چنگیز سے تاریک تر

اقبال مسلمانوں کی سادہ لوحی اور دو صدیوں کی غلامی پر افسوس کرتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب انہوں نے ہندی مسلمانوں کا مغرب کی سامراجی اور استعماری قوتوں سے تعارف کرایا تو انہوں نے ایک شعر لکھا جس کا مجھے صرف ایک مصرع یاد ہے۔ اس مصرع کا نصف حصہ آج کے کالم کا عنوان بنا۔ 
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
کالم نگار کو اقبال کا مُرید ہونے پر فخر ہے‘ مگر وہ اس گستاخی کی ڈرتے ڈرتے اجازت چاہتا ہے کہ بصد ادب اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے بیان کرے کہ اگر ہر شخص کا چہرہ اُس کے دل کا آئینہ ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چہرہ روشن ہو اور باطن چنگیز سے تاریک تر ہو ۔مگر بہتر ہوگا کہ ہم اپنے دامن کو ایک بے کار بحث کے خار زار میں اُلجھانے کی بجائے آگے بڑھیں اور کام کی بات کریں۔
قرونِ وسطیٰ میں یورپ جہالت‘ غربت اور پسماندگی کی اتنی گہری دلدل میں دھنساہوا تھا کہ اب ہمارے لئے اُس کا تصور کرنا بھی بہت مشکل کام ہے اور یہ تاریک دور ایک ہزار سالوں پر پھیلا ہوا تھا‘ پانچویں صدی سے لے کر پندرہویں صدی تک۔جب یورپ کے افتادگان خاک اپنے صدیوں کی گرد سے اَٹے ہوئے کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے تو انہوں نے اُن دقیانوسی تصورات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیاجو علم دشمن‘ عقل دشمن اور عوام دشمن تھے۔ علم و دانش‘ تحقیق و تفتیش‘ جستجو اور اکتساب کے چراغ جلائے (جسے اب ہم نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں)۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی نوبت تو اُنیسویں صد ی میں آئی مگر تسخیر عالم کی مہمات سولہویں صدی سے شروع ہو گئیں۔ ہر اوّل دستے کی قیادت کرنے کا اعزاز پرتگیزیوں کو حاصل ہوا۔ دوسرے نمبر پر ہسپانوی‘ تیسرے نمبر پر ولندیزی ‘ چوتھے نمبر پر فرانسیسی اور پانچویں نمبر پر برطانیہ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تیسری دنیا پر قبضہ جمانے اور اُس کے وسائل کی لوٹ مار کے پانچ صدیوں پر پھیلے ہوئے سامراجی دور میں سب سے آخر میں شامل ہونے والا ملک کھیلوں کی زبان میں فائنل مقابلہ جیت کر چیمپئن بن کر انسانی تاریخ کے اُفق پر اس طرح اُبھرا کہ جب برطانوی سلطنت اپنے عروج پر تھی تو دنیا کے اتنے ممالک پر قابض تھی کہ بجا طور پر کہا گیا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔
آج کے کالم کی محدود جگہ میں صرف پرتگیزی بحری مہمات کا ذکر ہوگا اور وہ بھی بڑے اختصار کے ساتھ۔ سولہویں صدی میں پرتگال کی بحریہ اور مہم جو افراد وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔ اٹلانٹک سمندر کو بادبانی جہازوں پر عبور کر کے اور جان جوکھوں میں ڈال کر اور ناقابلِ بیان مصائب کا بڑی بہادری سے مقابلہ کر کے۔ مذکورہ بالا حملہ آوروں میں سب سے زیادہ شہرت (یا رُسوائی) دو اشخاص کو ملی ایک کا نام Hernan Cortesتھا‘جس نے میکسیکو ‘جہاں Aztec نامی بادشاہت کا سورج نصف النہار پر تھا ‘کو ختم کیا۔ دوسرے کا نام Franciscu Pizarroتھا‘جس نے Peru میں Incaتہذیب اور سلطنت کو اس طرح تباہ و برباد کیا کہ Aztec کی طرح اُس کا نام و نشان مٹ گیا۔وسطی اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ملکوں کی طرح میکسیکو میں سونے کی کانیں تھیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سپین کے مفلوک الحال اور بڑی مشکل سے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے والوں کیلئے سونے کے انبار کتنی کشش رکھتے تھے۔ 1532 میں بڑی قلیل فوج کے ساتھ ہسپانوی حملہ آوروں نے میکسیکو پر قبضہ کر کے Inca سلطنت کو ختم کر دیا۔ دوسری طرف Peru نہ صرف سونے بلکہ چاندی کی کانوں سے بھی مالا مال تھا۔ یہ پڑھ کر اعتبار نہیں آتا کہ ایک کروڑ افراد پر حکومت کرنے والی Aztec سلطنت پر حملہ کرنے والی اور فتح حاصل کرنے والی ہسپانوی فوج صرف پندرہ گھڑ سواروں‘ پانچ سو سپاہیوں اور چند سو بار بردار خچروں پر مشتمل تھی۔ اتنی چھوٹی فوج کا دامن کئی ہزار (شاید لاکھوں) افراد کے خونِ ناحق سے اُسی طرح داغدار ہوا جیسا تین صدیاں قبل بغداد میں منگولوں کے قتلِ عام سے اور دو صدیوں بعد دہلی میں نادر شاہی قتل عام سے۔ ہسپانوی حملہ آوروں نے نہ صرف وحشت بربریت اور درندگی میں بلکہ بے اصولی‘ وعدہ خلافی اور تمام انسانی قدروں کی پامالی کا بھی نیا ریکارڈ قائم کیا۔ صرف ایک مثال کافی ہوگی کہ آخریIncaبادشاہ‘ جس کا نامAtahualpaتھا‘ جنگ میں شکست کھانے کے بعد فاتح کی طرف سے دیئے گئے ایک پرُ تکلف ڈنر کی دعوت پر تیار ہو گیا۔ ہسپانوی میزبان (Pizzaro)نے ڈنر کے اختتام پر اپنے معزز مہمان کو گرفتار کر لیا۔ سابق Incaبادشاہ کو بتایا گیا کہ اگر وہ ایک بڑا کمرہ سونے اور جاندی کی اینٹوں سے بھردے تو اُسے رہائی مل سکتی ہے۔ جب یہ شرط پوری کر دی گئی تو میزبان کے حکم پر بے بس و لاچار سابق بادشاہ کا گلا گھونٹ کر اُسے ہلاک کر دیا گیا۔ 
یورپ میں 53 سال رہنے اور یورپی تاریخ کی بہت سی کتابیں پڑھنے اور یہاں کے لوگوں سے ذاتی واقفیت اور دوستانہ رشتہ قائم کرنے کے بعد کالم نگار اس نتیجہ پرپہنچا ہے کہ نیکی ہویا بدی‘ فرشتہ صفت ہونا ہو یا شیطانی صفت۔ آنکھوں کا خیرہ کر دینے والی روشنی ہو یا گھپ اندھیرا۔ یورپ ہر میدان میں بے مثال ہے۔ یورپ نے عصرِ حاضر میں ایک طرف فرانکو‘ سلازار‘ مسولینی اور ہٹلر کو اور دوسری طرف Albert Shweitzer (فرانسیسی فلاسفر‘ نوبل انعام یافتہ‘ افریقی صحرائی ملک گیبون میں 52 سال مفت علاج کرنے والا ) ‘کلکتہ میں مدر ٹریسا ‘ پاکستان میں کوڑھیوں کا علاج کرنے والی جرمن خاتون (جو اُس نے مرتے دم تک کیا)‘ روزن برگ(روس کو بلا معاوضہ ایٹمی راز دینے اور سزائے موت پانے والا جوڑا جن کا نوحہ فیض صاحب نے لکھا) اور بے غرض انسانی خدمت کرنے والے ہزاروں نیک دل افراد پیدا کئے۔
آیئے اب ہم پھر سولہویں صدی کے ہسپانوی مہم جو لٹیروں اور جنوبی امریکہ سے سونے‘ چاندی کے انبار اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں قتلِ عام کے مرتکب مجرمان کی طرف رجوع کریں۔ قارئین کیلئے یہ نکتہ باعثِ دلچسپی ہوگا کہ جب مذکورہ بالا لٹیرے سونے ‘چاندی کے ذخائر سے بھرے ہوئے جہازوں میں امریکہ سے سپین کا بحری سفر کرتے ہوئے انگلستان کے جنوبی ساحلوں کے قریب سے گزرتے تھے تو گھات لگائے ہوئے انگریز بحری قزاق (جن کا سربراہ ملکہ ایلزبیتھ کا چہیتا Sir Francis Drakeتھا) اُن پربلائے ناگہانی بن کر ٹوٹ پڑتے تھے اور ڈاکوئوں سے لوٹی ہوئی دولت اپنی ملکہ کے قدموں پر رکھ دیتے تھے۔ وہ خاتون اتنی سگھڑ‘باسلیقہ اور ذہین تھی کہ اُس نے اس سرمایہ کو بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کو بامِ عروج پر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ملکہ ایلزبیتھ شہنشاہ اکبر کی ہم عصر تھی اورشہنشاہ اکبر کا دور مغلیہ سلطنت کا نقطۂ عروج تھا‘ اُن کے بعد زوال کا عمل شروع ہوگیا ‘جو 1707 میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد تیزی سے انجام کی طرف بڑھنے لگا۔ دوسری طرف ملکہ ایلزبیتھ کے عہدِ حکومت سے برطانیہ کا عروج شروع ہوا جو اُنیسویں صدی کے آخر میں ملکہ وکٹوریہ کے عہد ِحکومت میں اپنی معراج کو پہنچا۔ جنوبی امریکہ میں پرتگیزی اقتدار اور بالادستی کا تاریک اور خون آشام دور 1519 میں شروع ہوا اور تین صدیوں بعد 1821 میں ختم ہوگیا جب بقولِ اقبال محکوم‘ مجبور اور مظلوم بندوں نے اپنے آقائوں کے خیموں کے طنابیں توڑ کر آزادی کا پرچم لہرا دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ماسوائے برازیل کے جنوبی امریکہ کے کسی بھی ملک میں پرتگیزی زبان نہیں بولی جاتی۔ میکسیکو سے لے کر ارجنٹائن اور چلی کے جنوب ترین ساحلوں پر رہنے والے ہسپانوی زبان بولتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں