House of Lords

ہائوس آف لارڈز‘ یعنی دارالامرا برطانوی پارلیمان کے ایوانِ بالا کا نام ہے‘ جبکہ ایوان زیریں کا نام ہے دارالعوام (House of Commons)۔ ایوانِ زیریں کے برعکس ایوان بالا کے تمام رکن غیر منتخب ہوتے ہیں۔ موجودہ تعداد 793 ہے‘ ان میں موروثی لارڈز(جن کی تعداد 500 کے قریب ہے) کے 92 منتخب نمائندے اوربرطانوی کلیسا کے 26 بڑے پادری (Bishops ) شامل ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ایوانِ بالا ہے جس کے اراکین کی تعداد نا صرف دنیا بھر کے ہر ایوانِ بالا سے زیادہ ہے بلکہ ایوان ِزیریں سے بھی زیادہ ہے۔ ایوان بالا کی اکثریتLife Peers پر مشتمل ہے۔ یہ خواتین حضرات (جو لارڈ Baronیا Baroness کہلاتے ہیں) صرف اپنی زندگی کی مدّت تک نامزد کئے جاتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ کی کمیٹی کی سفارش پر وزیراعظم ملکہ برطانیہ سے نامزدگی کی سفارش کرتا ہے جو ملکہ معظمہ (صدیوں پرانی روایت کے مطابق) ہمیشہ منظور کرلیتی ہیں۔ ہر سال پارلیمنٹ کے نئے اجلاس کے افتتاح کے موقع پر ملکہ یا بادشاہ ہائوس آف لارڈز میں اپنی وہ تقریر کرتے ہیں جو وزیراعظم کے مشیرانِ خصوصی لکھتے ہیں اور اُس میں حکومت کی پالیسی کو نکتہ با نکتہ بیان کیا جاتا ہے۔ 1958 ء تک ایک خاتون بھی ایوان بالا کی رکن نہ تھی۔ برطانوی پارلیمان دنیا بھر میں سب سے قدیم ہے اور اسی وجہ سے پارلیمانوں کی ماں کہلاتی ہے۔ ہمیں مورخ بتاتے ہیں کہ 1295ء کی ماڈل پارلیمان کو ہی بجا طور پر پہلی پارلیمان کہا جاتا ہے۔ وہ وارث تھی اُس بڑی کونسل (لاطینی زبان میں Magnum Concilium) کی‘ جو ہر مطلق العنان بادشاہ کو صلاح مشورہ دینے کیلئے اپنے اجلاس منعقد کرتی رہتی تھی۔ 1569ء اس لحاظ سے ہم سنگ میل ہے کہ اس سال رائل چارٹر کے ذریعے پارلیمنٹ نے اُمورِمملکت میں اپنی بالا دستی کا پہلی بار اعلان کیا۔ دو برطانوی بادشاہوں ایڈورڈ دوئم 1307-1327ء اور ایڈورڈ سوئم کے دور میں برطانوی پارلیمنٹ نے کل پرزے نکالے اور بتدریج برطانوی نظامِ حکومت میں اپنی مرکزی اور کلیدی حیثیت منوائی۔ سولہویں صدی میں ایک طرف بادشاہ (Crown)اور پارلیمنٹ کے درمیان اور دوسری پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے درمیان ایک نیا آئینی توازن اور بندوبست مرتب کیا گیا۔ انگلستان کے آمرِ مطلق Oliver Cromwell کے فرمان کے مطابق 19 مارچ 1649 ء کو ہائوس آف لارڈز کو ختم کر دیا گیا اور یہ آئینی ادارہ گیارہ سال کے تعطل کے بعد 1660ء میں دوبارہ معرض ِوجود میں آیا۔ جوں جوں سلطانیٔ جمہور کا سورج طلوع ہوتا رہا۔ ہائوس آف لارڈز کی بالادستی اُسی تناسب سے کم ہوتی گئی۔ اب ‘قانون سازی میں (ماسوائے بجٹ اورمالیاتی امور کے) دونوں ایوانوں کو برابر کے اختیارات حاصل ہیں۔ دونوں ایوانPalace of Westminsterکی شاندار عمارت کے دو حصوں میں ہیں اور دنیا بھر سے سیاح نا صرف اُس عمارت کو اندر سے دیکھنے بلکہ مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر ہر روز بعد از دوپہر اور شام کو ہونی والی پارلیمانی کارروائی بھی دیکھ سکتے ہیں۔ 
1975 ء سے لے کر 2010 ء تک مجھے مذکورہ بالا عمارت میں ہر سال کئی بار جانے کا موقع ملتا رہا۔ Lord Eric Avebury(جو میری دعوت پر چار بار پاکستان گئے) اور Lord Barnard Weotherill ‘ایک بار پاکستان گئے‘ان سے پہلے رسمی تعارف ہوا‘ پھر واقفیت‘ پھر دوستی اور پھر گہری دوستی‘ جو اِن دونوں کی وفات تک سرسبز و شاداب رہی۔ لارڈ ایوبری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی حقوق برائے تحفظِ انسانی کے رُبع صدی تک صدر رہے‘ جبکہ لارڈ ویدرال کو یہ امتیازی حیثیت حاصل تھی کہ وہ ایوانِ زیریں (دارالعوام) کے طویل عرصہ تک سپیکر رہے۔ یاد نہیں آتا کہ ان دونوں میں سے کس نے میرا تعارف ایک بھارتی نژاد خاتون رکن سے کرایا تھا۔ وہ بھی ہائوس آف لارڈز کی رُکن ہیں اور نام ہے Shreela Flather ۔ اُن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سرگنگا رام (لاہور کے ایک بڑے محسن) کی پوتی ہیں اور ہر سال لاہور چند دنوں کیلئے جاتی ہیں‘ مگر اتنی خاموشی سے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ وہ ایوانِ بالا کے اجلاس میں بڑی شاندار ساڑھی پہن کر شریک ہوتی ہیں۔ جب ہائوس آف لارڈز کے در و دیوار کو یہ احساس ہوا کہ اب اُس کی راہداریوں میں (جہاں سال میں ایک بار ملکہ معظمہ بھی آتی جاتی ہیں تاکہ پارلیمانی سال کا افتتاح کر سکیں) ایک بوڑھے مہمان کے قدموں کی چاپ سنائی نہیں دیتی تو اُنہوں نے سوچا کہ کوئی ایسی ترکیب بروئے کار لائیں کہ مطلوبہ شخص (جو حسن ِاتفاق سے یہ کالم نگار ہے) سے تجدید ملاقات کی صورت بن جائے۔ اس شام کو ایسا ہی ہوا۔ مہمان خصوصی تھےGopal Subramanium۔ تین سو مہمانوں کا پرُ تکلف عشائیہ (جن میں بیرسٹروںاور جج صاحبان کی تعداد د وتہائی ضرور ہوگی)۔ 300 مہمانوں میں صرف تین پاکستانی۔ یہ کالم نگار‘ اس کا بیٹا (جو Q.C ہے) اور میری بہو۔ گوپال ہم تینوں سے جس اپنائیت اور گرم جوشی سے ملے وہ لندن کی سردی پر غالب آگئی۔ عشائیہ کی رسمی تقریب کا اس خوشی میں اہتمام کیا گیا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے Sommer will College نے اُنہیں اپنا فائونڈیشن فیلو چن لیا۔ 
گوپال نے 1958 ء میں بنگلور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1993ء میں اُنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اُنہیں (جسٹس ناریمان کے ساتھ)سینئر ایڈووکیٹ (برطانیہ میں Q.C کے برابر) ہونے کی سند جاری کی۔ بھارت کی تاریخ میں وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے سب سے کم عمر وکیل تھے۔ گوپال کی ٹوپی میں سرخاب کے کئی پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ بھارت کی بار کونسل کے صدر رہے ہیں۔ دو سال (2009-11 ء) سولیسیٹر جنرل کے بڑے عہدہ پر فائض رہے۔ آج کا کالم لکھنے کا مقصد اپنے قارئین کو بھارتی رائے عامہ کے اُس بڑے حصہ سے متعارف کرنا ہے جس کا نظریاتی طور پر بھارتی جنتا پارٹی سے اتنا زیادہ اختلاف ہے کہ اسے بُعد المشرقین کہا جا سکتا ہے۔ گوپال بھارت کے متوسط ‘ شہری اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ترجمان ہیں۔ اُنہوں نے اس عشائیہ میں اپنی تحریر میں تین باتیں کھل کر کہیں۔ اوّل‘ برصغیر میں ہندو پاک میں بنیادی طور پر ایک قوم آباد ہے جو تین آزاد اور خو د مختار ممالک میں بٹی ہوئی ہے۔ دوم‘ ان تینوں ممالک میں رہنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں (جو پوری دنیا میں انسانی آبادی کا ایک چوتھائی ہیں) کی خوشی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ یہ تینوں ممالک آپس میں امن ‘مفاہمت اور بھائی چارے کے رشتے کو قائم رکھیں۔ سوم‘ ان تینوں ممالک میں آئینی بندوبست کی عمارت جن چارستونوں پر کھڑی ہوگی تو پائیدار اور مستحکم ہوگی وہ ہیں۔ سیکولرنظام‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور احتساب۔ کاروبار مملکت کے ہر شعبہ میں عوام دوست پالیسی۔ اُنہوں نے اپنے تین پاکستانی سامعین کو پسند آنے والی باتیں کہیں مگر اشارتاً۔
کالم نگار کو گوپال کے ساتھ ذاتی گفتگو کا زیادہ وقت نہ ملا مگر میری ایک بات سُن کر وہ اتنے خوش ہوئے کہ قہقہہ لگایا اور میراہاتھ دوستانہ طریقہ سے دبایا۔ میں نے کہا کہ برطانیہ میں آپ جس پارلیمانی ایوان میں موجود ہیں وہ دارالامرا ہے۔ ملحقہ بلاک میں دارالعوام ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی گاڑی ان دو پہیوں پر چلتی آرہی ہے۔ برصغیر ہندو پاک کے تینوں ممالک میں اُن کی پارلیمنٹ صرف اور صرف دارالامرا ہے۔ دارالعوام وہاں کوئی نہیں۔ کسانوں ‘ مزدوروں‘ محنت کشوں ‘ اساتذہ اور پوسٹ مینوں (جن کو مخاطب کر کے فیض صاحب نے ایک کمال کی نظم لکھی تھی) کو قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی کب ملے گی؟ سلطانیٔ جمہور کا خواب کب پورا ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں