دُہری شہریت ……(3)

برطانیہ میں 53 سال کے قیام کے بعد یہ کالم نگار پوری دیانتداری سے کہہ سکتا ہے کہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک (بلکہ دنیا کے تمام ممالک) میں رہنے والے پاکستانی اپنے اُن ہم وطنوں کے مقابلے میں جو پاکستان میں رہتے ہیں‘ زیادہ محبِ وطن ہیں۔ بفرض محال اگر کبھی کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوئی جب برطانوی اور پاکستانی شہریت باہم متصادم ہوں اور دُہری شہریت رکھنے والے ہر شخص کو یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ اُس کی وفا داری کا محور اور مرکز دونوں میں کون سا ملک ہوگا‘ تو شاید ایک بھی ایسا شخص نہ ہوگا جو اپنی پاکستانی شہریت پر برطانوی شہریت کو ترجیح دے۔ ایک معمولی مثال دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔ برطانیہ میں سارے پاکستانی Tebbit testمیں برُی طرح فیل ہوتے ہوئے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ میں اپنے آبائی وطن کی ٹیم کو بھر پور سپورٹ کرتے ہیں۔ ایک پاکستانی شہری کے پاس دو چھوڑ دس پاسپورٹ ہوں‘وہ صرف دو ممالک کا نہیں بلکہ درجنوں ملک کا رجسٹرڈ شہری ہو‘ یہ بالکل سطحی اور بے معنی اور غیر ضروری تفصیل ہے۔ بنیادی ضرورت اور Qualifying Conditionصرف اور صرف اہلیت اور قابلیت ‘ دیانت اور صداقت کی ہونی چاہئے۔ پاکستان کو ہر شعبہ پر قابض مافیا نے جوناقابلِ تلافی اور ناقابلِ تصور نقصان پہنچایا وہ سارے کا سارا خالصتاً پاکستانی ہے اور مقامی مال ہے۔ ہمیں اُن کی واحد شہریت سے کیا فائدہ ہوا؟ خاک بھی نہیں بلکہ سراسر نقصان اور تباہی۔ نہ اکہری شہریت کوئی خوبی ہے اور نہ دہری شہریت کوئی خامی۔ ہمیں اصل ضرورت ہے اُن لوگوں کی جو سرکاری فرائض عبادت سمجھ کر ادا کریں۔ فرض شناسی اور دیانتداری میں قائداعظم کے نقش قدم پر چلیں۔ آپ اپنے خدمت گزاروں کے دل و دماغ کو پرکھیں نہ کہ اُن کی جیب کو ٹٹولیں کہ اُس میں کس رنگ کے پاسپورٹ ہیں۔ خدا کرے کہ وہ مبارک دن آئے جب پاکستان میں رہنے والے اکہری شہریت رکھنے والے وطنِ عزیز کے وفادار اور خدمت گزار بن جائیں اور اپنے پیارے ملک کی کایا پلٹ دیں۔ وہ جب صدقِ دل سے ''دل دل پاکستان ‘‘کا نعرہ بلند کریں گے تو اُنہیں مشرق وسطیٰ سے لے کر یورپ تک اور یورپ سے لے کر کینیڈا اور امریکہ تک اتنی ہی بلند آواز میں یہ الفاظ سنائی دیں گے ''جاں جاں پاکستان‘‘۔
میں اپنے قارئین سے دکھ سکھ کی باتیں کر لیتا ہوں۔ اتنی عمر میں‘ جو مجھے باری تعالیٰ نے عطا کی‘ شاید ہی کوئی ایک فون کال میرے لئے اتنی رنجیدگی اور دل آزاری کا باعث بنی ہو جتنا کہ تین ماہ پہلے پاکستان سے ایک دوست (بدستور دوست) کا طعنوں سے بھرپور فون۔ سب سے تکلیف دہ سوال یہ تھا کہ اگر آپ کو اپنے وطن سے اتنی محبت ہے تو آپ پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ اُن کی نظر میں میری وطن سے ہزاروں میل کے فاصلے سے کالم نگاری بے مصرف ‘ بے سود اوربے معنی ہے‘ بلکہ سراسر دکھاوا ہے۔ ع
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
کتنا اچھا ہوتا کہ میں آپ کو اپنی شدید ذہنی اذیت میں شریک نہ کرنے کے فیصلے پر قائم رہتا۔ یہ کالم اپنے دکھڑے بیان کرنے کیلئے قومی المیے کے تذکرے پر ختم کیا جائے گا‘ بلکہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر اپنی ذاتی رائے (جو ضروری نہیں کہ درست ہو یا آپ کی پسندیدگی کے معیار پر پورا اُترتی ہو) کے سنجیدہ اظہار کیلئے لکھا جاتا ہے۔دُہری شہریت والے تو قابل تعزیر ٹھہرے‘ آپ اُن پر سنگ باری کیلئے پتھر اٹھاتے ہیں تو آپ کو اپنا وہ سر کیوں یاد نہیں آتا جس میں نہ سندھ کے ہاریوں کیلئے کوئی احساس ہے نہ بلوچستان کے سرداری نظام کی چکی میں صدیوں سے پسنے والوں سے کوئی ہمدری ‘اور نہ یہ خیال کہ جو لاکھوں لوگ ڈھاکہ کی کچی بستیوں میں49 سال سے بدترین زندگی گزار رہے ہیں‘ اُن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پاکستانی شہری سمجھتے ہیں۔ پاکستان ان بے چاروں کیلئے ماں کا درجہ رکھتا ہے‘ مگر بدقسمتی سے ماں اپنے بچوں کو اپنی گود میں پناہ دینے سے نصف صدی سے انکار کرتی آرہی ہے۔ ہم پھر بھی حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ بجلی صرف ہمارے آشیانے پر کیوں گرتی ہے؟ہم پر اتنے عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں؟ہم راندۂ درگاہ کیوں ہیں؟
اتنی بے حسی؟ اتنی لاتعلقی؟ جو سانحۂ حیدرآباد (پکا قلعہ)‘ سانحہ کراچی (12 مئی کو کراچی میں چیف جسٹس کا استقبال کرنے والوں کا قتلِ عام)‘ سانحۂ ساہیوال‘ سانحۂ ماڈل ٹائون‘ سانحۂ قصور (زینب کی بے حرمتی اور قتل) سانحۂ موٹر وے (پولیس کا دس ستمبر کی رات لاہور کے مضافات میں سفر کرنے والی خاتون کی مدد کرنے سے انکار)۔ کالم نگار کو یقین ہے کہ گلگت سے گوادر تک ساری قوم مذکورہ بالا المناک خبروں کو پڑھ کر اور سن کر اور دیکھ کر اشکبار ہوئی ہوگی‘ مگر اس تحریر کا مقصد آپ کو یہ یقین دلانا ہے کہ جب یہ دلخراش خبریں ہزاروں میل کا سفر کر کے بیرون ملک پہنچیں تو دُہری شہریت والے پاکستانی بھی رنج و غم میں ڈوب گئے۔ وطنِ عزیز سے ملنے والی بدترین خبروں کی بدولت ہر روز‘ ہر ہفتہ‘ ہر ماہ اور ہر سال ملنے والے صدموں نے ہمیں نڈھال کر دیا ہے۔ مقدور ہو تو ہم نوحہ گر کو ساتھ رکھیں۔ دُہری شہریت رکھنے والے اکہری شہریت رکھنے والوں کے دکھ درد میں شریک ہیں اور اُن سے اسی خلوص سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں جس طرح کسی عزیز کے دُکھ پر عزیز کیا کرتے ہیں۔
کالم یہاں تک پہنچا تو بادشاہی مسجد لاہور کی سیڑھیوں کے پاس آسودئہ خاک شاعرِ مشرق کی آواز مجھے ہزاروں میلوں سے آئی۔ وہ اپنے ایک عقیدت مند مُرید کو اپنا ایک شعر سنا رہے تھے۔
ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست
( ہر ملک ہمارا ہے کیونکہ سب ممالک ہمارے خدا کے ہیں)
1971 ء کے سال کا سورج طلوع ہوا تو یہ ہمارے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس سال کے آخری مہینے کا سورج غروب ہوگا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا ہوگا۔ ملک ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ مشرقی پاکستان میں رہنے والے کروڑوں افراد کی پل بھر میں شہریت بدل گئی‘ مگر نہ لوگوں کے دل بدلے اور نہ اُن کا احساس ِ یگانگت۔ میں وہاں جاتا رہتا ہوں۔ جب وہاں لوگوں کو میرے پاکستانی ہونے کا پتہ چلتا ہے تو وہ آنکھیں بچھا دیتے ہیں‘ حالانکہ ایک وقت تھا جب وہ شہری تو پاکستان کے تھے مگر پاکستان کے بارے میں غیر دوستانہ جذبات رکھتے تھے۔ یہی حال ترکوں کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اُن کے پاس قانوناً صرف ترکی کی شہریت ہے مگر اُن کی پاکستان سے محبت اور خیر سگالی کا جو عالم ہے (میں اُس کا چشم دید گواہ ہوں) وہ غالباً آپ کو وزیرستان اور بلوچستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں بھی نظر نہ آئے گی۔
ہر طرح کی محرومیاں اور مصائب بڑھ جائیں تو قوتِ اُخوت عوام ماند پڑ جاتی ہے۔ قصور دُہری شہریت کا نہیں‘ عوام دشمن اور عہدِ غلامی میں وضع کردہ نظام کا ہے۔ دُہری شہریت کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں۔ ساری خرابی کا ذمہ دار ہمارا نظامِ حکومت ہے۔ شہریت محض ایک لیبل ہے‘ اکہری ہو یا دُہری‘ اس کی کوئی بنیادی اہمیت نہیں، صنف (Gender ) یا جلد کے رنگ یا سیاسی وابستگی کی طرح۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں