رُس گیا ہاکڑہ وَل دواہسی

دریائے ہاکڑہ رُوٹھ کر سُوکھ گیا۔ ایک دن (مان جانے کے بعد) پھر بہنا شروع کر دے گا۔ یہ ہے اُس گیت کا پہلا بول جو چولستان کے لوگوں کی زبانوں پر اتنی صدیوں سے نغمہ سرا ہے کہ اب نہ صرف اُن کا محبوب دریا (جو اُن کی Life Line تھا) سُوکھ گیا بلکہ گیت گانے والوں کے ہونٹ بھی۔ نہ مٹنے والی پیاس کے مارے۔
ظہوردھریجہ صاحب کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے 18 نومبر کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں ہمیں تفصیل سے بتایا‘ تھل اور چولستان کے صحرائوں اور وہاں کے بدنصیب باشندوں کے دکھوں کے بارے میں۔ صرف یہی نہیں۔ وہاں امیر اور کھلنڈرے لوگوں کی (بطورِ مشغلہ) کاروں کی دوڑیں‘ سائبریا کے برفستان سے پناہ گزیں ہونے والے پرندوں کا قتل عام (عرفِ عام میں شکار) ‘ تھل میں کاشتکاروں کی (جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر) بے دخلی اور نہری آبپاشی شروع ہونے پر مالکانہ حقوق سے محرومی‘ صنعت و حرفت کا فقدان‘نہ روزگار نہ کوئی سہولت‘ ہر طرف اُڑتی ہوئی ریت اور بگولے۔ صحرائے تھل اور وہاں رہنے والوں کی بہتری اور خوشحالی کے لیے ایک ترقیاتی ادارہ 1949ء میں بنایا گیا تھا۔ شروع میں اس کامرکزی دفتر بھکر میں تھا۔ میں نے 1959 ء میں جوہر آباد رہنا شروع کیا تو یہ دفتر وہاں منتقل ہو چکا تھا۔ ایک سال میں وہاں ہمہ وقت رہا اور اگلے سات سال صرف تعطیلات کے دوران (1967 ء میں برطانیہ آنے تک)۔ میری والدہ مرحومہ ‘ایک چھوٹا بھائی جاوید اور ہمارے گھرانے کی ایک اور فرد سکینہ (بھارتی صوبہ ہریانہ کے شہر حصار کی رہنے والی ) جوہر آباد کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ صد افسوس کہ میرے والد مرحوم نے دنیا سے جاتے جاتے جوہر آباد میں ہمارا پھل دار درختوں اور پھولوں سے گھرا ہوا گھر اونے پونے د اموں فروخت کر دیا اور لاہور واپس چلے گئے‘ جہاں سے اُن کا دور کا تعلق بھی نہ تھا‘ماسوائے وہاں 1927 ء سے لے کر 1934 ء تک کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھنے اور ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والے سات (ضلع سرگودھا کے پہلے) ڈاکٹروںمیں سے ایک ہونے کے ۔
تھل کے ترقیاتی ادارہ کو ICS درجہ کے ایک بڑے سرکاری افسر ظفر الحسن نے بامِ عروج تک پہنچایا۔ انہو ں نے اپنے پانچ سال لمبے قیام کے دوران تھل میں تین نئے شہر بنائے اور ان میں سے ایک (جوہر آباد) کے بڑے بازار میں دُور دیس سے سُرخ پھولوں کے سینکڑوں درخت منگوا کر اس طرح لگائے کہ ایک لمبی سڑک کے دورویہ ان کی خوبصورت درختوں کی قطار وہاں کے ماتھے کا جُھومر بن گئی۔ صرف یہی نہیں‘وہاں باغِ جناح لاہور کی طرز کا اوپن ایئر تھیٹر بھی بنوایا۔ پچاس کی دہائی کے آخر میں وہ بدعنوانی (الزام کافی مشکوک نظر آتا ہے) کے مرتکب ٹھہرائے گئے اور اُس اعلیٰ درجہ کی ملازمت سے برطرف کئے گئے۔ ان کی جگہ ICS کے ایک اور افسر صوفی محمد حسین (جو اپنا نام M.H.Soofi لکھتے تھے) نے لی۔ میں نے جوہر آباد میں ایم اے کے امتحان کی تیاری اور ایک بڑے اخبار کی نامہ نگاری بھی کی۔ میں اپنی آخر الذکر حیثیت میں صوفی صاحب سے اکثر ملتا رہا۔ وہ خوش اخلاق اور بھلے آدمی تھے مگر اُنہوں نے اہا لیانِ تھل کے شب و روز بدلنے کے لیے صرف اُس حد تک اپنی انگلی ہلائی جو روزمرہ کے سرکاری فرائض میں شامل تھا۔ پنجابی میں کام کرنے کے اس طریقہ کو ڈنگ ٹپائو کہتے ہیں‘ انگریزی کا سہارا لیں تو ذہن میں Ad hoc کے الفاظ آتے ہیں۔ 
جنوبی پنجاب سے کالم نگار کی دوستی کا آغاز 1945 ء میں ہوا۔ جنگ ِعظیم دوم کے خاتمے اور اتحادیوں کی کامیابی پر برطانوی حکومت نے ہندوستان کے طول و عرض میں سکولوں میں پڑھنے والے جِن کروڑوں بچوں کو بڑے عمدہ طور پر موتی چُور کے لڈّوکھلائے‘ اُن میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے۔ 1945 ء سے لے کر 1946 ء تک میں گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ میں پڑھا اور 1950-51 ء میں گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان میں۔ میٹرک کا امتحان بمشکل پاس کیا‘ مگر سرائیکی جیسی میٹھی زبان آسا نی سے سیکھ لی‘ جس کی بدولت بوڑھے ہو کر صوفیانہ کلام سمجھنے میں آسانی ہو گئی۔ اب میں یہ بھی لکھ سکتا ہوں کہ لندن میں میرے گھر میں بنائی گئی لائبریری میں ہر مہمان کو فخر کے ساتھ جو کتاب دکھانا ہر گز نہیں بھولتا وہ ہے سرائیکی اُردو لُغت کی دو جلدیں‘ جسے ملتان کے جھوک پبلشرز نے 2001ء میں شائع کر کے اور شوکت مغل صاحب نے تبدیلیٔ رسم الخط اور ترتیبِ نو کر کے ثوابِ دارین کمایا۔1881 ء میں ایڈورڈ اوبرائن‘ جو سکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا (مظفر گڑھ میں Settlement‘یعنی آباد کاری کا افسر تھا) نے رومن انگریزی (جس میں پانی کو بطور Pani لکھا جاتا ہے) میں پہلی لُغت تیار کی اور 1645 ء میں مولوی خدا بخش صاحب کی لکھی گئی کمال کی کتاب سے استفادہ کیا۔ ضلع شاہ پور کا افسر آباد کار (James Wilson ) کیوں پیچھے رہتا‘ اُس نے پنڈت ہری کشن کول کی معاونت سے سرائیکی زبان کے ذخیرہ ٔالفاظ میں اضافہ کر کے 1903ء میں ایک اور معیاری لغت کا اضافہ کیا۔ مناسب ہوگا کہ میں دو انگریز افسروں کی تعریف کے پل باندھنے پر اکتفا نہ کروں بلکہ چار اور عالم فاضل لوگوں پر بھی عقیدت کے پھول نچھاور کروں‘ جن کی مرتب کردہ لغات سنگ میل کا درجہ رکھتی ہیں۔ بشیر احمدنظامی 1965ء ‘ دلشاد کلانچوی 1979 ء‘ فدائے اطہر اور اسلم قریشی 1980 ء۔ صوفیانہ شاعری سرائیکی زبان کو فرش سے اُٹھا کر عرش پر لے گئی۔ اب یہ عالم ہے کہ میں 20 سال پہلے اپنے ایک بیٹے کے سکھ دوست کی شادی کی تقریب میں شریک ہونے چندی گڑھ گیا تو بھارتی پنجاب میں پیدا ہونے والی اور بڑی ہونے والی لڑکی نے اپنا صوفیانہ کلام سنایا جو سرائیکی زبان میں تھا۔یوں لگتا ہے کہ اب سرائیکی اور صوفیانہ شاعری لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو خاندان ِ غلاماں کے چشم و چراغ ہیں۔ اپنی زبان‘ اپنے لباس‘اپنی خوراک‘ اپنی تہذیب و تمدن ‘ اپنے رنگ غرضیکہ ہماری ہر شے ہمارے لیے باعثِ فخر ہونے کی بجائے باعث ندامت ہے۔ ہم ہزار حیلے کرتے ہیں کہ ان سب کوچھپائے رکھیں۔ مندرجہ بالا سطور میں سرائیکی پہلی جدید لغت لکھنے والے جس فرنگی (Edward O-Brien) کا ذکر کیا گیا وہ انگلستان نہیں بلکہ برطانیہ کے شمالی صوبہ (سکاٹ لینڈ) کا رہنے والا تھا۔ اُس نے نہ صرف سرائیکی لکھنے پڑھنے میں بلکہ بولنے میں اس درجہ مہارت حاصل کر لی تھی کہ سُننے والے حیران ہو جاتے تھے۔صوبہ سرحد کے انگریز گورنر George Cunninghamکی پشتو پر بے مثال مہارت کی طرح ۔سرائیکی زبان تو اس سکاٹش افسر نے اعلیٰ معیار کی بولنا سیکھ لی مگر لباس سکاٹ لینڈ کا ہی پہنا جو سکرٹ ہوتا ہے۔ (انگلستان میں خواتین پہنتی ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ مظفر گڑھ کے سادہ دل لوگ اسے پیار سے گھگری والا صاحب کہتے تھے۔
جوں جوں جنوبی پنجاب کی محرومیاں بڑھتی ہیں سرائیکی صوبہ کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں میاں نظام الدین حیدر کی بیٹی طاہرہ سے لے کر آج کی آسیہ کامل تک‘ ان بہادر خواتین نے یہ پرچم تھاما۔ اکثر بہاول پور صوبہ کا مطالبہ کرنے والے ملتان ڈویژن کے لوگوں اور سرائیکی صوبہ کا نعرہ لگانے والے لوگوں سے بہت ناراض ہو جاتے ہیں ۔علاقائی اور مادری زبانوں کی اہمیت (کلیدی اہمیت) سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر بات سمجھنے کی یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا بھی پشتو زبان کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا‘ نہ ہی بلوچستان میں سب لوگ بلوچی زبان بولتے ہیں۔ ضرورت مقامی حکومتوں کی ہے۔ ضرورت اقتدار کی مرکزیت کو ختم کرنے کی ہے۔
ضرورت Decentralizationکی ہے۔ ضرورت ہر ضلع اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دینے اور داخلی خود مختاری کی ہے۔ ہمارے یہ نئے صوبے بھی آبادی اور رقبے میں دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑے ہوں گے۔ کتنا اچھا ہو کہ وہ مبارک دن بھی آئے جب روٹھ جانے والا ہاکڑہ پھر بہنے لگے اور تپتے ہوئے صحرائوں سے پھر یہ درد بھری فریاد سنائی نہ دے۔ ع
رُس گیا ہاکڑہ وَل دواہسی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں