انہی لوگوں نے…

مندرجہ بالا الفاظ اُس گیت سے لئے گئے ہیں جو مینا کماری نے اپنی شاہکار فلم ''پاکیزہ‘‘ میں گایا۔ وہ اپنے مداحوں سے یہ کڑوی سچائی بیان کرتی ہیں کہ انہی لوگوں نے (آپ جانتے ہیں کہ اشارہ کس طرف تھا؟) دوبارہ لکھتا ہوں کہ انہی لوگوں نے میرا دوپٹہ چھین لیا ہے۔ دوپٹہ ہماری ثقافت میں شرم و حیا کی نشانی ہے‘ محض کپڑے کی ایک دھجی نہیں۔فنکار کے فن کی داد تو مناسب ہے اور جائز بھی مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ اپنی حدود سے باہر نکل کر اُسے کوئی نازیبا بات کہیں اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اُس بے چاری کا دوپٹہ ہی چھین لیں۔ یہ دست درازی قابل مذمت ہے اور اگر اس کا ارتکاب برطانوی/ یو رپی سرزمین پر ہو تو قابلِ دست اندازی پولیس ہے۔ آج اگر مینا کماری زندہ ہوتیں اور پاکستان کے عام شہریوں میں سے ایک ہوتیں اور ہم ان سے پوچھتے کہ بتائو بی بی ‘ کس حال میں ہو؟ آپ کو اُس برُے حال میں کس نے پہنچایا؟ آپ کو کس سرکاری حکمت عملی نے رزق سے ‘تعلیم سے‘ علاج سے‘ حفاظت سے‘امن و امان سے‘چادر و چار دیواری سے محروم کیا؟ کیا آپ شناخت پیریڈ میں مجرموں کو پہچان سکتی ہیں؟ تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک لمحہ کے توقف کے بغیر مینا کماری جانے پہچانے مجرموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتیں اور بار بار کہتیں کہ انہی لوگوں نے ...۔ وہ فریاد کرتیں کہ مجرموں کو سزا دی جائے اور اُن کے ساتھ انصاف کیا جائے؟ آج جب حزب مخالف کی کئی سیاسی جماعتیں (خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) پاکستان جمہوری تحریک کے پرچم تلے میدانِ عمل میں اُتری ہیں تو پاکستان کے کروڑوں لوگ خصوصاً محنت کش اور متوسط طبقے کے لوگ انہیں دیکھ کر اوران کی باتیں سن کر بے ساختہ وہی الفاظ تحت الفظ میں ادا کر رہے ہیں (یا آنے والے دنوں میں کسی مرحلہ پر ادا کریں گے) جو مینا کماری کے گائے ہوئے گیت کے پہلے مصرع میں سنائی دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی فاش غلطیوں سے انکار ممکن نہیں‘ مہنگائی میں دو گنا تگنا اضافہ اور دس ارب ڈالر کا مزید غیر ملکی قرض لینا ‘ دوائیوں کی قیمتوں میں تین سو فیصد اضافہ کی اجازت دینا) افراط زر کی روک تھام میں ناکامی‘ مقامی اور بلدیاتی حکومتوں کے نظام کو عملی شکل دینے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب‘پولیس‘نظام انصاف اور محصولات کو عوام دوست بنانے میں ناکامی۔ اصلاح احوال کیلئے ضروری ہے کہ ان فاش غلطیوں اور ناکامیوں کو دیانتداری سے تسلیم کر لیا جائے۔ 
یہ تو تھا سکے کا ایک رُخ۔ اب آپ دُوسرا رُخ دیکھیں اور وہ ہے APC میں شرکت کرنے والے اور جمہوری تحریک چلانے والے اور موجودہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے (جلسے جلوسوں کی شکل میں) جدوجہد کرنے والے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہی لوگ جنہوں نے ہمیں اس حال میں پہنچایا۔ وہ پہلے قوم کے سر سے دوپٹہ اُتار چکے ہیں اور اب لوٹ مار کرنے والوں کی حریفانہ نظریں ہمارے بچے کھچے کپڑوں پر جمی ہوئی ہیں۔انہوں نے باری باری اور کبھی مل کر ہمارے سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘سماجی اور عدالتی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا۔ انگریز کی چھوڑی ہوئی میراث مثلاً تعلیم ‘علاج اور انصاف کا نظام‘ سول سروس کی فرض شناسی اور دیانتداری کو خوب سے خوب تر کی بجائے اپنی ناقابلِ تصور کرپشن‘ اقربا پروری‘ قانون اور ضابطہ کی پامالی‘ من مانی اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے سے اتنا مسخ کر دیا کہ اب ہمیں برُی طرح ٹوٹ جانے والے آئینے میں اپنا وہ چہرہ بھی نظر نہیں آتا جس کی برکت سے ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزادی حاصل کی تھی۔ پہاڑوں سے اُونچی مشکلات کو عبور کر کے‘ تمام توقعات او رپیش گوئیوں کے برعکس۔ برائے مہربانی آپ خود سوچیں‘ اگر ہمارے اخلاقی مرتبے‘ ہمارے سماجی اور سیاسی شعور‘ ہماری قوت اُخوت عوام‘ہمارے قومی جذبے‘ ہماری تنظیم اور یگانگت کا وہ حال ہوتا جو اب ہے تو کیا ہم آزادی حاصل کر سکتے تھے؟ بلندی سے پستی کا سفر طے ہوا تو کیونکر؟ انہی لوگوں کے طفیل جنہوں نے قوم کو اُس Slide پر بٹھا دیا ۔
پچاس کی دہائی میں جب کالم نگار نے علم سیاسیاست کا مطالعہ شروع کیا(پہلے گورنمنٹ کالج لائل پور میں اور پھر مرے کالج سیالکوٹ میں) تو اُس کی ابجد یہ تھی کہ جمہوریت کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کا وجود اور کردار۔ سیاسی جماعتوں کا یہ حق ہے کہ وہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کیلئے جلسے کریں اور جلوس نکالیں مگر یہ حق عوام کا بھی ہے کہ وہ پوچھیں کہ آپ تو پہلے بھی برسر اقتدار رہے ہیں‘ہمار اآپ سے پرانا تعارف ہے‘اگر آپ پھر تخت نشین ہوئے تو آپ کون سی حکمت عملی اپنائیں گے کہ آٹا‘ دال‘ چاول‘ چینی‘ پٹرول اور دوسری اشیائے ضرورت سستی ہو جائیں؟ افراطِ زر ختم نہیں تو آدھی رہ جائے۔کروڑوں نوجوانوں کو روزگار ملے اور ہم فلاحی مملکت کے قیام کی طرف چند قدم اُٹھائیں۔
آپ جانتے ہیں کہ آپ کو اس کا جواب نفی میں یا خاموشی میں ملے گا۔ حزب مخالف (حزب اقتدار کی طرح) تہی دامن ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تو پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے وزیر خزانہ (حفیظ شیخ) کو اپنی کابینہ میں شامل کر کے اپنی وہ خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی گاڑی چلائی جو اسد عمر سے نہ چلتی تھی۔ مسلم لیگ (ن) بتائے کہ کیا وہ اسحاق ڈار کو (جھاڑ پونچھ کر) پھر ہمارے اُوپر مسلط کر کے چین کی بانسری بجائے گی ۔ اب حزب ِمخالف کرپشن کے ناسور سے بھرے ہوئے سر پر کفن باندھ کر پھر میدان میں اُتر آئی ہے۔ سانحہ ساہیوال ہو یا سانحہ ماڈل ٹائون‘ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ مجرموں کو سزا تو کیا ایک روپیہ جرمانہ بھی نہیں ہوا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کے بلند بانگ نعروں اور میاں نواز شریف کی APC میں ولولہ انگیز تقریر کے شور میں ہمیں رانا ثنا اللہ صاحب کی یہ سرگوشی سنائی نہیں دیتی جو ہم سے یہ سوال کر رہی ہے کہ (بقول اقبال) کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟آتش نمرود ہے کہ بدستور بھڑک رہی ہے۔ بھڑکتی ہوئی آگ اور آگ بجھانے والوں میں کبھی دوستی نہیں ہو سکتی۔ آج ہماری آنکھوں کے سامنے عمران خان صاحب کی ناکامی نوشتہ دیوار بن چکی ہے مگر یہ فرد کی نہیں اُس فرسودہ اور عوام دشمن نظام کی ناکامی ہے جسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن۔ق۔ ش) نے پروان چڑھایا۔ وقت آگیا ہے کہ چہروں کی بجائے نظام کو تبدیل کیا جائے‘ سٹیل مل کے مزدوروں کو اُس کا مالک بنایا دیا جائے۔ نیو یارک میں سالانہ کروڑوں ڈالر کمانے والے ہوٹل کو نجی ملکیت میں نہ دیا جائے۔ اسلام آباد میں وسط اکتوبر میں مظاہرہ کرنے والی ہزاروں لیڈی ہیلتھ وزٹرزکے جائز مطالبات تسلیم کئے جائیں۔لاکھوں ایکڑ غیر آبادزمین کاشتکاروں میں مفت تقسیم کر دی جائے۔اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے اختیارات کی اکثریت ضلعی حکومتوں‘ تحصیلوں‘یونین کونسلوں اور شہری کارپوریشنز کو دیئے جائیں۔ اقتدار اور اختیار عوام کو دے دیں‘ وہ اپنا پیارا ملک خود چلالیں گے۔ وہ اپنی فصل خود اُگائیں گے۔ وہ اپنی حفاظت بھی خود کرلیں گے۔ وہ اپنے پیارے گھر کو بھی صاف کر لیں گے۔ وہ اربوں درخت بھی اُگالیں گے اور پھر ان کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے جس نے اُنہیں آزادی کی وہ نعمت دی جس کے لیے کشمیر‘ کردستان اور فلسطین میں رہنے والے ہماری طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ مسائل بے شمار مگر حل صرف ایک اور وہ انگریزی کے پانچ الفاظ ہیں: Give power to my People

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں