لاٹھی بردار جواب دہ ہیں

گزشتہ کالم میں کالم نگار اُن نوجوانوں سے مخاطب تھا ‘جنہوں نے 9 نومبر کو پچاس شہروں کی شاہراہوں پر یہ نعرہ بلند کیاکہ ایشیا سرخ ہے اور میں نے انہیں پیار اور شفقت سے بزرگانہ نصیحتیں کیں۔ ایک نہیں‘ بلکہ بہت سی۔ ابھی نہ اُن کا کوئی جواب آیا ہے اور نہ دوسرے یا تیسرے ذرائع سے اُن کے ردعمل کی خبر ملی ہے۔ آج کا کالم اُن نیک نیت مگر متعصب‘ تنگ نظر‘ عوام دشمن‘ رجعت پسند اور ایک اور انگریزی محاورے کے مطابق‘Yesterday's Men کو مخاطب کر کے لکھا جا رہا ہے کہ جونہی اُن کے کانوں میں اس نعرے کی آواز آئی کہ ایشیا سرخ ہے توچاہے ایشیا کا ایک مربع انچ بھی سرخ نہ ہوا ہو‘ مگر اُن کے چہرے غصے کی شدت سے ضرورسرخ ہو گئے۔ اب یہ نوجوان اگلی بار اس سے بھی بڑا مظاہرہ کریں تو نہ صرف یہ نعرہ بلند کریں کہ ایشیا سرخ ہے ‘بلکہ یہ بھی کہ ہمارے اُوپر لاٹھی چارج کرنے والوں اور پتھر برسانے والوں کے چہرے بھی سرخ ہیں۔ 
اب رہا مراعات یافتہ طبقہ اور اُن کا چہرہ تو وہ عوامی انقلاب‘ جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں‘ کی آمد کے نعرے سے ہی زرد ہو گیا ہوگا۔ یہ تو ایک سو سال پہلے علامہ اقبال کو بھی پتہ تھا کہ خواجہ (یعنی حکمران) بلند بام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے لینن کو خدا کے حضور پیش کیا اور ہمیں لینن کی وہ گزارشات سنوائیں جو اُس نے قادرِ مطلق کی خدمت میں بیان کی تھیں۔ اقبال ؔنے صرف اس پر اکتفا نہ کیا‘ اُنہوں نے کمال کی تین اور نظمیں بھی لکھیں‘ اوّل ابلیس کی مجلس ِ شوریٰ کی کارروائی۔ دوئم‘ فرمانِ خدا (فرشتوں کے نام) اور سوئم‘ الارض للہ۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سنگ باری کرنے والے دانشوروں اور عالم فاضل کالم نگاروں نے مذکورہ بالا تینوں نظمیں ضرور پڑھی ہوں گی۔ مقام ِگریہ ہے کہ وہ اُن کے دماغ کی اُس سطح تک پہنچنے کی بجائے جس کا تعلق فہم و شعور سے ہے‘ اُوپر سے گزر گئیں۔ اگر وہ انہیں سمجھ آجاتیں تو وہ بھی مظاہرے کرنے والے نوجوانوں کی آواز میں اپنی آواز شامل کرتے۔وہ مظاہرین پر قلمی لاٹھی چارج کرنے سے باز رہتے۔ 
یہ کالم نگار جو بات بیان کرنا چاہتا ہے‘ وہ راکٹ سائنس نہیں۔ ہمارے سامنے دو راستے اور دو معاشی نظام ہیں‘ ایک سرمایہ داری اور دوسرا ایک ایسا اشتراکی بندوبست جس میں کسان اور مزدور ذرائع پیداوار کے مالک ہوں۔ سرمایہ داری کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ ہے محنت کشوں کی محنت کا استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمانا۔ سرمایہ دار‘ ساہو کار اور ٹھیکیدار چاہے کتنے ہزاروں بھوکے افراد کو کھانا کھلائیں‘ چاہے کتنی زیادہ رقم خیرات میں دیں‘ وہ عوام دوستی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا دعویٰ تو کیا نام تک نہیں لیتے۔ اگر استحصال اور لوٹ مار کرنے والے اُن نوجوانوں کی مذمت کریں ‘ ان کو بدنام کرنے کیلئے ان پر جھوٹے الزامات لگائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ وہ طبقاتی جنگ میں اپنے ازلی اور ابدی دشمنوں کیلئے ایک بھی کلمہ خیر کیوں کہیں؟ اُن کا بس چلے تو وہ صرف حسن ناصر کو قلعہ لاہور میں تشدد کر کے شہید کرنے پر بس نہ کریں بلکہ اُس کے تمام ہمنوائوں اور ہم خیالوں کا بھی اُتنا ہی عبرتناک حشر کریں۔ کتنا اچھا ہو کہ اشتراکی ذہن کے نوجوانوں کے مخالف دشمن دشنام طرازی (جس میں اُن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا) کی بجائے علمی مکالمہ کیلئے میدان میں اُتریں‘دلائل دیں‘ منطق کا سہارا لیں‘شواہد پیش کریں اور اپنا موقف متانت اور سنجیدگی کے ساتھ بیان کریں۔ وہ مستقبل قریب میں لکھے جانے والے کالموں میں ہمیں بتائیں کہ اگر وہ موجودہ معاشی نظام (جو بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہے) سے خوش نہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس نظام کے تحت بمشکل ایک فیصد لوگ (20 کروڑ میں صرف بیس لاکھ) جاگیروں ‘کارخانوں‘Stock Exchangeاور کروڑوں ایکڑ زمینوں پر قابض ہیں جبکہ قریباً 60/50فیصد آبادی متوسط طبقے (بالائی اور نچلے) پر مشتمل ہے ۔محتاط اندازے کے مطابق کم از کم نصف آبادی اتنی غریب اور مفلوک الحال ہے اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی اس طرح گزار رہی ہے کہ محض زندہ رہنا اُن کیلئے بڑا عذاب بن گیا ہے‘ تو جو متبادل یا نعم البدل نظام اُن کے ذہن میں ہے‘ وہ ہمیں اپنی اولین فرصت میں اس کے خدوخال اور حدود اربعہ بتائیں تاکہ ہم گمراہی کے اندھیرے سے نکل کر راہ راست پر آجائیں اور ایشیا کے سُرخ ہونے کے غیر حقیقی اور رومانوی نعرے لگانے کی بجائے اُس نظام کے حق میں آواز بلند کریں جو موجودہ نظام کی جگہ لے کر ہماری نصف آبادی کو غربت کی دلدل سے نکالے گا‘ جو متوسط طبقے کو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نجات دلا کر سکھ کا سانس لینے کا موقع دے گا‘ جو افراطِ زر کو ختم کر کے اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو اعتدال پر لائے گا‘ جو ہمارا کشکولِ گدائی پہلی بار توڑے گا‘ جو ہمیں بین الاقوامی ساہو کاروں کے چنگل سے نکالے گا‘جو ساری قوم (نہ کہ اقلیتی استحصالی طبقہ) کیلئے خوشی اور خوشحالی کا ایک روشن اور مبارک دور شروع کرے گا‘ جو مر مر کی سلوں سے بیزار ہوگا اور مٹی کا نیا حرم بنائے گا‘ جو اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دے گا‘ جس سے دہقاں (کاشتکار) کوخود اپنی روزی میسر نہیں ہوتی‘ جو غریبوں کو جگاکر کاخ ِاُمرا کے در و دیوار ہلائے گا۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ یہ سطور لکھی تو نثر میں گئی ہیں مگر وہ اقبال کی ایک نظم (فرمانِ خدا) کے اشعار سے مستعار لی گئی ہیں۔
غالبؔ نے لڑکپن میں مجنوں کو قرار واقعی سزا دینے کیلئے سنگ اُٹھایا تو اُنہیں اپنا سر یاد آیا اور اُنہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ کالم نگار جن لوگوں سے مخاطب ہے وہ اُدھیڑ عمر کے دور سے نکل کر بڑھاپے کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اُنہیں پتھر اُٹھاتے وقت اپنا سر (جو علمی دیانت سے خالی ہے) کیوں یاد نہ آیا؟ کیا اُن کا منصب اُنہیں اجازت دیتا ہے کہ وہ سو فیصد منفی اور بددیانتی پر مبنی تنقید کریں؟کیا وہ نہیں جانتے (اور جانتے ہیں تو مانتے کیوں نہیں) کہ اشتراکی ذہن رکھنے والے نوجوان آج کتنے کمزور اور ناتواں ہیں؟ وہ اکیلے ہر گز نہیں‘ اُن کے ساتھ اقبال سے لے کر فیض احمد فیضؔ ‘ حبیب جالبؔ اور احمد فرازؔ کھڑے ہیں۔ شاہ ولی اللہ اور حسرت موہانی کے افکار کا اُن کے سروں پر سایہ ہے۔ نہ صرف چے گویراکی روح اُن کا حوصلہ بڑھا رہی ہے‘ بلکہ صوفی شاہ عنایت‘حیدر بخش جتوئی‘رسول بخش پلیجو ‘ہاری رپورٹ لکھنے والے مسعود کھدر پوش‘میجر اسحاق محمد‘ سی آر اسلم‘ قسور گردیزی‘دادا امیر حیدر‘ لال خان‘Rosa Luxemburg‘ سوبھو گیان چندانی‘ ڈاکٹر مصدق اور تاریک راہوں میں مارے جانے والوں اور راہِ حق پر چلنے والے تمام شہدا کی روحیں بھی۔
مناسب ہوگا کہ آخر میں عوام دوستوں کے لشکر کے پہلے سردار حضر ت ابو ذر غفاری ؓکی خدمت میں اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کیا جائے‘ اُن کے بیانیہ پر پھول برسائے جائیں‘ اُن کے افکار اور عملی زندگی ڈیڑھ ہزار سال کے بعد بھی پچاس شہروں کی سڑکوں پر ''ایشیا سُرخ ہے‘‘ کے نعرے لگانے والوں کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اشتراکی تحریک اور تنظیم کے بغیر اشتراکی انقلاب نہیں لایا جا سکتا ۔صد افسوس کہ اشتراکی انقلاب کی دلی ابھی بہت دور ہے‘ مگر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اشتراکی اصولوں کو ایک ایک کر کے اپنانا شروع نہ کر دیں۔ ہم بسم اللہ مندرجہ ذیل کاموں سے کریں۔ 1:لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین لاکھوں بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دیں۔2 :تمام کارخانوں میں مزدوروں کو آدھی ملکیت دیں۔ 3: کراچی سٹیل ملز کے کارکنوں کو اُس کا مالک بنا دیں‘وہ اس کو اچھی طرح چلا لیں گے ‘ خود بھی منافع کمائیں گے اور قومی خزانے کو بھی اپنے نفع کا ایک حصہ دیں گے۔4 :تمام سکولوں اور کالجوں میں یکساں نصاب ِ تعلیم کے مطابق پڑھایا جائے۔5 :پاکستان کے آئین کے مطابق اُردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنایا جائے۔یہ ہوگا کہ سرسبز پاکستان میں اصل سویرے کا آغاز!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں