شہری دفاع!

شہری دفاع کا محکمہ قیامِ پاکستان کی اولین دنوں میں معرض وجود میں آیا۔ ہزاروں رضا کاروں کی وہ فوج جس کے ذمہ یہ اہم کام لگایا گیا کہ وہ ہر قسم کے ہنگامی حالات میں شہری آبادی کی ہر ممکن مدد کیا کرتا‘ اس کا آغاز تو بہت اچھا تھا‘ زمانہ طالب علمی میں یہ کالم نگار بھی اس تنظیم سے وابستہ تھا۔ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ رضا کاروں کے جوش و خروش اور قومی خدمت کے جذبے کا کیا عالم ہوتاتھا۔ قیام پاکستان کو بمشکل ایک عشرہ گزرا کہ 1956 ء میں بنائے گئے ہمارے پہلے آئین کے تحت ہونے والے ہمارے پہلے عام انتخابات کی تیاریاں 1956 ء کے موسم خزاں میں اپنے عروج پر تھیں۔ مسلم لیگی رہنما عبدالقیوم خان ابھی جی ٹی روڈ پر اپنے میلوں لمبے جلسوں کی فقید المثال کامیابی پر مبارکبادیں وصول کر رہے تھے کہ اُن پر نچھاور کیے گئے پھولوں کی پتیاں مرجھا گئیں‘ لولی لنگڑی جمہوریت کی صف لپیٹ دی گئی۔ سکندر مرزا اور ایوب خان نے مل کر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جمہوریت کی بہار نے اگلے گیارہ برس وطن عزیز کا رُخ نہ کیا۔ معاشی اور صنعتی ترقی تو بہت ہوئی‘ دو بڑے ڈیم بھی بنائے گئے‘ بھارت سے ایک باقاعدہ جنگ بھی ہوئی۔اس جنگ میں سول ڈیفنس کے رضا کاروں نے قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔ جنگ ختم ہوئی تو سول ڈیفنس کا زوال شروع ہو گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس محکمہ پر زیادہ توجہ دی جاتی‘ لاکھوں نوجوانوں کو بطور رضا کار شمولیت کی دعوت دی جاتی‘مگر جو کچھ ہوا وہ اس کے اُلٹ تھا۔ آپ سول ڈیفنس کو بھی اُن اچھے اداروں کی فہرست میں شامل کر لیں جن پر وقت گزرنے کے ساتھ اتنا گرد و غبار جمع ہوتا گیا کہ وہ اب آثارِ قدیمہ میں شامل ہو گئے ہیں۔
میں اس سال مارچ میں پاکستان گیا تو اسلام آباد‘ سرگودھا‘ سیالکوٹ ‘جہلم اور فیصل آباد کا پروگرام بنا کر گیا ۔ جوہر آباد اپنی والدہ مرحومہ‘ اپنے چھوٹے بھائی (جاوید) اور سرگودھا میں اپنے بزرگوں‘ بھائیوں اور بہنوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے گیا۔ بھلا ہو برطانیہ سے گئے ہوئے میرے دوست ڈاکٹر فرخ حسین صاحب کا جو مجھے ہڑّپہ کے کھنڈرات دکھانے اور پاکپتن شریف کی زیارت کیلئے لے گئے۔ آدھا مارچ گزرا تو آنے والی وبا کی روک تھام کیلئے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ میں نہ جہلم جا سکا نہ فیصل آباد اور نہ سیالکوٹ۔ مرے کالج سیا لکوٹ جو میری مادر ان علمی میں سے ایک ہے‘ پچھلے سال مارچ میں وہاں کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر اقبال رائے اور پرنسپل پروفیسر جاوید اختر کی دعوت پر میں وہاں پڑھانے گیا تو میرا اتنا زبردست استقبال کیا گیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کالج کا وہ ہال جہاں میں بطور طالب علم اپنے مرحوم دوستوں ارشاد حسین کاظمی‘ وارث میر‘ خالد حسین‘ زمرد ملک‘ نوازش علی اور فرانسسXavier کے ساتھ مباحثوں میں تقریر کرنے کا فن سیکھ رہا تھا‘ 66/65سال گزر جانے کے بعد میں اسی ہال میں طلبا اور طالبات کے بڑے اجتماع سے مخاطب تھا۔ اس سال میری دعا پھر قبول ہوئی اور مرے کالج سے ڈاکٹر اقبال رائے نے مجھے پولیٹیکل سائنس کا مضمون پڑھنے والوں کو نصاب کے مطابق وہ سبق پڑھانے کی دعوت دی جو پچھلے سال ملتوی کرنا پڑا تھا۔ جہلم میں مجھے چار کام تھے‘ ڈسٹرکٹ بار کے وکلا سے خطاب‘ دینہ میں گیلانی لاء کالج میں برطانوی آئین پر لیکچر اور اپنے مرحوم دوست میاں بشیر کے صاحبزادے میاں نعیم بشیر اور اُن کی بیگم صاحبہ کی مہمان نوازی سے ایک بار پھر لطف اندوز ہونا اور فائفہ بیگم کے ساتھ قلعہ رہتاس دیکھنا۔ سرکاری احکامات کے تحت اجتماعات پر پابندی لگی تو سارے خطابات کا پروگرام دھرے کا دھرا رہا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نہ سیالکوٹ جا سکا ‘ نہ جہلم اور نہ فیصل آباد۔ پرانے ہوائی ٹکٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نئی پرواز کا ٹکٹ خریدا اور اوّلین پرواز کی بدولت لندن جلدی واپس آگیا‘ چونکہ چند دنوں کے بعد بین الاقوامی ہوائی سفر کیلئے معطل کئے جانے والے تھے ۔ میں لندن واپس آیا تو اپنے تمام میزبانوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے فون کرتے کرتے جہلم تک جا پہنچا۔ میں نے میاں نعیم بشیر صاحب سے پوچھا کہ حکومت نے چاہے کتنی نیک نیتی سے ضرورت مندوں تک راشن پہنچانے کی منصوبہ بندی کی ہو‘ مگر یہ راشن پہنچائے کون اور کب اور کس طرح؟ میاں صاحب نے جواب دیا کہ وہ حکومت کی طرف سے تو جواب نہیں دے سکتے‘ مگر ضلع جہلم میں محکمہ سول ڈیفنس کے سربراہ کے طور پر اپنا فرضِ منصبی پوری تند ہی سے ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعی سطح پر اُن کے رضا کاروں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے اور اُن کے پاس دو کشتیاں بھی ہیں‘جو سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے کام آتی ہیں۔ ان دنوں سول ڈیفنس کے رضا کار ضرورت مندوں کے پاس ہر روز خوراک کے عطیات پہنچانے میں مصروف ہیں۔ اگر ضلع جہلم میں سول ڈیفنس کے رضا کار سرگرم عمل ہیں تو کالم نگار غالبا یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہے کہ اگر سارے ملک نہیں تو کم از کم صوبہ پنجاب کے ہر ضلع میں سول ڈیفنس کے بچے کھچے رضا کار خدمتِ خلق میں اتنے ہی مصروف ہوں گے جتنے میاں نعیم بشیر کی زیر قیادت اُن کے ضلع جہلم میں۔
کالم نگار اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہے کہ وہ مجھے بتائیں کہ کیا اُن کے شہروں اور اضلاع میں محکمہ سول ڈیفنس کی زندگی کے کوئی آثار نظر آتے ہیں؟ کیا اس محکمہ سے وابستہ رضا کار ان دنوں راشن پہنچانے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ؟ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر آج ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہوتا تو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ضرورت مندوں تک رسائی میں وہ بڑی مشکل پیش نہ آتی جو ان دنوں اُن کے راستے میں سب سے گہری کھائی بن گئی ہے۔ وائرس کی وبا ہمارے گھروں کی دہلیز تک آپہنچی تو وفاقی حکومت کو رضا کاروں کی اک نئی تنظیم بنانے کا خیال آیا۔ فارسی کے ایک محاورے کے مطابق عراق سے تریاق آتے آتے سانپ کا ڈسا ہوا ہلا ک ہو چکا ہوگا۔ آپ کو یقینا علم ہوگا کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سرکاری وظیفہ وصول کرنے والوں کی فہرست سے ایسے 820,162افراد کے نام نکالے ہیں جو غیر مستحق تھے اور جھوٹ بول کر سرکاری خزانے میں نقب لگا رہے تھے‘ اگر آٹھ لاکھ لوگوں نے ہر ماہ صرف پانچ ہزار روپے بھی وصول کئے تو وہ بھی چار ارب روپے بنتے ہیں‘سالانہ 48 ارب اور اگر یہ مجرمانہ خیانت پانچ سال بھی جاری رہی تو جواب نکلتا ہے 200 ارب روپے۔ کیا ہماری حکومت کی یہ اولین ترجیح نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مجرموں سے جلد از جلد 200 ارب وصول کر کے دیہاڑی داروں اور دوسرے ضرورت مندوں تک راشن پہنچانے اور راشن خریدنے کا بندوبست کرے۔ یہ تو آپ نے پڑھ لیا کہ مستحق غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین لینے والوں کی تعداد آٹھ لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ہے‘ مگر آپ شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ ان میں سرکاری ملازمین کی تعداد 14730 ہے اور سرکاری ملازمین کی رفقائے حیات کی تعداد 127,826 ہے۔
محکمہ سول ڈیفنس کے ہوتے ہوئے ٹائیگر فورس کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر مجوزہ فورس میں شمولیت کیلئے تحریک انصاف کا رکن ہونا ضروری ہے تو پھر اُس کے کردار کی افادیت بالکل صفر ہو جائے گی۔ قومی بحران کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ رضا کاروں کی فوج میں بھرتی کا سیاسی وابستگی سے دور کا رشتہ کا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ میں اپنی اس لاعلمی پر معذرت خواہ ہوں کہ میں کوشش کے باوجود یہ نہیں جان سکا کہ ٹائیگر فورس کے رضا کاروں کی نگرانی کون کرے گا؟ احتساب اور شفافیت کی دو بنیادی شرطیں کس طرح پوری ہوں گی ؟ کیا ایک نئی تنظیم بنانے کی بجائے یہی بہتر نہ ہوتا کہ ہم اپنی پرانی عمارت (سول ڈیفنس) کی مرمت کرتے اور اسے نئے تقاضوں کے مطابق وسعت دیتے۔ کورونا وائرس کی یلغار سے پیدا ہونے والا بحران ختم ہو تو ہمیں رضا کاروں کی بہت بڑی فوج کو معرض وجودمیں لانا ہوگا‘ جس کے دفاتر مقامی مساجد ہوں۔ لاکھوں رضا کاروں کو آگ بجھانے‘ سیلاب متاثرین کو بچانے‘ نقل و حمل کا ماہر ہونے‘ درخت اور پھول اگانے‘ امن عامہ کے قیام میں مددگار ہونے‘ پرانے زمانے کے ٹھیکری پہرہ کو زندہ کرنے اور خدمتِ خلق کے ہر شعبہ میں سرکاری ملازمین کا ہاتھ بٹانے کی عملی تربیت دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں