رُموز مملکت

آج کے کالم کا عنوان ایک فارسی محاورہ (رُموز مملکت خویش خسروان دانند) کے کل پانچ الفاظ میں سے پہلے دو پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہوں (یا حکمرانوں) کے رشتہ داروں (یا وزیروں/ مشیروں) کو ملکی رازوں کا علم ہوتا ہے (یا ہونا چاہئے)۔ آپ دُور نہ جائیے‘ صرف ماضی قریب پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو کئی ایسے سوال نظر آئیں گے جن کا جواب کسی بھی باخبر صحافی کے پاس نہیں ہے۔ میں صرف چند مثالوں پہ اکتفا کروں گا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنا (ہماری تاریخ کا سب سے بڑا) دھرنا ختم کیوں کیا؟ چوہدری پرویز الٰہی نے اُن کے کان میں کون سی سرگوشی کی؟ وزیراعظم نے (چیف آف سٹاف سے ملاقات کے بعد) اپنے عہد اقتدار میں پہلی بار دو دن کی چھٹی کیوں کی؟ میاں نواز شریف کی بیماری اگر واقعی سنگین ہے تو اُس کی نوعیت کیا ہے؟ اگر پاکستان میں معالجین اُن کی بیماری کی نوعیت اتنی اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ وثوق کے ساتھ میڈیکل رپورٹ لکھ سکیں تو لندن کے Goys ہسپتال میں اُن کی طبی امتحانات (Tests) کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ پچاس روپے کے کاغذ پر حلفیہ بیان لکھ کر اربوں روپوں کی ضمانت دینے سے کیوں اور کس طرح بچ گئے؟ 22 نومبر کو صدر ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم کو فون کیا تو کیا گفتگو ہوئی؟ 23 نومبر کو امریکی نائب وزیر خارجہ خاتون نے پاکستان کے چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ کی کھلم کھلا اور بھرپور مخالفت کی۔ کیا یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں امریکی حکومت کے مخالفانہ رویہ کا علم ہوا؟ کیا اس تاریخ سے پہلے واشنگٹن میں وائٹ ہائوس یا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا Pentagon سے کوئی ایک کبوتر بھی اُڑ کر اسلام آباد میں ہماری وزارت خارجہ کی کسی ایک منڈیر پر آ کر نہ بیٹھا جس کی چونچ میں امریکی حکومت کے معاندانہ (یا کم از کم غیر دوستانہ) ردّ عمل کے اظہار کا رُقعہ تھا؟ وہ کون سی ترکیب ہے جس کی بدولت ہم امریکہ سے اپنی گھٹتی ہوئی زنگ آلود غیر یقینی دوستی اور چین سے اپنی بڑھتی ہوئی ترو تازہ‘ سرسبز و شاداب‘ مضبوط اور مستحکم دوستی کے توازن کو برقرار رکھ سکیں گے؟ ہم اہالیان کشمیر کی جدوجہد آزادی میں اُن کی کون سی مدد کر سکتے ہیں جو بامعنی ہو اور نتیجہ خیز ثابت ہو؟ میرے پیارے قارئین تھوڑے کو زیادہ سمجھیں۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں اس طرح کی مثالوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ بطور بیرسٹر میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے جہاں بھی جائوں‘ مشرق یا مغرب‘ بارسیلونا یا پیرس‘ پولینڈ یا رومانیہ‘ ڈنمارک یا (سمندر پر ایک کمال کے پُل سے جڑے ہوئے) سویڈن‘ کرغرستان یا ازبکستان‘ اپنے اہل وطن ظاہر ہے کہ (مُراد پاکستانی ہیں) کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتا ہوں تاکہ اُن سے کچھ سیکھ سکوں مگر وہ اپنی سادگی میں اس مسکین کالم نگار پر اپنے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں اتنا باخبر ہوں کہ حکمرانوں کا رشتہ دار یا قریبی ساتھی نہ ہونے کے باوجود تمام راز کی باتیں جانتا ہوں۔ جب میں پوری دیانتداری (جو ہر وکیل کی مشکوک سمجھی جاتی ہے) سے نفی میں سر ہلاتا ہوں تو اُن کی مایوسی دیکھی نہیں جاتی اور وہ ملاقات کو یہ قسم اُٹھا کر ختم کر دیتے ہیں کہ وہ مجھے آئندہ ہرگز نہ ملیں گے۔ آئیے اب ماضی قریب سے ماضی بعید کی طرف چلیں۔ ہمارے پہلے آمر ایوب خان نے جتنے بھی فیصلے کئے اُن میں سے پانچ متنازعہ ترین‘ ناقابل دفاع اور قومی مفاد کے سب سے زیادہ منافی تھے (1) پشاور کے قریب بڈابیر کے مقام پر امریکہ کو فضائی اڈا دینا۔ (2) بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرکے کشمیر پر پاکستان کے قانونی دعویٰ اور سیاسی موقف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا۔ (3) ایک متنازعہ علاقہ (ریاست جموں و کشمیر) کی ایک سرحدی پٹی کو غیر قانونی طور پر چین کو دے دینا۔ (4) اسی طرح بلوچستان کی سرحد سے ایک حصہ ایران کو بطور تحفہ دے دینا۔ (5) یہ جانتے ہوئے کہ شعیب امریکی جاسوس ہے اور امریکہ سے ''معقول‘‘ معاوضہ لے کر اُسے ہمارے قومی راز اور کابینہ کے اجلاس کی پس پردہ کارروائی کی تفصیل بتاتا ہے‘ اپنی کابینہ کا بطور وزیر خزانہ رُکن بنایا اور سالہا سال بنائے رکھا۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ بھٹو صاحب جیسا محب الوطن‘ بین الاقوامی قانون کا ماہر اور روشن دماغ شخص ایوب خان کی کابینہ کا شروع سے لے کر (تقریباً) آخر تک رُکن رہا۔ وہ یقینا مذکورہ بالا پانچوں فیصلوں سے اچھی طرح باخبر ہوں گے۔ کیا اُنہوں نے اُن کی تائید کی یا مخالفت (جس کا امکان بہت کم ہے) کی یا خاموش رہے (جس کا امکان بہت زیادہ ہے) امینہ سید کی سرکردگی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں بڑی عمدہ‘ قابل مطالعہ اور معیاری کتابیں شائع ہوئی۔ درجنوں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں۔ برائے مہربانی آپ یہ گمان نہ کریں کہ میں یہ تعریفی جملے محض اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اُنہوں نے میرے ایک بیٹے (فاروق) کی لکھی ہوئی دو اور مرتب کردہ چھ کتابیں شائع کیں‘ مگر آج اُن تین کتابوں کا ذکر مقصود ہے اُن میں ایک فقیر اعجازالدین کی مرتب کردہ ہے The White House and Pakistan 1969-74‘ دُوسری روئیداد خان کی مرتب کردہ ہے The American Papers 1965-73‘ تیسری کتاب لندن کے ناشر Grosvenor House نے چار ماہ قبل اگست 2019 ء میں شائع کی (جو اس کالم نگار نے مرتب کی) اس کا نام ہے British A Secret Documents 1980۔ مذکورہ بالا تینوں کتابیں اس لحاظ سے بڑی قابلِ مطالعہ اور دلچسپ ہیں کہ وہ ہمیں اسلام آباد میں امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کی خفیہ دستاویزات کے مطالعہ اور بہت سے پوشیدہ حقائق سے واقفیت کا پہلی بار موقع فراہم کرتی ہیں۔ 
برطانیہ میں شائع ہونے والی عالمی شہرت کے جریدہ ہفت روزہ The Economist کا 23 نومبر کا شمارہ آپ کی توجہ کا مستحق ہے کیونکہ اس کے صفحہ نمبر45 کے تیسرے کالم کا آخری پیراگراف پاکستان کے بارے میں ہے۔ اس جریدہ کے مطابق امریکی صدر نکسن نے چین کے راہنما مائوزے تنگ سے سفارتی تعلق قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا تواُس نے پہلے فرانس کے صدر De Gaulle اور رومانیہ کے آمر مطلق Ceausescu کی مدد چاہی اور جب وہ کام نہ آئے تو پھر پاکستان کے آمر جنرل یحییٰ خان سے رابطہ کیا گیا جس نے Kissinger کو خفیہ طور پر چین بھیجنے اور وہاں ان کے چینی راہنمائوں سے ملنے کا بندوبست کیا۔ اس جریدہ نے یہ بھی لکھا کہ امریکی حکومت جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی میں خاصا جانی نقصان ہوا پھر بھی اس نے نہ صرف پاکستان کی بھرپور سفارتی سطح پر مدد کی بلکہ بھارت کو پاکستان پر جارحانہ حملے سے باز رکھنے کی بڑی تگڑی کوشش بھی کی‘ بلکہ ایران اور اُردن کی حکومتوں کے توسط سے پاکستان کو امریکی جنگی طیاروں کی فراہمی بھی کی اور وہ بھی اتنی راز داری سے کہ نہ بھارت کے کان میں اس کی بھنک پڑی‘ نہ امریکی اخبارات کو اور نہ امریکی کانگرس (پارلیمنٹ) کو حالانکہ موخرالذکر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اُڑتی ہوئی چڑیا کے پرَ بھی گن سکتی ہے ۔ 
اب اگر آپ ماضی بعید (افسوس کہ ماضی قریب کے معاملات میں یہ کالم نگار آپ کی کوئی مددنہیںکر سکتا) کی راز کی ایک نہیں سینکڑوں باتیں معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مذکورہ بالا تین کتابوں سے رُجوع کرنا پڑے گا۔ باقی مدیر سے دو فاضل مدیران کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی تحقیق اور تفتیش کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں (روئیداد خان تو ہرگز نہیں کہ وہ اب عمر کے 90 کے پیٹے میں ہیں) مگر کالم نگار اپنے کام کے بارے میں وثوق سے لکھ سکتا ہے کہ 1980 کی خفیہ دستاویزات کی اشاعت کے بعد اب ہر سال ایک نئی جلد شائع ہوا کرے گی۔ 2020 میں 1981ء اور اُس سے اگلے سال 1982ء کی دستاویزات۔ میری زندگی کے بعد یہ کام میرا بیٹا کرے گا اور اُس کے بعد میرا پوتا یا پوتی۔مندرجہ بالا سطور میں پشاور کے قریب Badaber کے مقام پر امریکہ کو دیئے گئے فضائی اڈا کا ذکر کیا گیا ہے‘ جہاں سے امریکہ کے جاسوسی جہاز سوویت 
یونین پر اپنی پرواز شروع کرتے تھے۔ آخر کار سوویت یونین نے راکٹ کے ذریعہ ایک امریکی طیارہ مار گرایا تو یہ راز فاش ہوا۔ آپ اس موضوع پر فقیر اعجازالدین کی مرتب کردہ کتاب کے صفحات نمبر23, 10 اور 43 پڑھ سکتے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ جنرل ایوب نے امریکی صدر جانسن کو بتایا کہ وہ اس ہوائی اڈے پر امریکہ کو دی جانے والی سہولت سے بے خبر ہیں جبکہ اُن کا اپنا فارن سیکرٹری راز کی بات اچھی طرح جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ Kumer نے صدر جانسن کو یہ رپورٹ پیش کی We are worried that Ayub is not fully master in his own House. 
1971 ء میں اُس وقت کے صدر (اصل میں آمر مطلق) جنرل یحییٰ خان کا مشیر برائے معاشی اُمور ایم ایم احمد اس وقت تک امریکی حکومت کا چہیتا اور لاڈلا تھا کہ وہ امریکی صدر کو واشنگٹن جا کر خود مل سکتا تھا (خانہ پُری کے لئے وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر آغا ہلالی (وزیر خارجہ آغا شاہی کے بھائی )کو بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ ایسی ایک ملاقات (دس مئی 1971‘ کو 4 بجکر 45 منٹ سے لے کر 5 بجکر 20 منٹ بعد از دوپہر کی تفصیل صفحات 247-250 پر درج ہے) امریکی صدر نے پاکستانی حکومت کی اُن اقدامات کی حمایت کی جو اُس سال مارچ سے لے کر مئی تک مشرقی پاکستان کے عوام کو فوجی طاقت سے کچلنے اور مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے مجوزہ چھ نکات کو تسلیم نہ کرنے اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کے لئے اُٹھائے گئے تھے۔ دس مئی کا دن اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ اُس دن سابق آمر (جنرل ایوب خان) نے امریکہ میں اپنے دل کا آپریشن کرایا تھا۔ یہ خبر پاکستان میں کامیابی سے چُھپائی گئی۔ روئیداد صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر924 پر شائع ہونے والے امریکی سفیر کے اپنی حکومت کو بھیجے گئے برقیہ پر آج کا کالم ختم کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب امریکہ میں بیگم بھٹو کے سرکاری دورہ کے موقع پر امریکی صدر نکسن کی خوشنودی کی خاطر انہیں بہترین آموں کے آٹھ بڑے ڈبے بطور تحفہ بھیجنا چاہتے تھے۔ صرف ایک دن گزرا جب بھٹو صاحب کو یہ بری خبر ملی کہ امریکی قانون کے تحت امریکی صدر کو بھی پھلوں کی درآمد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ میٹھے آموں کے بغیر بیگم بھٹو کو اپنے سنگ دل میزبانوں کے دلوں کو موم کرنے میں کتنی مشکل پیش آئی ہوگی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں