مجھے ہے حکم اذاں……(2)

کبھی کبھارلندن کے وسط میں بہتے ہوئے دریا کے کنارے سیر کرتے ہوئے مجھے خیال آتا ہے کہ جب ذات ِباری تعالیٰ کسی قوم پر مہربان ہو تو انعام کس طرح دیا جاتا ہے اور جب ناراض ہو جائے تو سزا کس طرح دی جاتی ہے؟ میرے ذہن میں اس سوال کا جو جواب اُبھرا وہ آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس پر سوچیں اور اپنی رائے دیں۔ میرے خیال میں ایک قوم کو محب ِ وطن اور متوازن دماغ رکھنے والے اور سوجھ بوجھ کے مالک سیاسی رہنمائوں (مثلا ًقائد اعظم محمد علی جناح اورحسرت موہانی) اندھیرے میں روشنی دکھانے والے دانشوروں (مثلاً شاہ ولی اللہ‘ عبید اللہ سندھی اور علامہ اقبال)۔ اعلیٰ ترین درجے کے فنکاروں (مثلاً روشن آرا بیگم‘ امانت علی خان‘ صادقین‘اُستاد اللہ بخش‘عبدالرحمن چغتائی ) جیسے بڑے لوگوں کی صورت میں انعام و اکرام دیا جاتا ہے اور قائداعظم کی کرسی پر چوہدری فضل الٰہی‘ممنون حسین اور آصف علی زرداری جیسے لوگوں کو بیٹھا کرسزا دی جاتی ہے۔ جب قدرت دیکھتی ہے کہ نہ صرف جرائم کی تعداد زیادہ ہے بلکہ وہ بہت سنگین بھی ہیں تو سزائوں کی تعداد اور شدت میں بھی اُسی تناسب سے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ ان دنوں ملنے والی تمام سزائوں پر ایک نظر دوڑائیں۔ناقابلِ برداشت مہنگائی‘کروڑوں افراد کیلئے خط ِافلاس سے نیچے زندہ رہنے کا عذاب‘ بجلی‘ صاف پانی اور صاف ہوا کا فقدان۔ انصاف اور امن و امان کا فقدان۔ اچھی تعلیم اور اچھے علاج کی سہولیات کا فقدان۔ قوتِ اخوتِ عوام اور سلطانی ٔجمہور کا فقدان ۔ہر سال کے ہر ماہ اور ہر ماہ کے ہر دن زوال‘ انحطاط اور بدسے بدتر کا وہ سفر کہ بارش ہو تو سوات سے کراچی تک سیلاب کی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے‘ کیچڑ اور غلاظت کے انبار ہیں کہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی قحط سالی اور کبھی تند و تیز سیلاب۔ ہماری خوراک کا بنیادی جزو (آٹا) دو سال میں دو گنا مہنگاہو گیا۔ اربوں روپوں کا نفع دینے والی سٹیل مل اربوں روپوں کے خسارے کی ذمہ دار بن کر اُسی طرح وبالِ جان بن گئی جس طرح قومی ایئر لائن‘ ریلوے اور مواصلاتی نظام۔ 
جونہی کراچی (ایک بار پھر) ڈوبا‘بلاول بھٹو زرداری کے پائوں میں موچ آگئی ورنہ اُن کیلئے اپنے شہر کے مصیبت زدہ علاقوں میں جانا کون سا مشکل تھا؟ اب رہے ہمارے وزیراعظم تو اُنہیں NRO نہ دینے کی نہ ختم ہونے والی گردان سے فرصت ملتی تو وہ بھی کراچی میں سیلاب سے تباہی و بربادی کے بارے سوچتے اور وہاں فوراً پہنچ جاتے۔ صرف آٹھ دس دن کی تاخیر ہوئی تو یقینا اس کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔ کراچی کے عوام نے آخری انتخابات میں اُنہیں قومی اسمبلی کی دو تہائی نشستوں پر کامیابی نہ دی ہوتی تو اُن کا وزیراعظم بن جانے کا خواب پورا نہ ہوپاتا۔ صدرِ مملکت کا کراچی سے گہرا اور پرانا تعلق محتاجِ بیان نہیں۔ اُن کی سرکاری مصروفیات بھی اُنہیں کراچی جانے کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس جمہوری دور میں وزیراعظم اور صدر عوامی نمائندے ہیں‘ مگر عوام کا جو حال ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ عوامی نمائندوں کا عوام کے دکھ درد میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے‘ نمائشی طور پر بھی انہوں نے کوئی ہمدردی نہ دکھائی۔ ان سے تو ساٹھ کی دہائی کے شروع میں مشرقی پاکستان کے گورنر اعظم خان ہی ہزار گنا بہتر اور عوام دوست ثابت ہوئے کہ وہ بنگالیوں کی طرح تہمد باندھ کر سیلاب کے پانی میں کمر تک ڈوب کر کھڑے ہوگئے تاکہ سیلاب زدگان کی امدادی کارروائی میں حصہ لے سکیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس طرح بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی ہر دل عزیزی اُن کی برطرفی کا باعث بنی۔ (کالم نگار نے ان کا رفیق کار بن کر جنرل ایوب خان کے خلاف مادرِ ملت مس فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور جلا وطنی کی صورت میں اس جرم کی سزا بھگتی)۔ مجلس ترقی ادب (لاہور) نے جو سینکڑوں معیاری کتابیں شائع کی ہیں اُن میں مغل بادشاہ جہانگیر کی خودنوشت سوانح عمری (توزک جہانگیری) کا اُردو ترجمہ بھی شامل ہے۔ (ترجمہ اعجاز الحق قدوسی نے کیا)۔ جلد دوم صفحہ 205 ۔ آخری تین سطور ''میں کشمیر میں تھاکہ عین عید الفطر کے دن مسجد اور اُس کے ملحقہ محلے کو آگ لگ گئی۔ جب مسجد جلنی شروع ہوئی تو میں پیدل بھاگتا ہوا گیا اور عام آدمیوں کی طرح آگ بجھانے میں مصروف ہو گیا‘‘۔ کتنا اچھا ہوتا کہ صدرِ مملکت‘ گورنر‘ کابینہ کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین ‘ چھوٹے بڑے سرکاری افسران سیلاب میں ڈوبے ہوئے مصیبت زدگان کا ہاتھ تھامتے اور اُنہیں اُس مصیبت سے حتی المقدور بچانے کی کوشش کرتے۔ شہنشاہ جہانگیر مسجدکو جلنے سے نہیں بچا سکا تھا اور نہ مذکورہ بالا افراد مل کر تند و تیز ریلوں کا رُخ موڑ سکتے تھے‘ مگر ہر ممکن کوشش کرنا ان کا فرضِ منصبی تھا ۔اخلاقی فرض بھی۔ ہمارا حکمران طبقہ اور ہماری صاف ستھری دُھلی دھلائی اشرافیہ اس امتحان میں برُی طرح فیل ہوئی۔
1962 ء سے لے کر 1967 ء تک میرا قیام لاہور میں رہا‘ جہاں ٹی ہائوس میں روزانہ بلاناغہ کئی گھنٹے گزارنے کی بدولت منیر نیازی‘ حبیب جالب‘ ناصر کاظمی اور شہزاد احمد جیسے چار بڑے شاعروں کا کلام خود اُن کی آواز میں سُننے کا موقع ملتا۔ میں کالم لکھتے لکھتے یہاں تک پہنچا تو میرے کانوں میں حبیب جالب کی آواز گونجی۔ وہ ستم زدگان کی بے کسی اور بے بسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔ نظم کا عنوان ہے ''گھیرائو‘‘ کل چھ مصرعے۔ آپ پہلا شعر پڑھئے گا اور پھر کراچی کی جانب دیکھئے ۔
صدیوں سے گھیرائو میں ہم تھے‘ ہمیں بچانے کوئی نہ آیا
کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا‘ ہر ظالم نے شور مچایا
آپ غور فرمایئے کہ جو نظام پندرہ سال پہلے آنے والے زلزلے کے متاثرین کے زخموں کو مندمل نہیں کر سکا وہ چند ہفتوں کے اندر کراچی میں غلیظ اور بدبودار کیچڑ کے کوہِ گراں کس طرح اُٹھائے گا؟ عوام کے تعاون کے بغیر اُن کے شہر کی صفائی تو جنات بھی نہیں کر سکتے۔ دو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے شہر کے مسائل ایک ناظم اعلیٰ اور ایک بڑا سرکاری افسر کس طرح حل کرے گا؟ اگر یہ اُس کے بس میں ہوتا تو کراچی کے سبکدوش ہو جانے والے میئر کو عدالتِ عالیہ اتنے ذلت آمیز سلوک کا بجا طور پر مستحق نہ ٹھہراتی۔ لکھنے والے ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مقامی حکومتوں کے مؤثر نظام کو ہمارے مصائب کا سب سے بڑا مداوا بیان کیا ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اتنی بڑی سچائی ہمارے کسی بھی رہنما کو نظر نہیں آئی۔ کسی ایک کو بھی نہیں۔ جب ہمارے رہنما ہماری آنکھیں کھولنے کی بجائے خود اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں تو ہم کیا کریں؟ نہ کوئی چراغِ راہ‘ نہ کوئی روشنی کا مینار۔ (بقول اقبال) میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف۔ جب ہمیں ارطغرل نامی ڈرامہ دیکھنے سے فرصت ملے (جو شاید اگلے چند برس نہ مل سکے) تو ہم وکلا‘ اساتذہ‘ ڈاکٹروں‘ صحافیوں اور محنت کشوں کی طرف اس اُمید سے دیکھیں کہ وہ مل کر ایک نئی جاندار عوامی تحریک کا ہر اوّل دستہ بنیں گے‘ ہماری قیادت کریں گے۔ وہ انگریز کے بنائے نظام کو توڑ کر ہر ڈویژن کا درجہ بڑھانے‘ لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین کاشتکاروں میں تقسیم کر نے‘ سٹیل مل‘پی آئی اے اور ریلوے کے کارکنوں کو ان اداروں کامالک بنا دینے‘اُردو کو سرکاری زبان بنا کر آئینی تقاضے کو پورا کرنے‘ رعایا کو عوام میں تبدیل کرنے اور ہمہ گیر عوام دوست اصلاحات کے نفاذ جیسے مطالبات کو اپنے پرچم پر لکھ کر عوامی تحریک چلائیں۔ جلد یا بدیر سیلاب کا پانی تو سمندر میں جا گرتا ہے یا سوکھ جاتا ہے‘اورکراچی کے بہادر لوگ اپنے گھروں کو پھر پہلے کی طرح صاف کر لیتے ہیں ‘مگر ہم کرپشن اور نالائقی کے مہلک امتزاج سے آنے والے نئے عذاب عظیم کی روک تھام کریں گے تو کیونکر؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں