ایشیا سرخ ہے

برسوں پرانی بات ہے‘ نصف صدی سے بھی پرانی جب پاکستان میں بہت سے نوجوان (جن میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا) وہی ولولہ انگیز نعرہ لگاتے تھے جو آج کے کالم کا عنوان ہے ۔29 نومبر کو پچاس شہروں میں طلبا و طالبات نے وہ قابلِ ذکر مظاہرے کئے جن کی گرج چمک ہزاروں میل دور برطانیہ میں بھی سنی اور دیکھی گئی تو اُنہوں نے بھی والہانہ انداز میں یہی نعرہ بلند کیا۔ ان پچاس شہروں کی فضائیں حیران و پریشان ہوں گی کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد تیسری نسل نے ہوش سنبھالا تواُسے ایک بھولی بسری بات کس طرح یاد آگئی؟
بیس کروڑ آبادی کے ملک میں چند ہزار نوجوانوں کا ایک معصومانہ نعرہ کئی لوگوں کو ناراض کرنے ‘ اُن کی کڑوی کسیلی باتیں سننے اور کئی پیشانیوں پر بہت سی شکنیں اُبھرنے کا ذمہ دار بنا۔ مظاہرین کی نیک نیتی پر تو ہر گز شک نہیں کیا جاسکتا ‘مگر وہ اتنے تعلیم یافتہ‘ باشعور اور باخبر تو یقینا تھے کہ پانچ باتیں اچھی طرح جانتے ہوں گے اول‘ آج ایشیا کا ایک مربع انچ بھی ایسا نہیں جس کا رنگ سرخ ہو۔ دوم‘ چین اور ویتنام بھی روایتی اور کلاسیکی سوشلزم سے انحراف کرکے منڈی کی معیشت (Market Economy) کے اصول کو اپنا چکے ہیں۔ سوم‘ پاکستان میں بائیں بازو کی سوشلسٹ تحریک اتنی کمزور ہے کہ کسی کی عملی مدد کرنا تو درکنار زبانی کلامی بھی حمایت نہیں کرتی یا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ چہارم‘ درس گاہوں میں سٹوڈنٹس یونین بنانے کا حق منوانے کیلئے ایشیا کیلئے لال رنگ کی پسندیدگی کی شرط عائد نہیں کی جا سکتی۔ 
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں اورایک فرسودہ ‘ گھِسا پٹا اور عصر ِحاضر میں بے معنی نعرہ پھر بلند کریں‘ کیا ہمیں اپنا ہوم ورک نہیں کرنا چاہیے؟کیا ہمیں مڑ کر نہ دیکھنا چاہیے کہ سوشلسٹ تحریک سے کون سی چھوٹی اور بڑی غلطیاں ہوئیں؟ وہ سیاسی اُفق سے معدوم ہوئی تو کیونکر؟
2019 ء کے آخر تک ہم بہت سے سوشلسٹ رہنمائوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ کچھ ملک چھوڑ گئے اور کچھ دنیا ۔ ایک بڑی تعداد نے اپنی ناکامی سے سمجھوتہ کر کے اپنے ایمان کا سودا کر لیا۔ سوویت یونین ختم ہوا تو وہ سب سے بڑی سامراجی قوت (امریکہ) کے ساتھی اور ہمنوا بن گئے۔ کالم نگار جوان تھا تو انقلاب کے ہر اوّل دستہ کی قیادت چی گویرا‘ فیڈل کاسترو اور ہوچی مِنہ کے پاس تھی۔ وہ بوڑھا ہوا تو بائیں بازو مفلوج ہو گیا اور دائیں بازو نے (بقول اقبالؒ) عشق کی تیغ جگر دار اُڑالی۔ سامراج دشمنوں کی قیادت طیب اردوان‘ مہاتیر محمد اور امام خمینی نے کی۔ ویتنام کی جنگ اور انقلاب ِایران تک مغربی سامراج اشتراکی انقلابی تحریکوں سے خائف تھا۔ ستمبر2011 ء کے بعد وہ اسلامی شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے ڈرنے لگا۔ امریکی حکومت سے بہتر اپنے دوست اور دشمن کو کوئی نہیں جانتا۔ اب اُس کا عتاب نازل ہوتا ہے تو رمزی یوسف پر یا ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر۔ کیا یہ ایشیا سرخ ہے کا نعرہ بلند کرنے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ نہیں؟ اُن کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں بایاں بازو (سوشلسٹ نظریات کے حامی) عوامی حمایت سے اتنا تہی دست ہے کی کسی بھی یونین کونسل میں ایک کونسلر کا الیکشن نہیں جیت سکتا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ سندھ میں آج بھی جاگیر دارانہ نظام ہے۔ آج بھی وہاں افراد بطور ہاری غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ آج بھی اُن کے وہی حالات ہیں جو مسعود کھدر پوش نے پچھلی صدی میں اپنی رپورٹ میں لکھے تو پڑھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا۔ جنوبی پنجاب (سرائیکی وسیب) بھی سندھ سے زیادہ مختلف نہیں۔ اب رہا ہمارے ملک میں رائج معاشی نظام ‘تو وہ مسخ شدہ سرمایہ داری اصولوں پر اس طرح چلایا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی خرابی پر قابو نہیں پاسکتا۔ نہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری پر اور نہ افراطِ زر پر۔ہمارا معاشی نظام غیر ملکی خیرات اور اربوں ڈالروں کے قرضوں کے مصنوعی تنفس سے چل تو رہا ہے مگر اسی طرح جیسے مرض الموت کا شکار مریض انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے وہ دانشور جو بفضل تعالیٰ مذہبی ذہن رکھتے ہیں ‘وہ سوشلسٹ نظام کے علمبرداروں کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں‘ مگر وہ موجودہ معاشی نظام کے خلاف ایک لفظ نہ بولتے ہیں اور نہ لکھتے ہیں۔ 
بڑھاپے کی وجہ سے اب کالم نگار ہر ایسی بات کہنے اور لکھنے سے پہلے جان کی امان مانگتا ہے جہاں اُسے یہ خطرہ نظر آئے کہ اس کا کالم پڑھنے والے شاید بہت ناراض ہو جائیں گے۔ کالم نگار کو ہر اُس طالب علم یا طالبہ پر فخر ہے جس نے بلا خوف و خطر ایشیا سرخ ہے کا نعرہ بلند کیا۔ اُس نے (باالفاظ دیگر) اپنے دل و دماغ میں چھپی ہوئی اس اُمید کا اظہار کیا کہ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں ایشیا سرخ ہو جائے گا۔ یہی تاریخ کا جبر ہے اور یہی تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتویٰ ہے ۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارا موجودہ نظام قریب المرگ ہے۔ یہ بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بقول اقبالؒ: ؎
جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا‘ یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نْمود جس کی‘ اْسی کا مشتاق ہے زمانہ
جہانِ نَو ہو رہا ہے پیدا‘ وہ عالمِ پِیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامِروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
فیضؔ صاحب نے اپنی ایک کمال کی نظم میں اس عزم کا بار بار اعلان کیا کہ ہم ''دیکھیں گے‘‘۔وہ مبارک دن جب پاکستان میں عوامی انقلاب آئے گا‘ کالم نگار کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی لائے گا۔ وہ ڈاکٹروں کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور اپنے اہل خانہ کی نظربچا کر کم از کم ایک گلاب جامن کھائے گا‘ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ابھی منزل بہت دور ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں اور دوستوں اور ہم سفر لوگوں کی خدمت میں یہ گزارش کروں گا کہ جب تک عوامی انقلاب کے ابتدائی آثار اور اسباب پیدا نہیں ہوتے تو کیوں نہ ہم انقلابی اصلاحات کیلئے آواز بلند کریں اور محنت کشوں کی جدوجہد میں حصہ لے کر اپنے آپ کو اُن کے قریب لائیں‘ اُن سے سیکھیں‘ اُنہیں اپنا رہنما بنائیں۔ پھر آپ انہیں بہت کچھ سکھائیں گے اور یقینا اپنے آپ کو ایک اچھا قائد ثابت کریں گے۔
درس گاہوں میں سٹوڈنٹس یونینز کا مطالبہ کتنا بھی جائز ہو‘ لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین کی لاکھوں بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کا مطالبہ اس سے کئی گنازیادہ داشتراکی نظریات کے مطابق موافق ہے۔ مناسب ہوگا کہ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو یہ بھی یاد دلائوں کہ ہمارے ملک میں (بھٹو صاحب کے دور میں) بینکوں اور بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا تجربہ برُی طرح ناکام رہا۔ اس دور کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب ابھی زندہ سلامت ہیں‘ آپ کا ایک وفد اُن سے جا کر ملے اور فکری رہنمائی حاصل کرے۔جذباتی نعروں کا وقت گزر چکا‘ اب سنجیدگی سے تجزیہ اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ 
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہم بڑے انہماک سے سوچیں کہ ہمیں آگے کس طرح بڑھنا ہے؟ کیا کرنا ہے اور کب اور کس طرح؟ میری تجویز یہ ہے کہ ہم اپنا رہنما کمیشن بنائیں۔یہ ہے وہ حکمت عملی جس نے چین میں مائوزے تنگ کو کامیابی دلائی تھی۔ اُس نے جاپان کے جارحانہ حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے بدترین دشمن سے ہاتھ ملایا اور اُس کی عملی مدد حاصل کی۔ اشتراکی انقلاب سے پہلے عوامی جمہوری انقلاب کیلئے ایک ضروری شرط ہے اور وہ ہے Playing Field Level جس کا مطلب ہے انسانی حقوق کا احترام‘ تعلیم‘عوام دوست تعلیمی نظام‘ قانون کی حکمرانی‘ عدل و انصاف‘ انگریزی کا بطور ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کا خاتمہ‘پولیس تشدد کا خاتمہ‘ جمہوری اقدار کی حفاظت‘ صاف پانی کی فراہمی‘ ماحول کی بہتری اور ان جیسے بڑے نیک مقاصد کی خاطر متحد محاذ کا قیام۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں