کوئے ملامت کا طواف

اگر پاکستان کے جمہوری نظام کے تابوت میں لگائے گئے کیل گنے جائیں تو ایم کیو ایم نامی کراچی میں جنم لینے والی اور وہیں بڑی ہونے والی سیاسی جماعت کو سر فہرست ہونے کا ''اعزاز‘‘ حاصل ہے۔ بھتہ خوری سے لے کر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے تک‘ا یم کیو ایم ایک مستند‘ سکہ بند اورکلاسیکی معنوں میں فسطائی جماعت رہ چکی ہے۔لیکن مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی ‘آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں کٹھ پتلی وزرائے اعظم ہوں یا اب تحریک انصاف کی حکومت‘ بدقسمتی سے ان سبھی کو قومی اسمبلی میں ارکان کی اکثریت کی تائید حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ جس بیساکھی کی ضرورت پڑتی رہی اُس کا نام ایم کیو ایم ہے۔ 12 مئی کو کراچی میں قتلِ عام سے لے کر بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں 260 کے قریب کارکنوں کو جلا کر بھسم کردینے کی کارروائی تک کتنے ہی المناک جرائم اس جماعت کے نامۂ اعمال میں ہیں۔ یہ کالم نگار آصف عفان صاحب کا شکرگزار ہے کہ اُنہوں نے اسی صفحہ پر (پندرہ جنوری کی اشاعت میں) ایم کیو ایم کے کردار پر روشنی ڈالی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا ایک وزیر جنابِ عمران خان کی وزارت سے استعفیٰ دے چکا ہے‘ یا دینا چاہتا ہے اور وزیراعظم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اُسے کسی نہ کسی طرح منالیں‘ راضی کر لیں‘ شکوہ شکایت دور کریں اور دوبارہ اپنی کابینہ میں شامل کر لیں۔ 
بانی ایم کیو ایم کو ان دنوں برطانیہ میں اپنے خلاف فوجداری نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہے۔ اُن کی قانونی حیثیت ایک ملزم کی ہے اور جب تک کوئی عدالت (قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کے بعد) اُنہیں مجرم قرار دینے کا فیصلہ نہ کرے وہ بے گناہ تصور کئے جائیں گے۔ صحافت اور وکالت دونوں کے آداب کا یہ تقاضا ہے کہ کالم نگار (جو بیرسٹر بھی ہے) اُن پر لگائے گئے الزامات پر ہر گز کوئی رائے نہ دے۔ سیاسی طور پر اُن کا تعلق ماضی سے ہے۔ اُنہیں سیاسی لغت میں Yesterday's Manکہا جائے گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے اب اقتدار کا ہُما دوبارہ اُن کے سر پر کبھی نہ بیٹھے گا۔ اجازت دیجئے کہ میں اپنی یہ ذاتی رائے لکھوں کہ ایم کیو ایم کے بانی کی طرح میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی قصۂ ماضی بن چکے ہیں۔ یہ سب کے سب Yesterday's Man کی صف میں کھڑے ہیں۔ یا گر چکے ہیں یا گرنے والے ہیں۔ با الفاظ دیگر ان تینوں کی سیاسی وفات ہو چکی ہے‘ تجہیز و تکفین کا مرحلہ باقی ہے۔ مستقبل قریب میں وہ بھی طے پا جائے گا۔ یہاں مجھے شیکسپیئر کے کسی ڈرامے میں لکھی ہوئی ایک کمال کی بات یاد آتی ہے کہ بہت سے لوگ ہماری آنکھوں کے سامنے آج کے دن مر جاتے ہیں‘ مگر انہیں دفن کافی عرصہ گزر جانے کے بعد کیا جاتا ہے(یا کیا جائے گا)۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد اُن کی بنائی ہوئی مسلم لیگ بھی (1958 ء میں لگائے گئے پہلے مارشل لاء کی بدولت) صرف گیارہ سال زندہ رہی۔ اُس کے بطن سے مسلم لیگ کونسل ‘ مسلم لیگ کنوینشن اور ری پبلکن پارٹی پیدا ہوئیں۔ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اقتدار سے محروم ہوئی (یا کر دی گئی) تو مسلم لیگ (ن) معرض وجود میں لائی گئی۔ صدر ضیا الحق اور جنرل جیلانی صاحب نے مل کر یہ فرض سرانجام دیا۔ ایک مشہور مقولے کے مطابق قیامت کا ذکر چھیڑا تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچی۔ آگے چل کر مسلم لیگ( ق) ‘ پیر پگاڑا صاحب کی مسلم لیگ اور جنرل مشرف کی مسلم لیگ کی صورت میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رہا اور اب چاہے مسلم لیگ نام کی کوئی بھی سیاسی جماعت ہو‘ اُس کا نہ کوئی منشور ہے نہ ہی نصب العین۔ اس کے ہر دھڑے کا جواز صرف اقتدار کی جنگ میں حصہ لینا اور لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ ہاتھ مارنا رہ گیا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب قائداعظمؒ کی روح یہ بے حد تکلیف دہ منظر دیکھتی ہوگی تو کتنی مضطرب ہوتی ہوگی۔ اُن کا جسد ِخاکی اُن کی آخری آرام گاہ میں کس طرح پہلو بدلتا ہوگا (جسے انگریزی میں کہتے ہیں؛ Turning in the Grave ) ۔
میاں نواز شریف نے اقتدار کی راہداریوں سے نکل کر جی ٹی روڈ پر لاہور کی جانب سفر کیا تو ووٹ کو عزت دینے کا نعرۂ مستانہ بلند کیا۔ بہت اچھا کیا‘ مگر صد افسوس کہ دورانِ اقتدار اُنہوں نے ووٹ کو عزت دینے کیلئے ایک چھوٹا سا قدم بھی نہ اُٹھایا۔ کابینہ کو وہ پرِکاہ جتنی وقعت نہ دیتے تھے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اُن کی شایانِ شان نہ تھی اور ایک بار جب گئے بھی تو اپنے غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں صریحاً جھوٹ پر مبنی تقریر کرتے گئے۔ جمہوریت پسندوں سے ایک بار پھر جان کی امان مانگتے ہوئے یہ تلخ حقیقت لکھنے کی اخلاقی ذمہ داری پوری کروں گا کہ اگر پاکستان میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد برسر اقتدار آنے والے لوگ (ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک‘ میاں نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف تک) جمہوری قدروں کا تھوڑا سا بھی احترام کرتے۔ عوامی اُمنگوں کے ترجمان بنتے‘ مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیتے‘ مرکز اور صوبوں سے اختیارات لے کر یونین کونسلوں اور ضلعی کونسلوں کو بااختیار بناتے۔ قانون کی حکمرانی قائم کرتے‘ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بجائے بڑی حد تک اُس کی آزادی کو تسلیم کرتے۔ قانون شکن پولیس افسروں کی سرپرستی نہ کرتے۔ سانحہ ماڈل سے لے کر سانحہ ساہیوال تک میں بے گناہ افراد کے خون کے چھینٹے اُن کے دامن کو داغدار نہ کرتے۔ احتساب اور شفافیت کے زریں اصولوں کو مشعلِ راہ اور اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ بناتے توکوئی وجہ نہ تھی کہ پاک سر زمین پر جمہوریت کا پودا جڑ نہ پکڑتا۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ گملے میں لگائے گئے پودے اور زمین میں اُگنے والے اور دُور دُور تک جڑیں پھیلانے والے پودے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہم نے بار بار دیکھا کہ ہمارے ملک میں ایک آمر جب بھی چاہے گملے کو پودے سمیت اُٹھا کر پھینک سکتا ہے‘ اگر یہی پودا گملے کی بجائے زمین میں پیوست ہوتا تو اُسے اُکھاڑنا ہر گز ممکن نہ ہوتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام حالتِ نزع میں ہے۔ (ہسپتالوں کی زبان میں ICU میں داخل ہے) ایک گلے سڑے‘ عوام دشمن‘ بوسیدہ اور فرسودہ نظام کے بارے میں یہ نوشتہ ٔدیوار ہے کہ اُس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ وہ آج گیا یا کل۔ وہ جتنے دن بھی مصنوعی تنفس کی بدولت زندہ ہے ‘ہمارا ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتا‘ یہاں تک کہ عوام کو ڈینگی مچھروں اور پاگل کتوں کے کاٹنے سے بھی نہیں بچا سکتا ‘ اور نہ اُن کا علاج کر سکتا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی شکست کی آواز بن کر رہ گیا ہے۔ کالم ختم کرنے سے پہلے کالم نگار دو ایسے اقدامات کی سفارش کرنے کی اجازت چاہتا ہے جو کینسر زدہ نظام کیلئے زندگی بخش (Life Saving) ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک ہے صدارتی نظام اور دوسرا ہے ضلعی حکومتیں۔ یہ ہمارے تمام بڑے بڑے دکھوں کامداوا ہیں۔ مناسب ہو گا کہ آج کا کالم اس دعا پر ختم کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ یا تو ان سطور کے لکھنے والے کی تحریر کو ایسی تاثیر (جادو بھری تاثیر) عطا فرمائے کہ ان سطور کو پڑھنے والے اپنے قدیم تعصبات کی سطح سے اُوپر اُٹھ کر مذکورہ بالا اچھے مشورے مان لیں یا اُن کی ذہن کی کیفیت اس طرح بدل جائے کہ وہ ان تجاویز کو شرفِ قبولیت بخشیں۔ غالب ؔنے اپنے محبوب کیلئے نئے دل اور اپنے لیے اک نئی زباں کی دعا مانگی تھی) حاصل کلام یہ ہے کہ (بقول غالب) موجودہ حکمران اپنے پندار کا صنم کدہ ویران کرتے ہوئے کوئے ملامت کا ایک اور طواف نہ کریں۔ آیئے (بقول اقبالؒ) ہم دل کڑا کر کے مان لیں کہ ہمارے (انگریز کے بنائے ہوئے) صنم کدوں کے بت پرانے ہو گئے ہیں۔ آیئے ہم اب ایک نیا شوالہ تعمیر کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں