتحال کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اجازت دیجئے کہ اس کا جواب بھی کالم نگار دے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم میں وہ عقل نہیں جو نقل کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
افسوس کہ اس مرحلے پر میری دانش جواب دے جاتی ہے‘ چونکہ میں بھی نہیں جانتا کہ عقل کی جنس کس بازار میں فروخت ہوتی ہے؟ وہ لائیں تو کہاں سے؟ دنیا میں سب سے سستی بجلی یا تو آبشاروں سے پیدا ہوتی ہے یا سورج کی شعاعوں سے‘ جبکہ سب سے مہنگی بجلی تھرمل یعنی تیل سے چلنے والے بجلی گھروں سے پیدا کی جاتی ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ہم نے ان 72 سالوں میں نہ بہتے ہوئے دریائوں کی طرف توجہ دی اور نہ ہی چمکتے ہوئے (اور ریگستانوں میں آگ برساتے ہوئے) سورج کی طرف‘ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں صارفین کو اتنی مہنگی بجلی خریدنی پڑی اور کمر توڑ بل ادا کرنے پڑے اور یہ عذاب بدستور جاری ہے۔
اب‘ پانی کے مسئلہ کی طرف آیئے۔ سال میں نوماہ پانی کی اتنی قلت رہتی ہے کہ کراچی میں رہنے والے بدنصیب لوگوں (مطلب غریب یا نچلے متوسط طبقے کے افراد) کو پینے کے پانی کی فراہمی کے نظام پر مافیا نے قبضہ کر لیا ہے۔ سال کے تین مہینوں میں دریائوں میں سیلاب آتے ہیں اور ہر سال مون سون میں لاکھوں ایکڑ فٹ تازہ ‘ صاف اور میٹھا پانی قدرت اس سرزمین کوعطا کرتی ہے‘ مگر ہماری نالائقی سے یہ نعمت بڑی زحمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بجائے اس کے ہم بارش کے پانی کو تالابوں میں محفوظ کریں وہ تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔
70 سال گزرے تو ہمارے ایک چیف جسٹس صاحب (خدا ان کا بھلا کرے) کو ماڈل عدالتیں بنانے کا خیال آیا۔ اس کے باوجود ابھی بھی پندرہ لاکھ کے قریب مقدمے عدالتوں کے سرد خانوں میں پڑے ہیں اور سماعت کے منتظر ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں سزائے موت منسوخ ہو چکی ہے‘ برطانیہ میں ایک بڑی فعال اور قابل احترام تنظیم ہے‘ جس کا نام ہے؛ Reprieve ۔یہ 1999ء میں بنائی گئی اور اس کا سہرا ایک برطانوی وکیل Clive Stafford Smithکے سر باندھا جاتا ہے۔اس نے کیوبا میں رسوائے زمانہ امریکی عقوبت خانے (Guantanamo Bay ) میں شک کی بنیاد پر برس ہا برس سے زیر عتاب قیدیوں کی رہائی سے لے کر سزائے موت کے خاتمہ کے لیے عالمی سطح پر جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں اس کی نمائندگی شہزاد اکبر صاحب کرتے تھے۔ انہوں نے ڈرون حملوںکے خلاف جس طرح ہر میدان میں اور ہر سطح پر قانونی جنگ لڑی وہ قابل صد تعریف ہے‘ مگر حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ انہوں نے جب سے ایک بڑا سرکاری عہدہ سنبھالا ہے ‘انہیں Reprieve کے اغراض و مقاصد بالکل بھول گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اب‘ اپنی گزشتہ سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے‘ کیا یہ مناسب ہوگا کہ وہ یہ کام انصار برنی صاحب یا شہاب الدین اوستو صاحب یا علی احمد کرد صاحب یا احمد اویس صاحب یا حامد خاں صاحب کو ‘بلکہ اور بہتر ہوگا کہ ان سب پر مشتمل کمیٹی کو سونپ دیں؟
ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ہماری جیلوں میں جو قیدی بیمار ہیں (تھوڑے نہیں‘ بلکہ زیادہ بیمار) اُن کی تعداد پانچ ہزار ہے۔ ان بیمار قیدیوں کی جسمانی صحت چاہے کتنی خراب ہو‘ اگر اُن کی مالی حالت اچھی ہے تو جیل کے ہسپتالوں میں داخل ہو جائیں گے۔ کیا انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ (میاں نواز شریف صاحب کی نظیر پر عمل کرتے ہوئے) انہیں بھی طبی بنیاد پر ضمانت پر رہائی دی جائے (چاہے وہ اچھا علاج کرانے کے لیے برطانیہ جانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں) یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قتل کے ملزموں کو پھانسی کی سزا ملنے سے آخری اپیل کے فیصلے تک دس بارہ سال تک کال کوٹھڑیوں میں بند رکھا جائے‘ جہاں جانوروں کو بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ جان کی امان پاتے ہوئے لکھتا ہوں کہ ہمیں ریاست مدینہ کا ذکر زیب نہیں دیتا ‘ہم چین‘ ترکی اور ملائیشیا میں سے کوئی ایک بھی بن جائیں تو معجزہ ہوگا۔ 
یہ کالم اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا اور جی چاہتا تھا کہ اپنے قارئین کو کوئی ایسی پرُ لطف بات سنائوں کہ وہ پڑھ کر مسکرانے لگیں اور اُن کی دل گرفتگی کچھ کم ہو۔ افسوس کہ اچانک دُور دیس (پردیسی کے اپنے دیس سے) سے یہ برُی خبر ملی کہ گومل زام ڈیم چھ سات ماہ سے بند پڑا ہے یا اپنی معمول کی استطاعت سے نصف پر کام کر رہا ہے۔ یہ ڈیم جنوبی وزیرستان میں بنایا گیا ہے۔ 12 ستمبر2013 ء کو اس کا سرکاری طور پر افتتاح کیا گیا۔ اس بے معنی‘ بے مصرف اور نمائشی تقریب پر لاکھوں روپے خرچ آئے۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب جب سے اپنے عہدہ جلیلہ سے ریٹائر ہوئے ہیں انہوں نے نیا ڈیم بنانے کے منصوبے میں گہری دلچسپی لینا یا اُس دلچسپی کا برسرِ عام تذکرہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کالم نگار ستمبر میں لاہور گیا تو میاں صاحب سے بھی ملنے گیا اور انہوں نے (میرے سوال کے جواب میں) بڑی نیم دلی سے ڈیم کے بارے میں (جسے برطانوی مبصرین Chief Justice Baby کہتے تھے) غیر تسلی بخش جواب دیا۔ گومل زام ڈیم کی حالت زار کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سینکڑوں ملازمین کو چھ ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی۔ اب وہ بجا طو رپرہڑتال پر ہیں۔ وہ کام کریں تو کیوں؟ کیا میاں صاحب یہ مہربانی کر سکتے ہیں کہ اپنا اثر و رسوخ (جواب بھی بہت ہوگا) استعمال کرتے ہوئے انہیں اُن کی تنخواہیں دلوائیں۔ 
مذکورہ بالا ڈیم نہ صرف دو لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرتا ہے بلکہ 17.4 میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرتا ہے۔ اس ڈیم کا افتتاح نہ صرف پانی اور بجلی کے وزیر خواجہ محمد آصف اور پختونخوا کے گورنر شوکت اللہ (جو پیشے کے لحاظ سے خود انجینئر ہیں) ‘بلکہ پاکستان میں امریکی سفیر Richard Olson کے ہاتھوں ہوا۔ یہ ڈیم ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی تحصیل کلاچی کی زراعت کے لیے جتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ڈیم کا نام دریائے گومل پر رکھا گیا ہے جو افغانستان سے بہتا ہوا دریائے سندھ میں جا ملتا ہے۔ امریکی سفیر کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر امریکی مالی امداد کی بدولت ہوئی‘تاہم خواجہ آصف صاحب اپنی پارٹی کے لیڈر کے علاج کے لیے ضمانت پر رہائی اور پھر برطانیہ روانگی کی اجازت حاصل کرنے کی تگ و دو میں اتنے مصروف رہے کہ جو خبر چھ ہزار میل دور تک جا پہنچی‘ وہ دو اڑھائی سو میل کی مسافت طے کر کے اسلام آباد قومی اسمبلی میں اُن تک نہ پہنچ سکی‘ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ڈیم کا اپنے ہاتھوں سے افتتاح کرنے والا شخص ڈیم کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا۔صرف خواجہ صاحب سے کیا گلہ اور کیا شکایت ‘گومل ڈیم کے نواحی علاقے کے رہنے والے حزب اختلاف کی ایک اور بڑے رہنما مولانا فضل الرحمن صاحب نے اسلام آباد میں اپنے لمبے دھرنے اور اپنی لمبی تقریروں کے درمیان گومل ڈیم کا ایک بار بھی ذکر نہ کیا۔ ابھی کالم نگار مذکورہ بالا ڈیم کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا تھا کہ لاہور سے ایک بدترین خبر آئی اور وہ تھی وکیلوں اور ڈاکٹروں کی شدید لڑائی کی۔ یقینا چشم فلک نے یہ بے حد دلخراش واقعہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ یہ ایک مفلوج حکومت ‘ناکارہ نظامِ‘قانون کی حکمرانی کے فقدان اورمعاشرتی انتشارکی تازہ ترین مثال ہے (جو بدقسمتی سے آخری نہیں) : ع ـ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں