چنگیز سے تاریک تر… حصہ دوم

کالم نگار کو تاریخ کے پانچ سو سال پرانے انسانی خون میں شرابور اوراق پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ 21 مئی 2020 ء کے روزنامہ ٹائمز میں ایک بڑی خبرشائع ہوئی۔ عنوان تھا: ہسپانوی فاتحین کے سنہری محل کی عظمت ِرفتہ بحال کرنے کی اپیل۔ Pizarro(جس نےPeru کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی) کی تصویر کے ساتھ اُس کے عالی شان مگر اب خستہ حال محل کی تصویر مقام عبرت تھی۔ اس ڈاکوئوں کے سردار کے محل کا نام ہے: De La Conquista (فاتح کا محل)۔ ٹنوں کے حساب سے سونا ‘چاندی لوٹنے والا اپنا چندھیا دینے والا زرق برق شاندار محل کیوں نہ بنواتا؟ لوٹ مار اور قتل و غارت میں سپین اور اٹلی کو وہی مقام حاصل ہے جو جنوبی ایشیا میں افغانستان کو۔ نادر شاہ‘ احمد شاہ ابدالی اور محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے جمع کئے جائیں تو کل تعداد 28 بنتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف دہلی اور لاہور بلکہ پنجاب کے ہر اُس شہر‘قصبہ اور گائوں پر حملہ کیا اور اُسے آگ لگا کر راکھ بنا دیا جو دہلی جاتے ہوئے اُن کے راستے میں آئے۔ میں نے جلال آباد‘ کابل‘ قندھار‘ ہرات اور غزنی کو اچھی طرح دیکھا ہے‘ وہ پاکستان کے مقابلے میں اتنے پسماندہ ہیں جتنے ہم یورپ کے مقابلے میں۔ بار بار سوچتا ہوں کہ کہاں گیا وہ ڈاکے اور چوری کا مال؟ وہ ہیروں اور جواہرات سے لدے ہوئے اُونٹ؟ کوہِ نور اور تختِ طائوس؟ افغانستان کے شہروں میں خاک اُڑتی ہے اور کسی قسم کی خوشحالی کے آثار نظر نہیں آتے ‘کئی صدیوں پرمحیط اور ناقابلِ تصور لوٹ مار کے باوجود یہی حال چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کے منگولیا کا اور یورپ میں سپین اور پرتگال کا ہے۔ اُن کا شمار یورپ کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ 
Pizarroکا محل جنوب مغربی سپین کے جس شہر میں ہے اُس کا نام Trujilloہے۔ سپین میں میری سیاحی صرف تین شہروں تک محدود ہے: قرطبہ‘ غرناطہ اور بار سیلونا۔ نہ میں نے مذکورہ شہر دیکھا ہے اور دیکھنے کا ارادہ ہے۔ اگراتفاقاً میں وہاں جا بھی نکلوں تب بھی میں اس سب سے بڑے لٹیرے کے محل کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ وہ اتنا خستہ حال ہے کہ خطرہ ہے کہ اُس کی چھت کسی دن بھی گر پڑے گی۔ Pizzaro کی اپنی موت بھی کچھ کم عبرتناک نہیں۔ وہ اپنے بہترین دوست کے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب اُس کے ورثا سپین کی حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ مذکورہ محل کی مرمت اور تعمیر نو پر کروڑوں پائونڈ خرچ کر کے ایسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن سکے۔ کالم نگار اپنے ذہین قارئین کی توجہ اس اہم نکتہ پر مرکوز کرنا چاہتا ہے کہ یورپ کا نو آبادیاتی دور تو ختم ہوا مگر کیا عصرِ حاضر کچھ کم اذیت ناک ہے کہ اب تیسری دنیا ذہنی اور معاشی طور پر کسی نہ کسی یورپی ملک یا امریکہ کی غلام ہے؟ میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا‘ 1973 میں بنائے گئے قانون کے تحت انگریزی کا سرکاری درجہ پندرہ برس بعد (1988) ختم ہو جانا چاہئے تھا۔32 برس گزر گئے‘ مگر ہم ابھی تلک اپنی قومی زبان کو اپنی سرکاری زبان نہیں بنا سکے اور نہیں معلوم کہ کب بنا سکیں۔
یورپ میں نصف صدی سے زیادہ قیام کے دوران جو سوال ہر وقت میرے ذہن کو ستاتا رہا وہ یہ تھا کہ ان گنت اور ناقابلِ بیان مظالم کے باوجود امریکہ اور یورپ میں اتنی کشش کیوں ہے کہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ سے لاکھوں افتادگانِ خاک ہزار جتن کر کے اور اپنا آبائی وطن اور عزیز و اقربا چھوڑ کر امریکہ اور یورپی ممالک میں آباد ہوتے ہیں۔کوئی وجہ تو ضرور ہوگی۔ میرے ذہن میں اس کا جو جواب اُبھرا وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ جواب ہے: قانون کی حکمرانی‘ عدل و انصاف‘فلاحی مملکت‘ باعزت روزگار کے وسیع مواقع‘ تعلیم اور علاج کی بہترین سہولیات جو برطانیہ‘ ناروے‘ سویڈن اور ڈنمارک میں بالکل مفت ہیں‘ انسانی حقوق اور ہر شہری کا احترام۔ آپ ذرا موازنہ فرمایئے (Compareنہیں بلکہ Contrast )۔ امریکہ میں ایک پولیس افسر نے ایک سیاہ فام شہری کی جان لے لی تو سارے امریکہ اور یورپ میں قیامت آگئی۔ واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے باہر مظاہرین کے غم و غصہ کا یہ عالم تھا کہ صدرِ مملکت کو تہہ خانہ میں پناہ لینا پڑی۔ میں اپنے قارئین کو پھر یاد دلاتا ہوں کہ یہ صرف ایک فرد کی بلاجواز ہلاکت تھی۔ اب دوسری طرف دیکھئے‘ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل قائم رہنے والا کرفیو اور بھارتی افواج کا نہ ختم ہونے والا ظلم و ستم۔ ہم اپنے دامن میں جھانکیں تو کیا دیکھتے ہیں؟ کراچی میں 12 مئی کا سانحہ‘ کراچی کی بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 259 کارکنوں‘حق حلال کی روزی کمانے والوں کو جلا کر راکھ کر دینے کا عظیم المیہ‘سانحہ ساہیوال‘سانحہ ماڈل ٹائون۔ ان73 سالوں میں رونما ہونے والے سانحوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُنہیں درج کرنے کیلئے کالم کی نہیں کتاب کی ضرورت ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں سے لے کر لیاری کے گینگ وار تک۔ لوگ اگر رشوت خور ہیں‘ خوراک اور دوائیوں میں ملاوٹ کرتے ہیں‘ قومی خزانہ میں نقب لگاتے ہیں (بدنصیب سٹیل ملز کے سابق سربراہ سے لے کر بلوچستان کے سابق سیکرٹری وزارت خزانہ تک) تمام سماجی برائیوں کے ارتکاب کے علاوہ عورتوں‘ بچوں اور کمزور طبقات سے برُا سلوک کرنے میں دنیا بھر میں اگر شہرت رکھتے ہیں تو وہ قوم رحمتوں عذابوں‘ مصیبتوں اور بحرانوں میں کیوں مبتلا نہ ہو؟ کالم نگار کے پیرو مرشد اقبال نے فرمایا: 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
قریباً70 برس گزر گئے جب میں نے کلامِ اقبال پہلے پہل پڑھا اور بڑی توجہ ذوق و شوق‘ احترام اور محبت سے پڑھا اور اپنی ذہنی تربیت کی‘ مگر مجھے دیانتداری سے مان لینا چاہئے کہ مجھے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اقبال کے جن فرمودات کو سمجھنے اور ان کی سچائی پر ایمان لے آنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے اُن میں سرفہرست مندرجہ بالا مصرع ہے۔ اقبال جتنا عالم فاضل اور وسیع المطالعہ شخص بخوبی جانتا ہوگا کہ انسانی تاریخ میں دین کو سیاست سے ملانے کے نتیجے میں جو ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیاں خون ریزی انسانی تاریخ میں ہوئی ہے وہ دین اور سیاست کی جدائی (یا علیحدگی) سے کئی گنا زیادہ نہیں تو کسی لحاظ سے کم بھی نہیں۔ آپ بھارت کو دیکھیں جب سے ہندو مت وہاں کے سیاسی نظام پر غالب آیا ہے بھارت کے نام نہاد سیکولر نظام کا شیرازہ بکھر گیا ہے ۔ تنگ نظری‘ مذہبی تعصب‘ کٹر پن‘عدم رواداری اور دوسرے مذاہب کے پیرو کاروں سے نفرت کو بے پناہ فروغ ملا ہے۔ ہند وتوا کے زہریلے اثرکے تحت بھارتی نظام چنگیزیت کی طرف ایک بڑا قدم اٹھا کر انسان دشمن منزل کی طرف چل پڑا ہے۔ دوسری طرف آپ ایران کو دیکھیں جو خالصتاً اسلامی مملکت کا بلند بانگ دعویٰ کرنے کے باوجود ریاستی معاملوں اور اپنی ریاست کے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ میں اُسی طرح سیکولر ہے جس طرح ترکی۔جوسیکولر کا ترجمہ لادینیت کرتے ہیں وہ انگریزی زبان پر ہر گز عبور نہیں رکھتے۔ ناراض نہ ہوں‘ میرے نزدیک بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم بھی سیکولر کا مناسب اُردو ترجمہ نہ کر سکے۔ضروری نہیں کہ دوسری زبان کے ہر لفظ کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا جا سکے۔ آج بھی انگریزی زبان سینکڑوں لاطینی اور فرانسیسی الفاظ سے بھری پڑی ہے چونکہ وہ ناقابل ترجمہ ہیں۔ پاکستان ہر لحاظ سے ایک سیکولر ملک ہے۔ اسلامی مملکت کہنے میں یہ مشکل درپیش ہے کہ سارے معاشی نظام میں سُود کو وہی کلیدی مقام ہے جو انسانی جسم میں خون کو ہے۔ یہ فیصلہ میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ انہیں آج کے پاکستان میں ریاست مدینہ کی جھلک نظر آتی ہے یا چنگیزی نظام کی؟ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی نظام تاریک ہو جائیں تو پھر چہرے بھی روشن نہیں رہتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں