In the name of God, go!

میرے ساتھی کالم نگار خورشید ندیم صاحب کے بہت سے مداح ہوں گے مگر اُن میں بہت کم ایسے ہوں گے جن کا اُن سے ذہنی رشتہ اُتنا پرانا اور اتنا گہراہے جتنا اس کالم نگار کا۔ پندرہ برس قبل میں نے لندن سے ایک کتابچہ شائع کیا جس کا نام تھا ''آواز خلق‘‘۔ مذکورہ کتابچہ کے صفحات56-59 پر خورشید ندیم صاحب کا جو فکر انگیز مضمون شائع کیا گیا اُس کا عنوان تھا: ''سیاست سے مایوسی کے بعد‘‘۔ مناسب ہوگا کہ اس کی چند سطور یہاں نقل کی جائیں۔''آج محض سیاسی جدوجہد سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی۔ لوگوں کے معاشی حالات میں بھی کسی بہتری کا امکان نہیں۔ کسی تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سماجی اصلاح کی ایک بڑی تحریک برپا ہو۔ اہل ِعالم و دانش سماجی تصورات کی تشکیلِ نو کریں۔ اس تصور کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ باوسائل لوگوں کے مال میں معاشرے کے کمزور طبقات کا حصہ ہے۔ اس کیلئے ایک منظم تحریک چلائی جائے کہ کیسے یہ وسائل معاشرے کے کمزور لوگوں تک منتقل ہوں۔ ہمارے سیاسی طبقات جن میں سیاسی جماعتیں اور بعض قومی ادارے شامل ہیں، اپنے گروہی اور ادارتی مفادات سے بلند تر ہونہیں ہو سکے۔ ان سب کیلئے قومی مفاد گروہی اور شخصی مفاد کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری دلچسپی کا میدان تبدیل ہو جانا چاہئے۔ سیاست سے اب کوئی خیر برآمد ہونے والی نہیں‘‘۔تاہم نواز شریف کی 29 ستمبر کی تقریر پر فاضل کالم نگار کے موقف پہ‘ اس اقتباس کے تناظر میں کچھ سوال پیداہوتے ہیں۔
میں ایک وکیل ہوں اس لئے اپنا مقدمہ نکتہ وار بیان کروں گا تاکہ ہمارے قارئین (جو منصف ہیں اور جیوری بھی) کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔ (1): کیا یہ سچ نہیں کہ میاں صاحب کو ریاست کے اندر دوسری ریاست وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہو جانے‘ جیل میں کئی ماہ گزارنے‘ کئی بیماریوں کو مقابلہ کرنے اور لندن میں جلا وطنی کے نو ماہ گزارنے کے بعد نظر آئی ہے؟ (2): اُنہیں تین بار وزیراعظم بن جانے اور اک طویل عرصہ برسر اقتدار رہنے کے دوران مندرجہ بالاسچائی کا ادراک کیوں نہ ہوا؟ اور اگر ہوا تو وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے اُنہیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیا؟(3): کیا وہ جانتے تھے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اُن کے ایک قریبی ساتھی کی‘ اُن کی اپنی خواہش پر سپہ سالارسے ملاقات ہوئی۔ کیا وہ ملاقات اُن کی اجازت سے ہوئی؟ کیا اُن کا طویل سیاسی تجربہ خطرے کی گھنٹی کی آواز سننے میں مددگار ثابت ہوا یا نہیں ہوا؟ کیا وہ دیانتداری (بشرطیکہ وہ اُس لفظ کے مفہوم سے آشنا ہوں) سے سمجھتے ہیں کہ مہمان اور میزبان کے درمیان بدلتے ہوئے موسم کے موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی؟ کیا وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر اس خفیہ ملاقات کا راز فاش ہوا (جو ہو کر رہنا تھا) تو اُنہیں اور اُن کی سیاسی بیانیہ کو اور اُن کے نام پر بنائی گئی سیاسی جماعت کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا؟ (4): کیا میاں صاحب کا اپنا ماضی یہ نہیں رہا کہ وہ بذات خود ایک فوجی دورِ حکومت کی پیداوار ہیں اور اُن کا دامن کئی غیر جمہوری چالوں سے داغدار ہے؟ (5): کیا وہ 24 ستمبر کے ''دُنیا‘‘ میں عمران یعقوب خان صاحب کے کالم میں لگائے گئے ان الزامات کا جواب دینا پسند فرمائیں گے‘ خصوصاً اس بات کا کہ ''جمہوریت کشی کے کھیل میں نواز شریف کو 3کے مقابلہ میں 4 سے برتری حاصل ہے‘‘۔ (6): طبقات اور طبقاتی کشمکش اور طبقاتی تضادات کے فلسفے سے رہنمائی لی جائے تو میاں صاحب پاکستان کے بورژوائی طبقے کے نمائندہ قرار پاتے ہیں۔اس قبیل کے سیاسی رہنمائوں کی بدولت دنیا میں فسطائیت جیسی بڑی لعنت نے فروغ پایا ہے۔ آپ اس کا تاریخی کردار دیکھ لیں۔ وہ اتنے ہی عوام دشمن ہوتے ہیں‘ جیسے آج بھارت میں مود ی ہے‘ یاجرمنی میں ہٹلر‘ اٹلی میں مسولینی‘ سپین میں فرانکو‘ پرتگال میں سلازار‘ چلی میں پنوشے تھا۔(7): کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ہماری دونوں بڑی سیاسی جماعتیں (پی پی پی اور مسلم لیگ ن ) کے رہنما ہر طرح کی بددیانتی اور ناقابلِ تصور نالائقی کا مہلک مجموعہ نہ ہوتے تو ہماری سیاسی کششِ ثقل (Gravitational Pull) اپنا سارا وزن عسکری پلڑہ میں نہ ڈال دیتی یا نہ ڈال سکتی؟ مثال کے طور پر بلوچستان میں ریکو ڈیک منصوبہ (جو ہمیں اربوں ڈالروں کے جرمانے کروانے کا ذمہ دار بنا‘ حالانکہ یہی خزانہ ہمیں اربوں ڈالر کا منافع دے سکتا تھا)۔ پن بجلی اور شمسی توانائی کے استعمال سے توانائی کا بحران ختم کرنے میں ناکامی‘ ایک زرعی ملک میں زراعت کی تباہی و بربادی‘تعلیم اور علاج کی سہولیات کا فقدان‘ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُردو کو سرکاری زبان بنانے سے مسلسل انکار‘ سینکڑوں ارب ڈالر کا قرض لے کر ملک چلانے کی مہلک روش‘ کسی بھی سرکاری محکمہ (خصوصاً پولیس اور مالیہ وصولی) کو عوام دوست بنانے میں ناکامی‘ بے روزگاری‘ مہنگائی اور افراطِ زر کی گہری ہوتی دلدل‘ سانحہ ماڈل ٹائون‘ رائو انوار جیسے پولیس افسروں کی سرپرستی سے لے کر سانحہ بلدیہ ٹائون جس میں 265 کارکن زندہ جلا دیئے گئے۔ عزیر بلوچ جیسے سرکاری سرپرستی میں پرورش پانے والے غنڈوں کا وجود‘ گندم‘چینی‘ چاول اور کپاس مافیا کا عروج۔ آج میاں صاحب کو ایک میڈیا ادارے کے سربراہ کی سات ماہ سے لمبی حراست گراں گزرتی ہے مگر انہوں نے نجم سیٹھی صاحب کا جو حشر کیا وہ آپ اُن سے پوچھ سکتے ہیں۔ (8) :ہماری 73سالہ تاریخ کے 30 سال آمریت لے گئی اور 30 سال شریف برادران‘ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ایک الزام علیہ دوسرے کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان بے کس‘ لاچاربے آواز اور بدنصیب لوگوں کی طرف سے وکیل استغاثہ کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے؟ (9): کیا یہ سچ نہیں کہ میاں صاحب اپنی بیٹی کو اور میاں شہباز شریف اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ میاں نواز شریف کی جس تقریر کو آپ نے اپنا عہد ساز قرار دیا وہ مریم نواز کے سیاسی بیانیہ کو آگے بڑھاتی ہے اور میاں شہباز شریف کے مفاہمتی موقف کی نفی کرتی ہے؟کیا ہم نہیں سمجھتے کہ آنے والے سالوں میں مسلم لیگ (ن) جانشینی کے جھگڑے کے غار میں اُسی طرح جاگرے گی جیسے مغل بادشاہوں کا دور کی تاریخ میں ہمیں دکھائی دیتا ہے ؟ (10): کیا یہ ماننے میں تامل ہوگا کہ میاں نوازشریف نے آل پارٹیز کانفرنس کی تقریر میں صرف آدھا سچ بیان کیا۔ میاں صاحب کے بیان کردہ ''افسانے‘‘ میں بقول فیض جس بات کا ذکر تک نہ تھا وہ غالباًمیری طرح اور بھی بہت سے لوگوں کو ناگوار گزری ہوگی۔ آدھے سچ کی تعریف میں لکھے ہوئی بات میں تو سچائی نصف سے کم ہو کر ایک چوتھائی رہ جاتی ہے۔ (11):20 اپریل 1653ء کو برطانوی آمر مطلق Oliver Cromwell نے پارلیمان کے چلے ہوئے کارتوسوں کو مخاطب کرتے ہوئے (ایوان کے اندر جا کر) جو لعنت ملامت کی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ اُس کے آخری چھ الفاظ وہی تھے جو آج کے کالم کا عنوان بنے۔ 
آج اگر آپ آواز خلق سنیں تو پاکستان کے کروڑوں غیر مراعات یافتہ افراد (جو اکثریت میں ہیں) اپنے تمام نئے اور پرانے سیاسی رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہی الفاظ دہرا رہے ہیں۔
In the name of God, go.

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں