دُہری شہریت

اس خار زار میں داخل ہوتے ہی یہ اعتراف کرنا ضروری ہے کہ یہ کالم نگار بذات خود دُہری شہریت رکھتاہے۔ اپنے لاکھوں ہم وطنوں کی طرح‘جن کے پاس بیک وقت برطانوی اور پاکستانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہیں۔ پاکستان کے اخبارات پڑھیں یا ٹیلی ویژن پروگرام دیکھیں تویوں لگتا ہے کہ ملک کے سارے دکھوں اور مصیبتوں کا باعث وہ چند سو لوگ ہیں جن کے پاس دہری شہریت ہے اور وہ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ ہمیں یہ بتایا جاتا کہ یہ لوگ غالباًپاکستان سے وفادار نہیں‘ دوسرے لفظوں میں اُن کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ تنقید اور وہ بھی سخت ترین الفاظ میں کرنے والے دُہری شہریت رکھنے والوں کاحدود اربعہ اس پیرائے میں بیان کرتے ہیں جیسے وہ آستین کے سانپ ہوں اورہماری سادہ لوح حکومت غفلت کی مرتکب ہو کر ان سانپوں کو دودھ پلا کر پرورش کر رہی ہے۔ اس بیانیے کے مطابق ہمارے اُوپر نازل ہونے والے سارے عذابوں اور دُہری شہریت رکھنے والوں کی کلیدی اسامیوں پر تقرری کے درمیان براہ راست منطقی رشتہ ہے۔ اجازت دیجئے کہ میں جان کی امان مانگتے ہوئے یہ سچائی لکھ سکوں کہ دُہری شہریت رکھنے والوں کی مخالفت اور مذمت کرنے والوں کا سارا بیانیہ سو فیصد غلط ہے‘اس کا حقائق سے دور کا واسطہ نہیں۔ اس کی بنیاد کم علمی‘ اندھے تعصب اور Witch Hunt والی ذہنیت پر ہے۔
اس تمہید کے بعد میں اپنا مؤقف نمبر لگا کر پیش کرتا ہوں تاکہ مجھے لکھنے اور آپ کو پڑھنے میں آسانی رہے۔ میں اپنے ذہین قارئین سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس تحریر کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں گے اوراپنی سابقہ رائے پر نظر ثانی کریں گے۔ (1): غالباً آپ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ برطانوی قانون میں ایک Status (قانونی درجہ) PR (یعنی Permanent Residence ) کا ہے جو قریباً دس لاکھ بھارتی باشندوں کے پاس ہے۔ یہ قانونی درجہ مل جائے (دوسرے لفظوں میں Leave of Indefinite Stay ) تو برطانوی شہریت کی ضرورت نہیں رہتی۔ برطانوی شہری اور PR کا درجہ رکھنے والوں کے قانونی حقوق میں برائے نام فرق ہے۔ دونوں ایک جیسے مراعات کے حقدار ہیں۔ وہ دونوں نہ صرف ووٹ دے سکتے ہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بھی بن سکتے ہیں۔ (جیسا کہ ہر پارلیمنٹ میں بھارتی نژاد لوگ بن جاتے ہیں) برٹش شہری بنے اور برٹش پاسپورٹ لئے بغیر۔ PR رکھنے والے شخص کو برطانیہ سے دو سال سے زیادہ بیرونِ ملک رہنے کی اجازت نہیں اس لئے وہ ایک سال گیارہ ماہ‘ تین ہفتے اور چھ دن گزر جانے کے بعد برطانیہ واپس آجاتے ہیں اور یہاں چند دن گزار کر دوبارہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ( بشرطیکہ وہ جانا چاہتے ہوں) ۔دوسرا فرق یہ ہے کہ PR رکھنے والوں کو دوسرے ممالک (ماسوائے اُن کے آبائی ملک کے جس کا پاسپورٹ اُن کے پاس ہوتا ہے) کا سفر کرنے کیلئے وہاں کا ویزہ حاصل کرنا پڑتا ہے جبکہ برٹش پاسپورٹ والے سارے یورپ اور دنیا کے دو تہائی ممالک میں ویزا کے بغیر باآسانی جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہری شہریت کے خلاف جو واویلا مچا ہوا ہے اُس کا PR والوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔ PR رکھنے والے ہمارے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور پاکستانی پارلیمان کے رکن‘وزیر‘ مشیر بن سکتے ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ برطانیہ کا PR امریکہ کے گرین کارڈ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نکلا کہ اگر برطانیہ میں رہنے والا کوئی شخص پاکستانی پاسپورٹ کے علاوہ برطانوی پاسپورٹ حاصل نہ کرے اور PR پر قناعت کرے تو آپ اُس پر دہری شہریت کا ''سنگین‘‘ الزام نہیں لگا سکتے‘ چونکہ اُس کے پاس صرف اپنے آبائی ملک کا پاسپورٹ ہوگا اور اُسے اعتراض کرنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ اگر دہری شہریت رکھنے والے اپنے آپ کو بے رحمی سے کئے جانے والے لاٹھی چارج سے بچانا چاہئیں تو وہ PR کے قانونی درجہ سے باآسانی کام چلا سکتے ہیں۔(2):بر طانوی قانون میں دہری شہریت رکھنے والوں پر نہ پارلیمنٹ کا رکن بننے پر پابندی ہے اور نہ ہی وزیر مملکت بن جانے پر۔ مثال کے طور پر لندن کے موجودہ میئر صادق خان‘سابق وزیر خزانہ ساجد جاوید‘ ہائوس آف لارڈز کے اراکین لارڈ نذیر احمد اور لارڈ قربان حسین اورہائوس آف کامنز کے چھ پاکستانی اراکین۔ اسی طرح دُہری شہریت کے مالک برطانوی کرائون ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کالم نگار کا ایک بیٹا جو بطور بیرسٹر ہمہ وقتی پریکٹس کرتا ہے اور جزوقتی کرائون کورٹ کا جج ہے (جسےRecorder کہتے ہیں) اور اگر (بفضل ِتعالیٰ) اپنی اہلیت کی بنا پر ہائی کورٹ / سپریم کورٹ کا جج نامزد کئے جانے کا مرحلہ آیا تو اُس کی پاکستانی شہریت اُس کے راستے میں ہر گز رکاوٹ نہ بنے گی۔ (3): برطانیہ تو اب یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا اس لئے معاملات پہلے جیسے نہیں رہے‘ ایک زمانہ وہ تھا جب جناب عمران خان صاحب کی پہلی بیوی جمائما کے والد برطانوی شہری ہونے کے باوجود یورپی پارلیمنٹ کے رکن بننے کیلئے فرانس سے انتخابات میں حصہ لیتے تھے۔ (4):مجھے سو فیصد یقین تو نہیں مگر اغلب امکان یہی ہے کہ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور تمام یورپی ممالک دہری شہریت رکھنے والوں کو ہر سرکاری عہدے پر فائز ہونے اور پارلیمنٹ کا رکن بن جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ (5): امریکی قانون کا دہری شہریت رکھنے والوں کے معاملے میں بڑا غیر دوستانہ رویہ ہے‘ ماسوائے اُن لاکھوں امریکی شہریوں کیلئے جو اپنے امریکی پاسپورٹ کے ساتھ اسرائیل کا پاسپورٹ حاصل کرنے کا شروع دن سے حق رکھتے ہیں۔ (6):ایک بنیادی قانون کی وضاحت ضروری ہے‘ جواتنی اہم ہے کہ ہر برٹش پاسپورٹ کے اندر صاف زبان میں لکھی جاتی ہے کہ اگر ایک پاکستانی کے پاس برطانوی پاسپورٹ بھی ہو تو وہ اپنے آبائی ملک میں ہر لحاظ سے پاکستانی تصور کیا جائے گا اور پاکستان قوانین کا پابند ہوگا۔ اُس کی برطانوی شہریت محض برائے نام ہوگی چونکہ وہ بیک وقت اپنے سر پر دو ٹوپیاں نہیں اوڑھ سکتا۔(7):چوہدری محمد سرور گورنر پنجاب جتنی دیر برطانوی پارلیمنٹ کے رکن رہے وہ قانوناً سارے عرصے پاکستانی شہری بھی تھے۔ اُن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ نہ بھی ہو‘ پاکستانی شناختی کارڈ ضرور ہوگا جو اُنہیں بلا روک ٹوک پاکستان آجانے کی سہولت دیتا تھا۔ گورنر بننے کیلئے اُنہیں اپنی برطانوی شہریت سے دستبردار ہونا پڑا مگر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ برطانوی شہریت کے قانون میں اتنی لچک ہے کہ وہ آپ کو ایک بار اپنی برطانوی شہریت Surender کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر سرور صاحب نے برطانیہ میں دوبارہ رہائش پذیر ہونے کا فیصلہ کر لیا تو اُنہیں ایک بار پھر برطانوی شہری بن جانے میں زیادہ زحمت نہ اُٹھانی پڑے گی۔ 
(8): کالم نگار کی ایک بہو جرمن ہے اور دوسری روسی۔ دونوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہیں جو اُنہیں پاکستان میں داخلے کیلئے ویزا سے مستثنیٰ کر دیتے ہیں۔ میں اُنہیں غیر سنجیدہ لمحات میں منانے کی کوشش (اس وقت تک ناکام کوشش) کرتا رہتا ہوں کہ وہ اپنا مقامی اثر و رسوخ استعمال کر کے مجھے جرمن اور رُوسی پاسپورٹ بھی دلوا دیں تو مہربانی ہوگی۔ پاسپورٹ تو صرف ایک سفری دستاویز ہے۔ پاسپورٹوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی مجھے بین الاقوامی سفر میں اتنی آسانی ہوگی۔ اجازت دیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کالم نگار یہ تجویز پیش کرے کہ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ ایران اور ترکی کی برادر (یا خواہر) حکومتیں آپس میں دوستانہ رشتے کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے یہ قانون بتائیں کہ مذکورہ بالا ممالک کے شہریوں کو نہ صرف دہری شہریت بلکہ پانچوں ملک کا شہری بن جانے اور چار اضافی پاسپورٹ حاصل کرنے کا حق دیا جائے۔ اگر فی الحال یہ ممکن نہیں تو ان پانچ ممالک کو Visa Free تو بنایا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں