کراچی پھر ڈوب گیا

آج کا کالم شروع کرتے ہیں چین کے سب سے بڑے فلاسفر کنفیوشش کے ایک حکیمانہ قول سے کہ سیلاب اور زلزلے کا عذاب اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ دیوتا زمین پر رہنے والے انسانوں سے ناراض ہو گئے ہیں۔ اس ضروری یاد دہانی کے بعد اب ہم چین سے کراچی چلتے ہیں جہاں پاکستان کی کل آبادی کا دسواں حصہ رہتا ہے۔ کس حال میں رہتا ہے‘ وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ یہ صرف شہرِ قائد نہیں بلکہ ہمارا صنعتی‘ تجارتی اور کاروباری مرکز بھی ہے۔ یہ سطور پڑھنے والوں کو کراچی کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے اور نہ حالیہ موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لینے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کی تفصیل۔ جونہی بحیرئہ عرب سے مون سون کے بادل کراچی کا رُخ کرتے ہیں اور جولائی کا مہینہ چڑھتے ہی برسات کے موسم کی آمد آمد کی خبریں آنے لگتی ہیں‘ چھ ہزار میل دُور رہنے کے باوجود کالم نگار کا شدید تشویش کے مارے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے گزشتہ سالوں میں بپا ہونے والی قیامتوں کے ہولناک مناظر کی فلم چلنا شروع کر دیتی ہے۔ برسات سے پہلے کراچی کے عوام آدھا آدھا دن بجلی سے محروم رہتے تھے‘بارشوں کے سیلابی ریلوں نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لیا تو گم شدہ بجلی بھی پردئہ غیب سے باہر نکل آئی اور سیلابی پانی میں برقی لہر دوڑانے لگی‘ جو کئی بے بس و لاچار لوگوں کو زندگی سے محروم کرنے کا باعث بنی۔ یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہوا کہ ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے لیں کہ یہ بالکل غیر متوقع تھا۔اگرآپ مڑ کر دیکھیں تو کراچی کے جو مناظر جولائی کی آخری دنوں میں نظر آئے وہی مناظر ہم نے پچھلے سال اور اُس سے پچھلے سال اور بہت سے گزرے ہوئے سالوں میں دیکھے تھے۔یہ تو محض واقعات کا بیانیہ تھیں جو یقینا آپ نے اخباروں میں بار بار پڑھا ہوگا اور ٹیلی ویژن پر اس کی تصاویر بار بار دیکھی ہوں گی۔ اس بیانیہ کا اعادہ غیر ضروری اور غیر مناسب ہوگا۔ آیئے ہم مل کر سوچیں کہ کراچی ڈوبا تو کیونکر؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس عذاب کا سدّ باب کس طرح کیا جا سکتا ہے؟
ایک طرف پاکستان کے دو روزناموں کے فاضل مدیر ہیں جنہوں نے بلدیاتی نظام کی کلیدی اہمیت کے بارے میں پچھلے ہفتے بڑے مدلل اداریے لکھے ‘دوسری طرف میری نظر سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہزاد گل کا ایک حالیہ بیان گزرا جس میں اُنہوں نے ہماری معلومات میں گراں قدر اضافہ کرتے ہوئے تہلکہ مچا دینے والی بات کہی ہے کہ کراچی کو پیپلز پارٹی کی غلط پالیسی نے ڈبو دیا۔ ہمارے وزیراعظم ہمدردی کے مستحق ہیں کہ اُنہیں مشیر ملے تو مذکورہ بالا ڈاکٹر صاحب جیسے۔ مشیر کا لفظ لکھیں یا پڑھیں تو فوراً باتدبیر کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔ ان مشیر صاحب کو باتدبیر ہونے کا خطاب اس لئے نہیں دیا جا سکتا کہ موصوف یہ بھی نہیں جانتے کہ کراچی کی اپنی میونسپل (میٹرو پولٹین) کارپوریشن ہے اور اُس شہر کی (نام نہاد اور برائے نام) مقامی حکومت کا سربراہ (میئر کی صورت میں) اپنے عہدے پر فائز ہے۔ دنیا بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بارشیں ہوتی ہیں اور کئی بار معمول سے زیادہ ہوتی ہے ‘مگر وہاں کراچی کی طرح نہ سیلاب آتے ہیں اور نہ لاکھوں شہری شدید عذاب کا شکار ہوتے ہیں۔ اس زمین آسمان جتنے بڑے تفاوت کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بالکل صاف ظاہر ہے‘ مگر اسے دیکھنے اور سمجھنے کیلئے بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت کی ضرورت ہے۔ صد افسوس کہ کراچی کے دو کروڑ کے قریب شہری اور ان کے تمام رہنما ان دونوں خوبیوں سے محروم ہیں۔کراچی میں تمام برساتی نالے کوڑا کرکٹ اور کچرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ اُن میں اتنی استطاعت نہیں کہ چند سو گیلن برساتی پانی کو بھی بہائو کی سہولت دے سکیں۔کراچی میں شدید بارشوں کا موسم اس ماہ کے اندر ختم ہو جائے گا‘ اکتوبر سے لے کر اگلے سال مئی‘ جون کے مہینے آنے تک آٹھ ماہ کا عرصہ پڑا ہے‘ کراچی کو سیلاب کے عذاب سے صرف کراچی کے لوگ اور اُن کی مقامی حکومت بچا سکتی ہے۔ نہ سندھ کی صوبائی حکومت ‘ نہ وفاقی حکومت اور نہ ورلڈ بینک (جس سے سندھ حکومت نالوں کی صفائی کیلئے کروڑوں روپوں کی خیرات مانگ رہی ہے)۔
پیپلز پارٹی‘ تحریکِ انصاف‘ مختلف حروفِ ابجد پر ختم ہونے والی مسلم لیگ‘ پاک سر زمین پارٹی‘ مرحوم یا مفلوج ایم کیو ایم‘ اگر ان جماعتوں میں حب الوطنی اور عوام دوستی کی رتی بھر رمق بھی پائی جاتی ہے تو اُن کا فرض ہے کہ وہ اہالیانِ کراچی کو دیانتداری سے بالکل صاف الفاظ میں بتا دیں کہ کراچی کو اس شہر میں رہنے والے ہی صاف‘ محفوظ اور قابلِ رہائش بنا سکتے ہیں۔ کراچی کی مقامی حکومت کو تمام احتیارات اور اربوں روپوں کے رکے ہوئے فنڈ جلد از جلد تفویض کئے جائیں۔ پیرس‘لندن اور نیو یارک کی طرح کراچی کو بھی 20 یا زیادہ Boroughs(محلوں کی اکائیاں جن میں دس لاکھ افرادرہتے ہوں) میں تقسیم کر کے انہیں اتنا بااختیار (بلکہ خود مختار) بنا دیا جائے کہ وہ رضا کاروں کی زبردست عوامی مہم چلا کر اپنے اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کے مکمل طور پر نگران اور ذمہ دار بن جائیں۔ 
ہماری آنسوئوں سے بھیگی ہوئی آنکھوں کے سامنے ہمارے فرسودہ‘گلے سڑے نظام کو کراچی کا سیلابی پانی بہا کر لے گیا۔ جب کراچی کے کوچہ و بازار میں بہتے ہوئے ندی نالے اور شہریوں کی آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسو اور محب ِوطن افراد (یہ جنس نایاب ہوتی جارہی ہے) کی پیشانیوں پر اُبھرتا ہوا شرمندگی کا پسینہ خشک ہو جائے تو ایک صاف‘قدرتی آفت سے محفوظ‘ پرُ امن‘ پرُ سکون اور انصاف اور قانون کی حکمرانی‘قانون کے احترام اور عوام دوستی کے چار ستونوں پر ایک نئے روشن نظام کی عمارت تعمیر کی جائے۔ اگر بدقسمتی سے ہم (بقول اقبال) آئینِ نو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اڑنے کی پرانی روش پر گامزن رہے تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب ایک بوسیدہ‘ سو فیصد ناکام اور عوام دشمن نظام کی عمارت منہدم ہو کر گر پڑے گی۔ کراچی میں رہنے والے لوگ جن چھوٹی بڑی مصیبتوں کا سامنا کرکے زندہ رہنا سیکھ گئے ہیں‘ پانی اور بجلی کے فقدان کا بہادری سے مقابلہ کر رہے تھے کہ سیلابی پانی (گندے‘ متعفن او رToxic مواد کے اضافہ کے ساتھ) ان کے گھروں میں داخل ہو گیا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ کئی گھروں میں پہلی منزل پانی میں ڈوب گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سیلابی پانی کے تند و تیز اور بدبو دار ریلوں سے بڑھ کر اور کون سی مصیبت (خوانخواستہ) کراچی پر نازل ہو تو ہمیں موجودہ نظامِ حکومت کی تباہ کن اور مہلک خامیاں نظر آئیں گی۔ آپ قدرتی آفات کا مقابلہ (Disaster Management) کرنے کیلئے ایک نہیں درجنوں ادارے بنا لیں‘ اُنہیں کروڑوں اربوں روپوں سے مالا مال کر دیں‘ کراچی کی صفائی کی ذمہ داری فوجی دستوں کو سونپ دیں (جو آج تک دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہوا) اس کالم نگار کی یہ پیش گوئی پلّے باندھ لیں کہ یہ سارے سرکاری ادارے جو آج تک ناکام رہے ہیں‘ آئندہ بھی اتنی ہی برُی طرح ناکام ہوں گے۔ موجودہ نظام میں ‘بقول سعدی‘ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔ عوام بے بس و لاچار اور بے زبان ہیں اور اُن کا خون چوسنے والی مافیا (ہر قسم کی مافیا) بالادست آزاد اور بااختیار ہے۔ کراچی کو ہر قسم کی عذاب سے بچانا ہے تو کراچی کے عوام کو تمام اختیارات کا مالک بنا دیں۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال لیں گے۔ اپنے شہر کو خود سنوار لیں گے۔اندھیروں‘ لوٹ مار اور غلاظت کے شہر کو پھر خوشبو اور روشنی کا شہربنا دیں گے۔ شرط صرف ایک ہے اور وہ بڑی شرط ہے: Give Power to the People ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں