کے ٹو ، حُسن‘ عظمت اور طلسم

کوہ پیمائی اور قسمت آزمائی کو بلند ہمتی اور بہادر ی سے ایک قدم آگے بڑھ کر مستقل مزاجی کی آنچ پر پکایا جائے اور پھر اُس میں عرق گلاب کی بجائے ناقابلِ بیان جسمانی مشقت سے بہنے والے پسینے اورستاروں پر کمندیں ڈالنے کے جذبے کی چنگاریوں کو اس طرح ملایا جائے کہ رگوں میں دوڑنے والا خون جان کی باز ی لگا دینے والوں کی آنکھوں سے ٹپکنے کی دہلیز تک جا پہنچے ‘ تو آپ جان لیں کہ یہ کالم نگار آپ کو اُن چار بہادر اور بے خوف افراد سے متعارف کرانا چاہتا ہے جوکوہ ہمالیہ کی اُس عظیم ‘ سر بلند اور مشکل ترین چوٹی کوسر کرنے کیلئے کمر ہمت کس رہے ہیں جو ''کے ٹو‘‘کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔
کوہ پیمائوں کے گروپ کے رہنما نیپالی Mingma Sherpaہیں۔ اُنہوں نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ اضافی آکسیجن کے بغیر کے ٹو کی چوٹی تک پہنچ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دنیا بھر میں کوہ پیمائوں کے منہ سے زندہ باد کی کے نعرے نکلے۔ گزرے زمانوں میں شرپا (جو نیپال کے مقامی باشندے ہیں) غیر ملکی کوہ پیمائوں کا بھاری سامان اُٹھا کر اُن کے ساتھ مائونٹ ایورسٹ پر چڑھائی کے بے حد کٹھن مراحل طے کرتے تھے۔ 1953ء ہمالہ کے برف پوش پہاڑوں پر ایک نیا سنگ میل نصب ہوا۔ نیوزی لینڈ کے Edmund Hillary کے ہم قدمTensingh نامی شرپا تھا۔ ہے نا کمال کی بات کہ دیکھتے دیکھتے ہی ایک بار بردار قُلی دنیا کا دوسرا اہم ترین کوہ پیما بن گیا۔
مذکورہ بالا گروپ کے تین اراکین اور بھی ہیں‘ چین کے رہنے والے Gaoli‘ آئس لینڈ کے Jusion Snokes ‘ وسطی یورپ کے ملک Sloveniaکے Tumaz Rater ۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ کے ٹو دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں میں مائونٹ ایورسٹ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ8611 میٹر بلند ہے اوراس وقت تک 77 کوہ پیما اس چوٹی تک پہنچنے اور اسے سَر کرنے کی کوشش میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ کہنہ مشق کوہ پیما جب اس چوٹی کو سر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں تو کے ٹو اُن کے کانوں میں سرگوشی کرتی ہے کہ آپ کو اُردو زبان آتی ہے یا نہیں آتی؟ آپ غالب کے ایک شعر کا دوسرا مصرع پڑھ کر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں کہ جس کو اپنا دل عزیز اُس کی گلی میں کیوں جائے؟
ایمانداری سے مان لینا چاہیے کہ کالم نگار اور اس کی بیوی کوہ پیمائی کے ہنر سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتے بھی تو کے ٹو کا ہر گز رخ نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے دامنِ کوہ کی بجائے آسمان سے20/25 ہزار فٹ کے محفوظ فاصلے پر چین کی جانب پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔ ہم دونوں PIA کے طیارے کے کپتان کے احسان مند ہیں کہ اُس نے اپنے جہاز کے مسافروں کے دل کی ایک بڑی خواہش پوری کرتے ہوئے اپنی پرواز کا رخ بدل کرکے ٹو کے دو تین چکر لگائے۔ خوش قسمتی سے مطلع صاف تھا اور ہمیں K2 کی چوٹی بڑی اچھی طرح نظر آئی۔ اسے دیکھے ہوئے 26 سال گزر گئے‘ مگر ہماری آنکھوں میں وہ منظر اس طرح محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔
بوڑھا کالم نگار قابلِ معافی ہے کہ وہ عمر کے آخری حصے میں اوٹ پٹانگ باتیں سوچتا رہتا ہے ‘مثال کے طور پر اگر اللہ تعالیٰ میری یہ درخواست منظور فرمائے کہ میں نے استنبول تین بار اور وی آنا صرف دو بار‘ سالسبرگ ایک بار اور ایران کے کمال کے شہر اصفہان کو ایک بار بھی نہیں دیکھا تو مجھے انہیں دیکھنے کا موقع دینے کے لیے دنیا میں پھر بھیجا جائے ‘اگر میری درخواست کو شرفِ بازیابی بخشا گیا تو میں کون سا پیشہ اختیار کروں گا‘ مشاغل کیا ہوں گے ‘ ایک بات پکی ہے کہ دوبارہ بیرسٹر ہر گز نہ بنوں گا۔ کلاسیکی موسیقی سیکھوں گا‘اس میں ناکام ہوا تو کر کٹ کھیلنے کی کوشش کروں گا‘ اس میں بھی کامیابی کے امکانات روشن نظر نہ آئے تو پھر کوہ پیما بن جائوں گا۔ مائونٹ ایورسٹ کو فتح کرنے کے بعد کے ٹوکا رُخ کروں گا تو غالباًوہاں سے واپس نہ آسکوں گا۔ یہ ہوگا میری دوسری اُمنگ کا حسرتناک انجام۔
کوہ پیمائی کی تاریخ جتنی سنسنی خیز ہے اُتنی ہی ڈرامائی بھی ۔ میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا‘ 2018ء میں ایک روسی کوہ پیما‘ نام تھاDenis Urubko‘ اپنے ساتھیوں سے صرف ناراض نہ ہوا بلکہ اتنا شدید برہم کہ اُن سے لڑ جھگڑ کر اکیلے ہی کے ٹو کی چوٹی کی طرف قدم قدم چڑھائی شروع کر دی۔ جوں جوں وہ بلندی کی طرف جا رہا تھا برفانی طوفانوں کی شدت بھی اُسی تناسب سے بڑھتی گئی‘ یہاں تک کہ طوفان کی تندی اور تیزی کوہ پیما کی ضد پر غالب آگئی ۔ آخری اطلاعات آنے تک موصوف کے ٹو کے گرد و نواح میں نظر نہیں آئے۔دو سال گزر گئے ہیں‘ مگر کوہ پیمائوں کی برادری میں یہ بحث جاری ہے کہ کون غلط تھا اور کون حق بجانب؟ کیا کے ٹو کے بیس کیمپ میں بیٹھے کوہ پیمائوں کو اپنے ایک ساتھی کی بات مان کر اُس کے ساتھ چوٹی کی طرف جانا چاہیے تھا یا ایک شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی بات نہ مانتے ہوئے من مانی کرے اور اکیلا ہی چل پڑے؟ جس دن اور جس وقت روسی کوہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کے ٹو کی چوٹی کی طرف اکیلا رواں ہوا تو یہ کوہ پیمائی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بیس کیمپ میں کوہ پیمائی کے اگلے اور زیادہ مشکل مرحلے کی تیاری کرتے ہوئے تجربہ کار اور کہنہ مشق‘ برد بار اور بلند حوصلہ کوہ پیما آپس میں جھگڑتے جھگڑتے لڑ پڑیں اور اُن کا مثالی بھائی چارہ پار ہ پارہ ہو کر برفانی گولوں کی طرح اُڑ گیا۔ غیض و غضب سے مغلوب رُوسی کوہ پیما 7200 میٹر (منزل مقصود سے صرف 1411 میٹر نیچے) کی بلندی پر کیمپ نمبرتین تک جا پہنچا تو اُسے پتہ چلا کہ کے ٹو کو اس کی گستاخی پسند آئی ہے اور نہ ناراضگی۔ برفانی طوفان نے اُسے اس شدت سے گھیر لیا کہ اُس کے سامنے پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
کالم ختم ہونے کو ہے تو میرا دھیان امریکی کوہ پیمائوں میں سب سے بڑے اور معتبر نام Alan Arnette کے حال ہی میں دیئے گئے اُس تہلکہ مچا دینے والے اور متنازعہ بیان کی طرف گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کوہ پیمائی کے دوران آکسیجن کے سلنڈروں کی فالتو سہولت سے استفادہ کو دھوکہ دہی اور ڈنڈی مارنا تصور کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ کے ٹو کو فتح کرنے کے خواہش مند کوہ پیما اتنی غیر پسندیدہ (اُنہوں نے زیادہ سخت لفظ استعمال کئے) حرکت کے مرتکب نہ ہوں گے۔ کے ٹو کا لا جواب حُسن‘ عظمت اور طلسم دنیا بھر کے کوہ پیمائوں کی نظروں کو بدستور خیرہ کر رہا ہے‘ مگر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم چلتے چلتے ایک نظر مائونٹ ایورسٹ پر بھی ڈال لیں۔ گزرے ہوئے 50 سالوں میں اس پر چڑھنے کا ایک ہی راستہ کوہ پیمائوں میں مقبول رہا ہے۔ آج تک West Ridge کے ذریعے چڑھائی صرف دوبار کامیاب ہوئی ‘آخری بار 1984 ء میں Just Kobusch نامی جرمن کوہ پیما نے دنیا بھر میں اپنی برادری کو اطلا ع دی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں نسبتاً زیادہ دشوار گزار West Ridge کا راستہ استعمال کرے گا اور وہ بھی آکسیجن کے بغیر۔ کالم نگار کی خواہشات اس 27 سالہ نوجوان کے سر پر ان گنت افرا دکی طرح سایہ فگن رہیں گی۔ نہ صرف اس کے والدین‘ اہل خانہ ‘اہل وطن بلکہ دنیا بھر میں مہم جوئی کرنے والے غیر ارادی افراد کے مداحوں کی دعائیں بھی۔ آج کا کالم اُس کمال کے مقولے پر ختم کیا جاتا ہے جو مائونٹ ایورسٹ کو فتح کرنے والے Sir Edmund Hillary سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی جان کو شدید خطرے میں ڈا ل کر مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تو انہوں نے بے ساختہ جواب دیا: because it is there۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں