گزشتہ سال کیسے گزرا؟

یہ سطور لکھی جا چکی تھیں اور لندن سے لاہور کا برقی سفر بھی طے کر چکی تھیں کہ 18 فروری کو مجھے لاہور سے اپنے دوست بریگیڈیئر (ر) حامد سعید صاحب کا فون آیا۔ وہ ناراض تھے کہ میں نے پچھلے کالم میں بھارت کے قیدی بن جانے والوں کی تعداد لکھتے ہوئے 90 ہزار ''فوجی‘‘ لکھ دیا۔ میں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میری تصحیح کی۔ مشرقی پاکستان میں ہماری کل فوج کی تعداد 41 ہزار تھی۔ ہمارے سات ہزار فوجیوں نے درجۂ شہادت حاصل کیا۔ قیدی بن جانے والوں کی تعداد 34 ہزار تھی۔ باقی رہ گئے 56 ہزارتو وہ (مغربی) پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر فوجی کارکن اور اُن کے اہل خانہ تھے۔
اب آتے ہیں آج کے کالم کی طرف جس کا عنوان پڑھ کر آپ ضرور مسکرائیں گے کہ 2019 ء کو گزرے چھ ہفتے گزر گئے تو بوڑھا کالم نگار نیند سے جاگا۔ واقعی ایسا ہی ہوا ‘مگر اس تاخیر کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ گزرے ہوئے سال میں اُڑنے والی گرد بیٹھ گئی اور اب اُس میں ہونے والے واقعات زیادہ صاف نظر آتے ہیں۔ آیئے ہم دیکھیں کہ گزشتہ سال کیسے گزرا ؟آندھیوں‘ طوفانوں اور زلزلوں میں۔ لاطینی امریکہ سے لے کر شمالی افریقہ تک۔ بحر اوقیانوس کے مشرقی ساحلوں پر چلی سے لے کرمغربی ساحل پر ہانگ کانگ تک۔ یورپی ممالک (برطانیہ‘ فرانس اور اٹلی) سے لے کر مشرق وسطیٰ (ایران‘ عراق اور لبنان) تک۔ (بقول اقبال) مندرجہ بالا ممالک میں ستم زدہ‘ محروم ومظلوم بندوں نے مراعات یافتہ آقائوں کے خیموں کی ایک اور طناب توڑ ڈالی۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب (بقول فیض) چار سُوکئی تخت گرائے گئے اور بہت سے تاج اُچھالے گئے۔ وہ چھوٹا سا بے ضرر‘ خوبصورت پرندہ (ممولہ) جو ہمیں کلامِ اقبال کے صفحات پر پھڑ پھڑاتا نظر آتا ہے۔ کتاب کے بے جان صفحے سے اُڑا اور کمال کی بہادری دکھاتے ہوئے شہباز جیسے طاقتور‘ رُعب دار اور خونخوار پرندے سے لڑنے کیلئے میدان میں اُترا۔ کہیں دہقاں کو روزی نہ دینے والے کھیت کے خوشۂ گندم کو جلایا گیا‘ مر مر کی سلوں سے لوگوں نے مٹی کا نیا حرم بنایا‘امرا کے در و دیوار کو تو ہر جگہ ہلایا گیا‘ مراعات یافتہ طبقے کا ساتھ دینے والے مذہبی رہنمائوں سے نفرت کے اظہار کیلئے دیر و حرم میں جلنے والے چراغ بجھا دیئے گئے‘ غلاموں کالہو سوزِ یقین سے گرم ہوا تو کنجشک فرمایہ کی شاہین سے تاریخی لڑائی طے پائی۔ خدا کی مخلوق نے سلطانیٔ جمہور کی طرف ایک اور قدم بڑھایا تو اُسے زیادہ نہیں تو چند نقش کہن مٹانے کے جدلیاتی عمل کو تیز تر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اب آیئے اس طولانی تمہید کے بعد ہم گزرے ہوئے سال پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں کتنے بڑے ہنگامے برپا ہوئے اور کیوں؟
سب سے پہلے ہم افریقہ کے مشرقی ساحل پر ایک بڑے ملک سوڈان چلتے ہیں۔ عمر البشیر نے وہاں تقریباً تیس سال حکومت کی۔ کہا جاتا تھا کہ اُس کے حکم کے بغیر سوڈان میں پتہ بھی نہ ہل سکتا تھا‘ لیکن جب زوال آیا تو سب کچھ ہل گیا۔ عمر البشیر کے قدموں تلے زمین سرِک گئی۔ اُس کے اقتدار کا محل ریت کے گھروندے کی طرح آناً فاناً منہدم ہو گیا۔ ہاتھوں سے زمامِ اقتدار نکلی تو وہ تخت سے اُتارے جانے کے بعد تختے کی جان لیوا منزل میں جا پہنچا۔ گزشتہ نو برس میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے دارفورکے صوبہ میں وسیع پیمانے پر قتل عام کا ذمہ دار ہونے کے جرم میں اُس کی گرفتاری کے کئی وارنٹ جاری کئے‘ مگر وہ قابو نہ آیا۔ اُس کے نادر شاہی احکامات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مغربی لباس پہننے پر خواتین کو دُرّے مارے جائیں اور اُس کی آمریت کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کو بے دریغ گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ اپریل 2019 ء میں فوجی انقلاب نے اُسے بر طرف کیا تو پتہ چلا کہ سوڈان کی معیشت اتنی تباہ ہو چکی ہے کہ عملاً دیوالیہ ہے۔ سارے ملک میں ریاستی نظام کی گرفت ڈھیلی پڑ جانے سے جو خلا پیدا ہوا اُس نے ان گنت مسلح جتھوں کی غنڈہ گردی کیلئے زمین ہموار کر دی۔ وسط دسمبر میں 75 سالہ سابق صدر پر مقدمہ چلا تو اُسے کرپشن کا جرم ثابت ہوجانے پر ایک اصلاحی ادارے (غالباً سابق صدر کے محلات میں سے ایک) میں دو سال کیلئے نظر بندی کی سزا دی گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمر البشیر جتنا عوام دشمن اور کرپٹ تھا اتنا بے وقوف بھی تھا کہ اُسے جھوٹ موٹ کی بیماری کا بہانہ کرنے یا اپنی برحق بیماری کے بے حد مبالغہ آمیز بیانیے کی نہ سوجھی‘ ورنہ وہ بھی علاج کی خاطر لندن آسکتا تھا۔ عمر البشیر کی معزولی کے بعد ہزاروں نہیں لاکھوں مظاہرین نے اتنے ہفتے اتنے حوصلے‘بہادری اور استقلال سے اور جوش و خروش سے مظاہرے کئے اور سوڈان کا سیاسی نقشہ بدل دیا۔ سفید لباس میں خوبصورت خاتون Asma مظاہرین کی رہنما اور آو ازبن کر اُبھری۔ ہر ماہ کے ہر ہفتے مظاہرے کرنے والوں نے عمر البشیر کی جگہ لینے والوں کو نیا آمر مطلق نہ بننے دیا۔ سوڈان اُس المیے سے بچ گیا جو ہمارے ملک میں کئی بار رونما ہوا اور ہماری عصری تاریخ کے تین عشرے سیاسی پسماندگی کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ 
کالم یہاں تک پہنچا تو کالم نگار چونکا کہ آدھی جگہ تو سوڈان لے گیا اور ابھی ساری دنیا پڑی ہے۔ سو فیصدی دیانتداری اور غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو دلیرانہ مظاہرے کرنے اور ظلم و تشدد کا سامنا کرنے میں مقبوضہ کشمیر کے شہری سر فہرست ہیں۔ سالِ نو شروع ہوا تو سری نگر میں لگایا جانے والا کرفیو اپنے چھ ماہ مکمل کر چکا۔ مستقبل قریب میں یہ ہمہ وقتی کرفیو ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کرفیو کی وجہ سے لاکھوں حریت پسند کتنی سختی برداشت کر رہے ہیں‘ کتنے بڑے عذاب کا سامنا کر رہے ہیں‘ اسے بیان کرنا نہ اس کالم نگار کے بس میں ہے اور نہ کسی اورکے۔ کتنی خوشی اور کتنے فخر کی بات ہے کہ بھارتی حکومت کے بڑھتے ہوئے ناقابلِ بیان جبرو تشدد کے باوجود کشمیری عوام نے اپنے حوصلے کے چراغوں کی لَو کو اتنا اُونچا کر رکھا ہے کہ اُن کے ہونٹوں پر آج بھی وہی رزمیہ ترانہ نغمہ سرا ہے ‘جو بھگت سنگھ شہید اور اُن کے ساتھیوں نے تختہ دار کی طرف جاتے ہوئے گایا تھا۔ وادیٔ کشمیر میں مستقل کرفیو کا نفاذ آزادی پسندوں کی کامیابی اور بھارتی حکومت کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
جنوبی (لاطینی) امریکہ کے تین ممالک بھی فقید المثال مظاہروں کی لپیٹ میں آئے۔بولیویا میں Evo Moralesکی اپنے دوسرے عہد صدارت کیلئے متنازعہ انتخابات میں کامیابی کے خلاف احتجاج اور صدر کی معزولی‘دوسری جانب مظاہرین نے ایکواڈور میں حکومت کو تیل کی فروخت پردی جانے والی رعایت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا‘جبکہ عدم مساوات اور مہنگائی اور افراطِ زر کے خلاف چلی میں کئے جانے والے مظاہروں نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ ایک نئے آئین (باالفاظ دیگر نئے عمرانی معاہدہ) کو مرتب کرنے کا وعدہ کرے۔ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں ناانصافیوں کے خلاف عوامی غم و غصے کا پیمانہ لبریز ہوتے ہوتے چھلک پڑا اور مظاہروں کی شکل اختیار کر گیا مگر دوسری طرف برازیل کے ایک صوبہMinas Gerais میں دریا پر بنایا گیا بند ٹوٹ کر قیامت خیز تباہی لایا جو 270 افراد کی جان لے گئی۔ نئے سال کی آمد کی خوشی منانے والوں کا مبارک سلامت کا شور ابھی تھما نہ تھا کہ امریکی حکومت کے عراق میں سو فیصدی غیر قانونی اور صریحاً مجرمانہ اقدام (ایرانی جنرل اور اُس کے ساتھیوں کا ڈرون حملے سے قتل) نے سارے مشرق وسطیٰ کو آتش فشاں پہاڑ میں تبدیل کر دیا۔ ایرانی بہادر‘ نڈر‘ بے خوف اور موت سے نہ ڈرنے والے لوگ ہیں۔ وہ امریکہ سے بخوبی نپٹ لیں گے‘ کالم نگار کو فکر ہے تو صرف اپنے ملک کی جو ایران کا ہمسایہ ہے۔ خدا کرے کہ ہم ایران امریکہ کشیدگی کی لپیٹ میں نہ آئیں۔میں صبح و شام دعا مانگتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید عذابوں سے بچائے۔ خیر کی پہلی خبر یہ آئی کہ ہماری حکومت نے امریکہ ایران تصادم سے اپنی مکمل غیر جانبداری کا اعلان کر دیا۔ میری دوسری دعا یہ ہوگی کہ خدا ہمیں اس عہد پر قائم رہنے کی توفیق بھی دے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں