طوطا کہانی مگر آدھی

اگر آج فسانۂ عجائب لکھنے والے رجب علی بیگ سرور یا ہزار داستان کے نام سے الف لیلہ کا اُردو میں فصیح و بلیغ ترجمہ کرنے والے پنڈت رتن ناتھ سرشار یا اُسے مرتب کرنے والے انتظار حسین زندہ ہوتے تو ہم اُن سے پوچھ سکتے تھے (اور ہمیں بالکل درست جواب ملتا) کہ آیا اُردو میں طوطا کہانی کے نام سے کوئی کلاسیکی داستان موجود ہے یا نہیں؟ بڑھاپے کے بہت سے فائدے اپنی جگہ مگر ایک نقصان مجھے بار بار ستاتا ہے اور وہ ہے حافظہ کی کمزوری۔ (ستم ظریفی یہ ہے کہ کالم نگار کو اپنے اچھے حافظہ پر غرور کی حد تک اعتماد تھا جو خاک میں مل گیا) کبھی لگتا ہے کہ میں نے برسوں قبل بچپن میں طوطا کہانی کے نام سے لکھی ہوئی ایک پرانی‘ مٹی کی تہوں میں لپٹی ہوئی داستان پڑھی تھی۔ دماغ پر زیادہ زور ڈالوں تو لگتاہے کہ یہ صرف میرا واہمہ ہے اور میرے بدستور سدا بہار تخیل کی پیداوار۔میرے قارئین میں سے جن کا تعلق علم و فضل سے ہے اور وہ میرے دوست بھی ہیں‘ کتنا اچھا ہو کہ وہ میری رہنمائی فرمائیں ۔ کورونا وائرس کی وبا نے مجھے کروڑوں لوگوں کی طرح گھر میں نظر بند کیا تو میں نے قانون کی کتابوں کو خیر باد کہا اور اپنے آپ کو اُس دیو مالائی اور اساطیری دنیا میں گم کر لیا جس میں میرا دن داستانِ امیر حمزہ سے شروع ہوتا ہے اور فسانۂ عجائب سے چلتا چلتا ہزارداستان پر ختم ہوتا ہے۔ رات کو خواب بھی جنات اور پریوں کے دیکھتا ہوں۔ آنکھیں کھولوں تو خبر ملتی ہے کہ دنیا بھر میں گزرے ہوئے دن میں یہ موذی وبا اتنے ہزار آدمیوں کو نگل گئی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ میں اُن میں شامل نہ تھا۔ قدیم داستانوں کے مطالعہ کے دوران ساری دنیا سے دوستوں اور رشتہ داروں کے فون سُنتا ہوں یا فون کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کر سکیں اور ایک دوسرے کی ڈھارس بندھا سکیں۔ بقول حالی : 
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دُعا ہے
مذکورہ بالاکتابیں پڑھ لوں تو پھر عرصہ سے مطالعہ کی میز پر رکھی ہوئی اُس کمال کی کتاب کی طرف رجوع کروں گا جس کا نام ہے'' جہاں گرد کی واپسی‘‘۔ یہ ہومر کا اُردو ترجمہ ہے جو محمد سلیم الرحمن نے کیا اور اتنا عمدہ کیا کہ لگتا ہے کہ ترجمہ نہیں بلکہ تصنیف ہے۔
میں نے آکسفورڈ اُردو انگریزی لُغت کھول کر دیکھی تو پہلی بار پتہ چلا کہ توتا /طوطا آموں کی ایک قسم کا نام بھی ہے۔ لُغت کہتی ہے تو ضرور ہوگا‘ مگر غالباً یہ جنوبی پنجاب اور سندھ کی بجائے اُتر پردیش کی سوغات ہوگا۔لُغت کی دوسری سطر ہر گز اتنی میٹٰھی نہ تھی جتنی کہ پہلی ‘کیونکہ اس میں طوطا چشم کا مطلب بیان کیا گیا تھا اور وہ ہے غداری‘ خود غرضی‘بے وفائی۔ مطلب نکل جانے پر آنکھیں پھیر لینا اور اس قبیل کی دیگر مذموم حرکات۔ میں نے اپنی لائبریری میں رکھی ہوئی کئی کتابوں خصوصاًEncylopedias کو کھنگالا مگر یہ عقدہ حل نہ ہوا کہ آخر طوطوں کی معصوم آنکھوں میں ایسی کون سی خاصیت ہے کہ و ہ طوطاچشم سے منسوب ہو گئیں اور اب چاہے دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے بے چارے طوطے اپنی آنکھوں کے بارے میں اس اِسم صفت سے جان نہیں چھڑا سکتے۔شاید اسے کہتے ہیں بد سے بدنام برُا۔ برطانیہ کے روزنامہ Times نے فروری اور مارچ میں طوطوں کے بارے میں جو دو دلچسپ خبریں شائع کیں وہ میں آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ پہلی خبر یہ تھی کہ آپ اُنہیں کند ذہن نہ سمجھیں۔ وُہ اتنے بھولے بھالے نہیں جتنے نظر آتے ہیں۔ سائنس دانوں نے یہ حیرت انگیز دریافت کی ہے کہ طوطوں کا ذہن اتنا اعلیٰ درجہ کا ہے کہ وہ جبلی طور پر انسانوں کی طرح امکانات کو اپنے ذہن میں پرکھنے اور حسا بی اُصولوں کے تحت نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں سائنس دانوں نے Kea نسل کے چھ طوطوں کو یہ سکھا لیا کہ اُن کی خوراک کا کالے رنگ کے ٹوکن سے رشتہ ہے۔ پھر انہوں نے دو برتنوں کو کالے اور زور ٹوکنوں سے بھرا۔ ایک برتن میں کالے ٹوکن زیادہ تھے اور دوسرے میں زرد رنگ۔ محققین نے ان دونوں برتنوں سے مٹھی بھر ٹوکن نکالے۔ طوطوں نے اس ہاتھ پر اپنی چونچیں چلائیں جو کالے رنگ کے ٹوکنوں کی بہتات والے برتن میں ڈالا گیا تھا۔ اس چشم کشا تجزیہ کے بعد سائنس دانوں نے انسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ اُن طوطوں کے ساتھ تاش کی بازی خصوصاً Poker نہ لگائیں ورنہ خدشہ ہے کہ ذہین طوطے جیت جائیں گے۔ 
کالم یہاں پہنچا تو طوطا کہانی ختم ہوئی۔ اب ہم آپ کو فرانس لئے چلتے ہیں جہاں سے بڑی انوکھی مگر اتنی ہی دلچسپ خبریں موصول ہوئی ہیں۔ اتنی انوکھی کہ وہ صرف سرزمینِ فرانس میں وقوع پذیر ہو سکتی تھیں۔ اول: مغربی پیرس (Colombes) میں 56 سالہ چیف جج خاتون کی ایک شخص سے 20 سالہ پرانی گہری دوستی تھی۔ جب اُسے یہ بُری خبر ملی کہ اس پرانے آشنا نے اُن سے مُنہ موڑ لیا ہے اور ایک اور خاتون (جو یقینا مقابلتاً کم عمر ہوگی) کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُس کے غم و غصہ کا کیا عالم ہوگا؟ جج صاحبہ نے اس شخص کو اس کی بے وفائی کی سزا دینے کا یہ طریقہ سوچا کہ اُنہوں نے ایک اور شخص کیلئے (جعلی کاغذات کی بدولت) اُس نام اور تاریخ پیدائش کے شناختی کاغذات بنوالئے جو اُن کے پرانے آشنا کے تھے اور بحر ہند کے ایک جزیرہ (فرانس کے زیر تسلطReunion ) جا کر اس نقلی خاوند سے شادی رجسٹرڈ کروالی۔ جب یہ راز کھلا تو اُن کے سابق آشنا نے پولیس کے پاس جعل سازی کا پرچہ درج کروا دیا۔ اب عدالتی کارروائی شروع ہونے والی ہے۔ اب اگر اس خاتون کا جرم عدالت میں ثابت ہو جاتا ہے (جس کا زیادہ امکان ہے) تواُنہیں پندرہ برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اُنہیں قید تو کجا صرف جرمانہ کی سزا بھی ملی تو وہ چیف جج کے عہدہ سے بھی محروم کر دی جائیں گی۔ ان دنوں وہ معطل ہیں اور تنہائی میں ضرور سوچتی ہوں گی کہ کاش کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک میں کہیں ہوتیں تو وہ اُجرتی قاتل کی خدمات حاصل کر سکتی تھیں یا کم از کم اپنے سابق آشنا کے چہرے کومسخ کرنے کا بندوبست بھی کر سکتی تھیں۔ وہ اُردو زبان جانتی ہوتیں تو اقبال کا یہ مصرع گنگنا کر کفِ افسوس بھی ملتیں کہ
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
دوسری خبر یہ ہے کہ پیرس میں عدالت نے دو ملزموں کو اس جرم میں گیارہ گیارہ سال قید کی سزا دی ہے کہ اُنہوں نے فرانس کے وزیر دفاع Jean Yres le Driansکے چہرہ سے ہو بہو مشابہت رکھنے والا Silicone کا بنا ہوانقاب بنوا کر اپنے چہرے پر اس کمال کی ہنر مندی سے اوڑھ لیا اور یہ کہ وہ آغا خان اور دوسرے چوٹی کے امیر لوگوں کو دھوکہ دے کر اُن سے 55 ملین (ساڑھے پانچ کروڑ) یورو ہتھیانے میں کامیاب رہے۔ دونوں مجرم وزارتِ دفاع کے دفتر کے عملے کو بھی اس جھوٹی کہانی کو سچا منوا لینے میں کامیاب رہے کہ وہ اس رقم سے داعش کی قید سے فرانسیسی باشندوں کو (جو بطور یرغمال زیر حراست تھے) رہا کروائیں گے۔ آغا خان کی ساری سوجھ بوجھ دھری کی دھری رہ گئی اور اُن جیسا سیانا آدمی بھی دھوکہ دینے والوں کے جال میں پھنس کر انہیں 20 ملین یورو دینے پر تیار ہو گیا۔ فرانس میں بڑے اعلیٰ پیمانے پرکاروبار کرنے والا ایک ترک شخص38 ملین یورو سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ اچھا ہوا کہ کئی بینکوں نے برقی سُرعت سے ضروری اقدامات اُٹھا کر اُن رقوم کی ادائیگی کو راستے میں ہی روک دیا۔ آخری خبریں آنے تک وہ رقم جو ابھی تک بازیاب نہیں کروائی جا سکی۔ صرف 7.7 ملین یورو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں