مجھے ہے حکم ِاذاں

سو سال پہلے اقبال نے نیا شوالہ کے نام سے نظم لکھی‘ اُنہیں نہ صرف صنم کدوں میں رکھے ہوئے بُت بلکہ ایک اور نظم میں جماعت (مرا د ہے اُن کی اپنی قوم) کی آستینوں میں چھپے ہوئے بُت نظر آئے تو وہ حد درجہ پریشان ہوئے۔ اس سے پیشتر کہ وہ مزید دل گرفتہ ہوتے‘ اُن کا دل مایوسی میں ڈوب جاتا اور آنکھیں شدتِ غم سے نمناک ہو جاتیں اُنہیں حکم ِاذان ملا۔ (یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حکم کس نے دیا اور صرف اُنہیں کیوں دیا؟) یہ کالم نگار وطن عزیز کے حالات پر کتنا دل گرفتہ اور رنجیدہ ہے‘ وہ کیفیت نہ سنائی جا سکتی ہے ‘ نہ بتائی جا سکتی ہے اور نہ ہی الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔ اگر میں اسے دیانتداری اور صدقِ دل سے محسوس کر رہا ہوں تو وہ محتاجِ و بیان نہیں۔ چھ ہزار میل کے فاصلہ کے باوجود قارئین کے دلوں کو بھی اس کیفیت کا احساس ہو جائے گا۔کیا یہ ازلی سچائی نہیں کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ اونچے پہاڑ‘ گہرے سمندر‘گھنے جنگلات اور سیلاب کے ریلے اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔ کالم نگار اقبال نہیں کہ اسے حکم اذاں ملتا ‘ اُس نے اپنے دل و دماغ اور اپنے ضمیر اور شعور کی آواز سن کر مندرجہ ذیل سطور میں وہ لکھا جس کا ایک ایک لفظ وطن عزیز کی زندگی کے 73 سالوں کے گہرے مشاہدے اور 60 سالوں پر پھیلے ہوئے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ 
میرا ایک بیٹا (فاروق) 1967 ء میں چھ ماہ کی عمر میں (اپنی ماں کی گود میں بیٹھ کر) برطانیہ آیا۔ لندن یونیورسٹی سے 24 سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی‘ پھر بیرسٹر بنا۔ برطانیہ میں کئی سال بڑی کامیابی سے وکالت کی۔ اس سال ماہ جولائی کے آخر میں (برطانیہ میں 53 سال رہنے کے بعد) اپنے دوسرے وطن کو خیر باد کہہ کے اپنے پہلے وطن واپس چلا گیا اور اب وہاں قدم جمانے میں مصروف ہے۔ اسلام آباد پہنچ کر اُس نے اپنی خیر خیریت کی اطلاع دینے کے بعد دوسرے سانس میں اپنے باپ کو جلد از جلد ایک کمال کی کتاب خریدنے کا مشورہ دیا۔ Amazonکا بھلا ہو کہ انہوں نے یہ کتاب 24 گھنٹوں کے اندر مجھے میرے گھر پہنچا دی۔ کتاب کا نام ہے۔ Empires of the Mind ۔ مصنف ہیں ڈاکٹر Robert Gildea۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ میں نے ابھی پہلے پچاس صفحے پڑھے ہیں جو اگر پورے چودہ نہیں تو پھر بھی دماغ کے کافی طبق روشن کرنے کا موجب بنے۔ بعد از نو آبادیاتی (Post-Colonial) نظام کے بارے میں سب سے پہلے اور سب سے اچھی کتاب 55 سال پہلے اندرون شہر لاہور (لوہاری دروازہ) کے ایک چوبارے میں بیٹھ کر پڑھی تھی‘نام تھا Wretched of the Earth جو فرانز فنان نے لکھی۔ '' اُفتادگانِ خاک‘‘ کے نام سے میرے دوست پروفیسر سجاد باقر رضوی صاحب نے اس کا اُردو میں کمال کا ترجمہ کیا۔ تیسری دنیا کے تمام ملکوں میں یہ کتاب آج بھی درسی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ 
آکسفورڈ کے پروفیسر کی مذکورہ بالا کتاب نے یوں شہرت پائی کہ اُس نے عالمانہ انداز میں یہ بیان کیا ہے کہ نو آبادیاتی غیر ملکی راج سے نجات حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا بعد از نو آبادیاتی دور کے زہریلے ‘ وطن دشمن اور عوام دشمن باقیات سے نجات اور دور غلامی کی یادگاروں اور آثار کو صاف کرنا۔اگر کوئی قوم صدیوں تک متاعِ غرورکا سودا کرتی چلے جائے‘ پندار کا صنم کدہ ویراں کرتی رہے‘ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اُٹھاتی رہے ‘ایک شاہی فرمان سے آزاد کر دی جائے تو فرنگی بت کدوں میں کھو جانے والے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں پہچان سکتے۔ شاہین نہ صرف فریب خوردہ ہو بلکہ پلا بھی برطانوی راج کے کرگسوں کی صحبت میں ہو تو اسے راہِ رسم شہبازی کی کیا خبر؟ جن بدقسمت لوگوں کی ساری زندگی بندگی کی جوئے کم آب میں گھٹ کر رہ جاتی ہے وہ آزادی کے بحرِ بے کراں کی وسعت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سادہ اور سلیس زبان میں مذکورہ بالا بیانیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے بدرجہا بدتر ہے۔ اس کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ اُنہیں کھود کر نکالنا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ کٹھن کام ہوتا ہے۔ ہتھکڑیوں اور پائوں کی بیڑیوں کو توڑ کر آزاد ہو جانا اتنا مشکل اور جان لیوا کام نہیں جتنا دورِ غلامی میں سانس لے کر پرورش پانے والے طرزِ فکر اور ذہنی رویوں کو بدلنا۔ اس سچائی کا شعور نہ رکھنا ایک مہلک غلطی ہے جس کا ارتکاب ہم 73 سالوں سے کرتے آئے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ہمیں کیا سزا ملی؟ ہمارا آنے والا دن ہمارے گزرے ہوئے دن سے بدتر ثابت ہوا۔ ہماری ساری توجہ ڈرائیور پر رہی‘ہم نے گاڑی کو نہ دیکھا جس کا انجن خراب ہے۔ اگر آپ انگریز کے بنائے ہوئے نظام کو تبدیل نہ کریں اور اسے چلانے کیلئے کسی کو بھی لے آئیں تو کامیابی نہیں ملے گی ۔ جب ہمارے دانشور آمروں کی مذمت کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں بتاتے کہ اُن کے آنے کی واحد وجہ ایک نام نہاد‘ کھوکھلا‘ عوام دشمن اوربرائے نام جمہوری نظام کی ناکامی تھی۔ ایک ایسا سیاسی بندوبست جس کی جڑیں عوام خصوصاً محنت کشوں کے دلوں میں نہ ہوں اُس کی صف کبھی بھی لپیٹی جا سکتی۔گملوں میں اُگائے ہوئے پھولوں کو کوئی بھی اُٹھا کر ایک ہی جنبش میں باہر پھینک سکتا ہے‘ لیکن زمین میں اُگے ہوئے اور گہری جڑیں رکھنے والے پودوں کو لاکھ کوشش کے باوجود نہ اُکھاڑا جا سکتا ہے اور نہ بیک جنبشِ قلم نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ وہ سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں جو ڈیپ سٹیٹ کے دست ِ شفقت کی بدولت اقتدار حاصل کریں وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد عوامی مفادات کی نگہبانی اور ترجمانی کا حق کس طرح ادا کر سکیں گی؟ پہلے ذوالفقار علی بھٹو پھر نواز شریف (3 بار) پھر بینظیر بھٹو (2 بار)اور اب عمران خان صاحب۔ آپ جب ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو برائے مہربانی ایک حکمران شخص (یا اشخاص) کی بجائے اُس نظام پر دھیان دیں جو ناقابلِ استعمال ہے۔ یہ کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی ناکامی ہے جس سے ہماری جان 14 اگست1947 ء سے لے کر آج تک نہیں چھوٹی ۔وہ پیر تسمہ پابن کر نہ صرف ہمارے کندھوں کا مستقل سوار ہے بلکہ ہمارے دماغ کے ہر ریشہ میں اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ ہم بصیرت اور بصارت دونوں سے محروم ہو گئے۔ بدقسمتی سے ہماری نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کئی رہنمائوں سے اُمید باندھی گئی مگر کوئی اُمید بر نہیں آتی۔ کڑوی مگر ناقابل ِتردید سچائی یہ ہے کہ اسد عمر اور حفیظ شیخ صاحب کی پالیسی اور حکمت عملی سو فیصدی وہی ہے جو ان کے پیش رو وزرائے خزانہ (ایوب خان کے محمد شعیب سے لے کر شوکت عزیز اور اسحاق ڈار تک) کی تھی۔ بوتل میں مشروب وہی اور ہم چند سالوں کے بعد اُس پر لگا ہوا لیبل بدل دیتے ہیں اور بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔ نرم سے نرم الفاظ میں اسے سادگی کی سرحدوں پر پھلنے پھولنے والی کم عقلی کہا جا سکتا ہے۔ آج کا کالم اعزاز احمد آذر کے اس شعر پر ختم کیا جاتا ہے جو کئی برس قبل وجاہت مسعود نے ہم تک پہنچایا تھا ۔ ؎
اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی 
اب اس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں