ایک ناظم کی آپ بیتی

یہ ہے‘ وہ آپ بیتی جو آٹھ جنوری کو ایک معاصر اخبار کے ادارتی صفحے پر محمد عرفان صدیقی صاحب کا کالم بن کر شائع ہوئی۔ پڑھ کر میں خداوند تعالیٰ کا شکر بجا لایا کہ اس اندھیرے میں مجھے روشنی کی ایک کرن تونظر آئی اور پھر کالم نگار کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کیا۔ جناب عرفان صدیقی نے ایک ضلعی ناظم بن کر جو کارنامے سرانجام دیئے اُس کی تفصیل آپ اُن کے لکھے ہوئے کالم میں خود پڑھ سکتے ہیں۔ میں اُن کی قابلِ توجہ تحریر کی صرف آخری سطور نقل کرنے پر اکتفا کروں گا ''میرا شہر‘میرا ضلع ایک مثالی علاقہ بن چکا تھا‘ لیکن پھر پاکستان سے ضلعی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یقین کریں بلدیاتی نظام ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ایک اچھا ناظم تو کھنڈر کو شہر بنا سکتا ہے اور ایک نااہل ناظم شہر کو کھنڈر بنا سکتا ہے۔ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے‘‘۔خدا بھلا کرے لاہور میں رہنے والے ان دانشوروں کا جو اضلاعی اور مقامی حکومتوں کے قیام پر زور دینے میں اس کالم نگار کے حامی اور ہمنوا ہیں۔ ان کے علاوہ مجھے اپنا نظریاتی ساتھی ڈھونڈنے کیلئے کراچی جانا پڑتا ہے تو وہاں بھی ہم خیالوں کی تعداد محدود ہے‘ جبکہ اسلام آباد کی طرف دیکھوں تو وہاں صرف دواحباب سے بوئے رفاقت آتی ہے‘ وہ ہیں جنرل (ر) نعیم خالد لودھی صاحب اور کنور دلشاد صاحب۔ دو مارچ کو اسلام آباد میں ڈاکٹر عابد سلہری کا مہمان بن کر وہاں اپنی چوتھی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کیلئے جائوں گا تو دو دن کے قیام کے دوران جن روشن دماغ عوام دوستوں سے ملوں گا۔ مذکورہ بالا دو محترم دوستوں کے علاوہ وہ ہیں؛ جنرل(ر) امجد شعیب صاحب‘طاہرہ عبداللہ صاحبہ‘ خورشید ندیم صاحب‘ اشرف جہانگیر قاضی صاحب‘جاوید حفیظ صاحب‘ افراسیاب خٹک صاحب اور محمد اظہار الحق صاحب۔ میں ان کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ اگر وہ اس کالم نگار سے متفق ہیں کہ ہمارے ملک میں اچھی حکومت کا مطلب ہے مقامی حکومت تو پھر وہ میرے مؤقف کی حمایت میں آواز بلند کریں۔ اگر قسمت نے یاوری کی تو وہ شخص جو اس وقت انجمن میں تنہا ہے ''رازدانوں‘‘ کی حمایت کے بعد گئے دنوں کی طرف اس احساسِ طمانیت سے دیکھے گا کہ اس کی عمر بھر کی ریاضت ضائع ہونے سے بچ گئی اور وطن ِ عزیز کیلئے ایک آزمودہ نسخے کو شرفِ قبولیت بخشا گیا۔ 
پاکستان کی تاریخ میں (پچاس کے عشرہ کے نصف میں) ایک ایسا وقت بھی آیا جب ایک سیاسی مصلحت کے تحت مغربی پاکستان کے چاروں صوبے توڑ کر ایک سیاسی وحدت (ون یونٹ ) بنا دیا گیا۔ وقتی ضرورت کا مرحلہ طے پایا تو پھر پرانے یعنی انگریز کے بنائے ہوئے صوبے بحال کردیئے گئے۔ پاکستان کے جتنے بھی آئین بنائے گئے (1956ء‘1962ء اور 1973 ء ) وہ سب کے سب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ء کا چربہ تھے۔ اس ایکٹ کے تحت ہندوستان کے لوگوں کو برٹش راج نے پہلی بار بڑے محدود پیمانے پر حقِ خودارادیت دیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت اہرامِ مصر کی طرح مخروطی نظام میں شاہ برطانیہ کے نامزد کردہ گورنر جنرل کو ملک کے ہر صوبے کی غیر پسندیدہ اسمبلی اور صوبائی حکومت کو برطرف کرنے اور گورنر راج نافذ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہر گورنر جنرل نے اس اختیار کا بے دریغ استعمال کیا ۔ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی حکومت کی بے جواز برطرفی نے مجیب الرحمن کے چھ نکاتی منشور کیلئے ایسا بیج بویا جو اگلے پندرہ سال میں تن آور درخت بن گیا۔ ایک گورنر جنرل (ملک غلام محمد) نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور اُس کے جانشین جنرل اسکندر مرزا نے کئی اسمبلیاں توڑنے کے بعد 1956ء کا آئین ردی کی ٹوکری میں ڈال کر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جب بھٹو صاحب معزول کیے گئے اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو 1973 ء کا آئین بھی (بنانے والے کے ساتھ) تختہ دار تک جا پہنچا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں بھی صدر مملکت کے حکم سے بار بار برطرف کر دی گئیں۔
کیا یہ سچ نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پہلی بار صوبائی حکومتوں کو وہ اختیارات دیئے گئے جو انہیں اگست 1947ء کو اعلانِ آزادی کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے دیئے جانے چاہئیں تھے۔ جو ہر وفاقی نظام کی بنیاد ہوتی ہے۔ ہمیں یہ سچائی مان لینی چاہیے کہ اگر پاکستان کا پہلا آئین جو 1956ء میں بنایا گیا‘ وفاقی ہوتا تو مجیب الرحمن کو ساٹھ کی دہائی کے آخری پانچ سالوں میں داخلی خود مختاری کے حصول کیلئے چھ نکات پیش کرنے اور اُن کی بنیاد پر سیاسی تحریک چلانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ محض چھ نکات کے مقبول عام نعرے کی وجہ سے عوامی لیگ کو انتخابات میں مشرقی پاکستان میں تقریباً سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی اور ملک ٹوٹ گیا۔ دوسرا المیہ ہماری فوجی شکست تھی ‘ تیسرا المیہ تھا ہمارے 90 ہزار فوجیوں کا بھارتی قیدی بن جانااور چوتھا المیہ تھا معاہدہ شملہ جو قیدیوں کی رہائی کیلئے کرنا پڑا۔ مناسب ہوگا کہ میں یہاں رُک جائوں‘ مزید المیہ واقعات نہ گنوائوں۔ کیوں نہ ہم غالبؔ کا مشورہ مان لیں کہ جب جسم کے ساتھ دل بھی جل گیاتو راکھ کریدنے سے کیا فائدہ؟آیئے اب آگے کی طرف دیکھیں۔ موجودہ نظامِ حکومت کی ناکامی واضح ہے‘حیرت کا مقام ہے کہ اتنے سمجھدار‘ محب وطن اور ذہین لوگوں کی قوم میں کالم نگار سے اتفاق کرنے والوں کی تعداددونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ موجودہ نظام میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور ہر آنے والے دن‘ ہر آنے والے مہینہ اور ہر آنے والے سال گزرے ہوئے دنوں‘ مہینوں اور سالوں سے زیادہ خرابیوں سے بھرپور ہوگا۔ شہروں کی صفائی سے لے کر امن و امان تک‘ تعلیمی سہولیات سے لے کر طبی سہولیات تک‘ ہوا سے لے کر پانی کی آلودگی‘ شجر کاری سے لے کر پھولدار پودے لگا کر آبادیوں کو سرسبز بنانے تک۔ افسر شاہی کے احتساب اور جواب دہی سے لے کر سرکاری فیصلوں کی شفافیت تک‘ سرکاری افسروں تک عوام کی رسائی سے لے کر شکایات کے جلد از جلد ازالے تک ‘خواتین اور یتیم بچوں اور بے گھر لوگوں کی مناسب نگہداشت سے لے کر ٹیکس کی وصولی تک۔
اگر آپ نے امریکی فلمیں دیکھی ہیں تو آپ شیرف کے نام اور کام سے ضرور واقف ہوں گے۔ یہ ہوتا ہے اپنے علاقے کی پولیس کا سب سے بڑا افسر جسے ہر بستی میں رہنے والے اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ وہ پولیس کی وردی پہنے یا نہ پہنے اُس کی قمیض پر لگا ہوا ایک دھاتی ستارہ نما نشان اُس کے عہدے کا ایک ایسا نشان ہوتا ہے جو اُن مسلح غنڈوں اور سماج دشمن عناصر کو بھی پہچان لینے میں کوئی دیر نہیں لگتی جن سے وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑتا ہے‘ مگر وہ نہ ڈرتا ہے اور نہ پیٹھ دکھاتا ہے ۔ آپ اس کا مقابلہ اپنی برطانوی راج میں بنائی گئی پولیس سے کریں۔ سینکڑوں افراد کو جعلی مقابلوں میں مار ڈالنے والی پولیس۔ ہر روز کے ہر پہر ہر تھانے میں ہزاروں افراد پر بے پناہ تشدد کرنے والی پولیس۔ عوام دشمنوں کی فہرست بنائی جائے تو ہماری افسر شاہی سرفہرست ہوگی۔ اس صورتحال میں ہماری پولیس کا کوئی قصور نہیں۔ سپاہی سے لے کر تھانیدار اور ایس پی سے لے کر آئی جی تک ‘وہ جس نظام اور جس مشینری کے کل پرزے ہیں اُس میں وہ یہی کردار ادا کریں گے جو وہ صدیوں سے کر رہے ہیں۔ ماڈل تھانے بنانے سے ہر گز اصلاح نہ ہوگی اور نہ ہی بار بار انسپکٹر جنرل پولیس کو تبدیل کرنے سے۔ کتنا اچھا ہو کہ فوج کی طرح پولیس کو خود مختار ادارہ بنایا جائے جو بے داغ کردار کے عوامی نمائندوں کی نگران کمیٹی کے ماتحت ہو اور اُن کے سامنے جواب دہ ہو۔ پولیس ہر سیاسی مداخلت سے آزاد ہو۔ برطانیہ کی طرح ایک سپاہی کو بھی یہ اختیار ہو کہ وہ گورنر یا وزیراعظم کو قانون شکنی کرتے دیکھے تو اُسے موقع پر گرفتار کر سکے۔ آیئے ہم روٹھے ہوئے ناصر درانی کو پولیس میں انقلابی اصلاحات کرنے والے کمیشن کا سربراہ بنائیں ۔ پولیس کو مقامی (اضلاعی) حکومتوں میں کلیدی مقام دیں۔ ہم بقول اقبال ایک نیا شوالہ تعمیر کریں جس میں ہمارے ہر شہر کا میئر (ناظم اعلیٰ) محمد عرفان صدیقی جیسا ہو اور نا صرف کالم نگار بلکہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے کا خواب حقیقت بن جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں