پاکستان کے دو انگریز دوست

اگرچہ یہ کالم نئے سال کے دوسرے مہینہ کی دوسری منگل کو شائع ہوگا مگر کالم نگار کی طرف سے قارئین کو نئے سال کی مبارک باد۔ خدا کرے کہ یہ سال آپ کیلئے‘ آپ کے اہل خانہ اور اہل وطن کیلئے خوشی‘امن اور خوشحالی لائے۔
اب آیئے آج کے کالم کے اصل موضوع کی طرف۔ پاکستان کے دونوں اچھے دوستوں کا ذکر برطانیہ کے روزنامہ Times نے نمایاں طور پر کیا‘ جہاں قابلِ ذکر شخصیات کی وفات پر اُن کی زندگی اور دوران ِ زندگی سرانجام دیے جانے والے کارناموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ ایک قسم کیObituary ہوتی ہے۔ آہ اور واہ کا مجموعہ۔ ایک شخصیت کا نام ہے Rom Harle جو 18 دسمبر1927ء کو نیوزی لینڈ میں پیدا ہوا اور 91 برس کی عمر میں 17 دسمبر2019 کو وفات پائی۔ زندگی شروع کی حساب‘ شماریات اور طبعیات پڑھانے سے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اُس نے ادھیڑ عمر تک نفسیات‘عمرانیات‘ فلسفہ اور تاریخ جیسے عمرانی علوم پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ ہر صبح کو وہ ایک مضمون پڑھاتا تھا‘بعد دوپہر کو دوسرا ‘شام کو تیسرا اور رات کا پہلا حصہ محفلِ موسیقی سے لطف اندوز ہونے میں گزارتا تھا۔ اُس نے نہ صرف 70 اچھی کتابیں‘ بلکہ 500 تحقیقی مقا لے بھی لکھے۔ نیوزی لینڈ سے مشہور برطانوی یونیورسٹی Oxford تک سفر کے دوران وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی میں مختصر عرصہ کیلئے پڑھانے لاہور گیا اور ساری عمر لاہور میں اپنے خوشگوار قیام کو یاد کرتا رہا۔ افسوس کہ لاہور ایک بار پھر جانے اور دوبارہ وہاں یونیورسٹی میں پڑھانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی‘ مگر مرتے دم تک یہ خواہش اُس کے دل میں زندہ و تابندہ رہی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے وہاں 40 برس پڑھانے اور ہزاروں طلبا اور طالبات کے ذہنوں کو روشن کرنے کا اعتراف یوں کیا کہ آکسفورڈ میں اُس کے نام پر ایک نیا باغ بنایا گیاجس کے اندر کانفرنس روم تعمیر کئے گئے تاکہ اہلِ دانش سر جوڑ کر بیٹھیں‘ گتھیاں سلجھائیں اور علم و شعور کے نئے درشن کریں۔ کتنا اچھا ہو کہ پنجاب یونیورسٹی بھی اُس شخص کی یاد میں متعلقہ شعبہ کے باہر اس کے نام کی تختی لگائے اور وہ سال بھی لکھا جائے جب اُس نے وہاں پڑھایا۔ بہتر ہوگا کہ لکھا جائے کہ Times کے تعزیتی مضمون میں Rom Harle کا تعارف بطور Poly Math کرایا جس کا مطلب ہے جامعہ العلوم شخص یا علامۂ دہر۔ اس سے زیادہ کس عالم فاضل شخص کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔
دوسرے شخص کا حدود اربعہ کیا تھا؟ اور پاکستان سے کتنا گہرا اور مضبوط رشتہ تھا؟ آپ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگا سکتے ہیں۔ نام تھا Anthony Burdett ۔ 89 سال کی عمر میں انگلستان کے ایک گمنام گائوں میں وفات پائی اور ہزاروں میل دور کوئٹہ کے شمال مشرق میں ژوب وادی میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جوگیزئی قبیلے کے لوگ اُسے اپنے قبیلے کا ایک فرد سمجھتے تھے‘ جہاں وہ انکل ٹونی کے نام سے جانا پہچانا اور پکارا جاتا تھا۔ یہ 1988ء کا ذکر ہے جب 28 سالہ انتھونی کی بلوچستان میں ایک دریا کے کنارے (جب وہ اُسے عبور کرنے کیلئے کشتی کا انتظار کر رہا تھا) جوگیزئی قبیلہ کے سردار سے ملاقات ہوئی اور وہ بہت جلد گہری ‘دائمی اور سدا بہار دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ چند ماہ قبل انتھونی نے دس شلنگ خرچ کر کے ایک سیکنڈ ہینڈ بائیسکل خریدا تھا اور اُس کے ساتھ50CC کا انجن لگا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ اس پر سوار ہو کر مشرق کے ایک لمبے سفر پر روانہ ہو سکے۔ جیب میں صرف 23 پائونڈ مگر دل میں مہم جوئی اور خوشی کے جذبات موجزن تھے۔ سفر چھ ہزار میل تھا‘ لندن سے دہلی تک۔ میں یہ سطور لکھتا ہوں تو مجھے 1974-75ء میں اپنا لندن سے لاہور تک ایک پرُانی اور شکستہ حال ویگن میں کیا جانے والا یادگار سفر یاد آتا ہے۔ ڈرائیور ایک اور مسافر سات (بیوی اور چھ بچے جن میں سب سے چھوٹے کی عمر دو برس تھی اور سب سے بڑے کی بارہ سال) یورپ کے چھ اور ایشیا کے تین ملکوں سے گزرنے میں 21 روز لگے اور اتنے ہی واپسی پر۔ یہاں پہنچ کر کالم نگار نے اپنے آپ پر بریک لگائی۔ کالم اس لحاظ سے خود نوشت نہیں ہوتا کہ اُس میں کم از کم ذکر لکھنے والے کا ہونا چاہیے۔ یہ سطور انتھونی کے حالات اور کارنامے بیان کرنے کیلئے لکھی جا رہی ہیں۔ وہ اٹلی کے شہرNaples پہنچا تو خیال آیا کہ داڑھی بڑھ گئی ہے‘ کیوں نہ شیو کرائی جائے؟ خیال تو چنداں برُا نہ تھا مگر انتھونی نے جس حجام کی خدمات حاصل کیں وہ نابینا تھا اور اُس کے ہاتھ میں اُسترا تلوار کی دھار سے بھی تیز تھا۔ خوش قسمتی سے انتھونی زندہ بچ نکلا۔ سائیکل چلاتے ہوئے ایران‘ ترکی اور افغانستان سے گزرا تو وہاں اُس پر کئی حملے ہوئے۔ حملہ آور ڈاکو کم اور لفنگے زیادہ تھے‘ مگر وہ اُس پستول کو دکھا کر حملہ آوروں کو بگانے میں کامیاب رہا جو اُس نے اپنے سائیکل کی گدی کے نیچے چھپایا ہوا تھا۔ انتھونی بلوچستان پہنچا تو اُس نے سکھ کا سانس لیا۔ جوگیزئی‘جو کاکڑ قبیلہ کا Sub-clan ہے اُس کیلئے رحمت کے فرشتے ثابت ہوئے۔ میزبانی میں بے مثال جوگیزئی افراد کو اپنے انگریز مہمان کی سخت جانی کا بہت جلد پتہ چل گیا۔ اُس نے 65 میل لمبی ژوب وادی کو 20 گھنٹوں کے اندر پیدل چل کر عبور کر لیا۔ راستے میں صرف پانی پینے کیلئے رکتا رہا۔ یہ بیان کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل کام ہے کہ اس سفر کے دوران جوگیزئی قبیلہ اور انتھونی کے درمیان کتنے مضبوط اور دیرپا رشتے قائم ہو گئے۔ دوستی‘ محبت اخوت‘ باہمی عزت اور بھائی چارے کے کبھی نہ ٹوٹنے والے رشتے۔ برطانیہ واپسی پر انتھونی نے اپنا گھر بسایا اور تین بیٹوں کا باپ بنا۔ وہ ان تینوں کو کئی بار بلوچستان لایا جہاں جوگیزئی قبیلے نے اُنہیں بھی وہ اعزازی رکنیت دی جو اس سے پہلے اُن کے باپ کو دی جا چکی تھی۔ انتھونی نے یونیورسٹی میں علم ِزراعت کی ڈگری حاصل کی مگر عملی میدان میں صرف دو ماہ گزارنے کے بعد کاشتکاری سے بھاگ گیا ‘چونکہ اُسے یہ ہر گز پسند نہ تھا۔ پاکستان میں بہت اچھا وقت گزرانے کے بعد انتھونی جنوبی امریکہ کے ایک ملک چلا گیا۔ زیادہ تر انگریزوں کی طرح انتھونی بھی پرلے درجہ کا Eccentric (عجیب و غریب عادات کا مالک) تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے نہ صرف غیر رواجی اور خانہ بدوش زندگی گزاری بلکہ گھر میں 24 قسموں کے سانپ (جن میں زہریلے بھی شامل تھے) پالے۔ صرف سانپ نہیں ایک نادر نسل کا بندر اور ایک ایسا بگلا جس کی ایک ٹانگ غائب تھی۔ (انتھونی نے مصنوعی ٹانگ بنا کر اور پرندے کے جسم کے ساتھ جوڑ کر یہ کمی بھی پوری کر دی)۔ انتھونی میں ایک اچھادوست ہونے کی سب خوبیاں تھیں ‘جس کا اُس نے برس ہا برس نہ صرف افریقہ میں‘ بلکہ بھارت کے شہر ڈیرہ دون کے مشہور Doon Schoolمیں بھی پڑھایا (راجیو گاندھی بھی اُس کے شاگردوں میں شامل تھے)۔ 1978ء میں انتھونی کو پھر صحرا نوردی کا شوق چرایا تو اُس نے اپنی فوکس ویگن گاڑی میں اپنے ایک دوست‘ اپنے چار طلبا اور اپنے گیارہ سالہ بیٹے کو بیٹھا کر لندن سے افغانستان کے شمال میں مزار شریف تک کا سفر کیا۔ ایران سے گزرا تو وہاں شاہ ایران کے خلاف زبردست مظاہروں کے دن تھے۔ مظاہرین کے دل میں اہل مغرب کے خلاف جو غم و غصہ تھا اُس کا اظہار انہوں نے انتھونی کی گاڑی پر پتھر برسا کر کیا۔ خوش قسمتی سے وہ اور دوسرے مسافر محفوظ رہے۔ کوہ ہندو کش کی بلندیوں تک پہنچا تو ویگن کی بریک فیل ہو گئی مگر متوقع حادثہ نہ ہوا۔ انتھونی پٹھانوں کی سادہ طرزِ زندگی سے بہت متاثر تھا۔ اُس نے افغان لباس پہنا‘افغان خوراک شوق سے کھائی ‘ نا صرف اُن کی بولی (پشتو) بلکہ فارسی اور اُردو بھی سیکھ لی۔ وہ اتنا ضدی مزاج تھا کہ ایران سے ترکی سرحد عبور کرنے کیلئے اُس سے رشوت مانگی گئی‘اگرچہ رشوت کی رقم تھوڑی تھی‘ مگر اُس نے ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تین دن تک سرحدی چوکی پر بیٹھا رہا اور آخر رشوت دیئے بغیر سفر جاری رکھنے میں کامیاب رہا۔ جب انتھونی اکیلا بلوچستان گیا تو اُس کی عمر 62 سال تھی۔ اُس نے افغان قالینوں کی خرید و فروخت سے اپنے سفر کے اخراجات ادا کئے۔ اُس کی وفات کی خبر ہزاروں میل دُور بلوچستان پہنچی تو جوگیزئی قبیلہ نے سوگواروں کو یہ تعزیتی پیغام فیس بک کے ذریعے بھیجا کہ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں