سلطانی جمہور

سوسال پہلے اقبال نے دیکھ لیا تھا کہ اُفق پر جو روشنی نظر آرہی ہے وہ سلطانیٔ جمہور کے اُبھرتے ہوئے سورج کی وجہ سے ہے۔ سورج کو طلوع ہونے کیلئے ہمارے تعاون یا حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہوتی‘ وہ تو قانونِ قدرت کے تحت طلوع ہو کر رہے گا۔ اس کارروائی میں انسانوں کا کیا کردار ہے؟ محض تماشائی ‘ مگر براہِ مہربانی آپ تماشائی بن جانے پر قناعت نہ کریں۔ اقبالؔ نے ہمیں مخاطب کر کے کہا ہے کہ آپ کو جو نقش کہن نظر آئے اُسے مٹا دیں تاکہ سورج جہانِ تازہ پر طلوع ہو۔ وہی جہان تازہ جو بقول اقبال افکارِ تازہ سے پیدا ہوتا ہے۔ سنگ و خشت سے ہر گز نہیں۔ ابھی دو سو سال بھی نہیں گزرے جب برطانیہ میں جمہور کا حق رائے دہندگی تسلیم کیا گیا‘ مگر عوام کے تمام طبقات کو ووٹ ڈالنے کا حق دیئے جانے میں تقریباً ایک سو سال لگ گئے۔ عورتوں کی باری سب سے بعد میں آئی۔ پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنے میں اُنہیں مزید انتظار کرنا پڑا۔ گزشتہ صدی کی 60 کی دہائی میں پارلیمان کے ایوان بالا ( House of Lords) میں پہلی خاتون کو Life peerکا اعزاز ملا۔ بیسویں صدی نے ختم ہونے سے پہلے ایک خاتون کو بطور برطانوی وزیراعظم دیکھا‘ اگلی صدی شروع ہوئی توڈاوئنگ سٹریٹ کے مکان نمبر10 کی مکین ایک اور خاتون بنی۔ یہ ہے تاریخی عمل۔ قدم بہ قدم‘ منزل بہ منزل ‘ بالکل اُسی طرح جیسے ہم بلند مقامات کی طرف سیڑھی لگا کر چڑھتے ہیں۔ کل تک بچیوں کو پرائمری سکول جانے کی اجازت نہ تھی‘ آج وہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں بھی پڑھاتی ہیں۔ 
اب آیئے اپنے وطنِ عزیز کی طرف۔ اسے نہ انگریزوں کی سازش نے بنایا‘ نہ سرکاری افسروں نے‘ نہ فوج نے اور نہ کسی سیاسی جماعت نے‘ اسے ایک زبردست عوامی تحریک نے بنایا جس کی قیادت قائداعظم نے ناقابلِ تصور ہمت‘ حوصلہ ‘ تدبر‘دیانت‘ اصول پرستی اور بہترین حکمت عملی سے کی۔ اگر مسلم لیگ ایک عوامی سیاسی جماعت ہوتی تو وہ قیام پاکستان کے چار سالوں کے اندر ہی برُی طرح ناکام ہو کر ایک سرکاری افسر کو ترقی دے کر پہلے وزیرخزانہ اور پھر پاکستان کا دوسرا سربراہ مملکت (گورنر جنرل) بنانے پر مجبور نہ ہو جاتی۔ اس شخص کا نام ملک غلام محمد تھا۔ اس نے ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی کو غیر قانونی طور پر توڑا اور چیف جسٹس منیر سے قانونی اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا۔ اس کی جگہ اسکندر مرزا نے لی۔ ان دونوں نے ہمارے ملک میں نوزائیدہ جمہوری عمل کو اتنا نقصان پہنچایا کہ وہ جانبر نہ ہوسکا۔ جنرل ایوب خان کا لگایا ہوا مارشل لا دس برس نافذ رہا‘ وہ جاتے ہوئے یحییٰ خان کو اپنی کرسی پر بٹھا گئے ‘ جو اُن کے اپنے بنائے ہوئے آئین کی بھی خلاف ورزی تھی۔ پھر بھٹو صاحب پنجاب میں عوامی تائید کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے مگر وہ تخت نشین تب ہوئے جب ملک ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔بھٹو صاحب کوئے یار (اور اقتدار کے ایوان) سے نکلے تو (بقول فیض) سوئے دار چلے گئے۔پھر ضیا الحق کا طویل آمرانہ دور آیا۔ میاں نواز شریف او ربے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے طفیل ہمیں پرویز مشرف کی صورت میں چوتھی مرتبہ غیر جمہوری حکومت کے تجربے سے گزرنا پڑا۔
پاکستان بنانے کے صرف دومقاصد تھے‘ پہلا سلطانی جمہور اور دوسرا فلاحی مملکت کا قیام۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارا ملک بنے 23 سال گزر گئے تو پہلا عام انتخاب ہوا۔ 1970ء میں ہونے والے انتخابات کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ صاف ستھرے اور غیر متنازعہ تھے۔ بعد میں ہونے والے ہر انتخاب پر دھاندلی اور مداخلت کے الزامات عائد کئے گئے۔ اب رہی عوامی نمائندگی تومحنت کشوں کا تو ذکر ہی کیا‘ متوسط طبقے کے افراد بھی اسمبلی کے رکن نہیں بن سکتے۔ عرصہ ہوا کہ انتخابی امیدوار ہونے کیلئے کروڑ پتی ہونا ضروری ہے۔ اب معیار بلند ہوتا ہوا ارب پتی ہونے تک جاپہنچا ہے۔ برسراقتدار آنے والی جماعت کو کل ووٹوں میں سے اکثریت تو کجا ‘ ایک چوتھائی ووٹ بھی نہیں ملتے۔ اسمبلی میں ملنے والی نشستوں کا ملنے والے کل ووٹوں سے کوئی تناسب نہیں ہوتا۔ اسمبلی وفاقی ہو یا صوبائی‘ اس کا کام ہے قانون سازی اور حکومت کی رہنمائی‘ہماری ہر اسمبلی قانون سازی کے علاوہ ہر وہ کام کرنے میں گہری دلچسپی لیتی ہے جو اس کے اراکین کو مالی فائدہ دیتے ہوں یا دے سکتے ہوں ‘مگرسلطانیٔ جمہور نہ خلا میں جنم لے سکتا ہے نہ نشوونما پا سکتا ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں پیوست ہونی چاہئیں جس کیلئے ضروری شرائط یہ ہیں: قانون کی حکمرانی‘ آزاد ‘ ذمہ دار اور قابلِ اعتبار پریس‘ دیانتدار اور فرض شناس عدلیہ‘مقامی حکومتیں ‘وہ انتخابی نظام جو محنت کشوں اور متوسط طبقے کے افراد کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے مواقع دے‘ قومی دولت کی منصفانہ تقسیم ‘ خواندگی کی بلند شرح‘ پولیس کا وہ نظام جو سرکاری تسلط اورسیاسی مداخلت سے مکمل طور پر آزاد ہو‘رواداری اور بقائے باہمی کی مستحکم روایات‘ جاندار اور توانا سول سوسائٹی اور بنیادی انسانی حقوق کا عملی احترام۔
امریکہ کی مثال قابلِ توجہ ہے۔ ایک تو وہاں دنیا کا بہترین وفاقی نظام ہے۔ گنتی کے چند اختیارات حکومت کے پاس ہیں اور باقی سارے اختیارات ریاستوں (صوبوں) کے پاس‘ جو داخلی طور پر بالکل خود مختار ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کا نظامِ انصاف اور فوجداری قوانین بھی اپنے اپنے ہیں۔ کانگریس (پارلیمان) کے ایوانِ زیریں کا نام ہے ایوانِ نمائندگان کے انتخابات ہر دو سال بعد ہوتے ہیں۔ ایوان بالا (Senate) کے ایک تہائی اراکین کو بھی ہر دو سال کے بعد چنا جاتا ہے۔بدقسمتی سے آج ہمارا سیاسی منظر نامہ لق و دق صحرا کا منظر پیش کرتا ہے۔ سلیم صافی صاحب کے مطابق حکومت اور برسر اقتدار پارٹی جعلی نکلی ‘مگر حزب مخالف بھی کچھ کم جعلی نہیں۔ میں صافی صاحب سے دوستانہ اختلاف کرتے ہوئے اپنا اختلافی نوٹ (Note of Dissent) لکھوں گا۔ وہ خود صحافی ہیں‘ اُنہیں تیز ہوا کے سامنے چراغ لے کر چلنے والے بہادر اور باضمیر صحافیوں کا اچھی طرح علم ہے۔ وہ حزبِ مخالف کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ماہ ستمبر کے شروع میں پاکستان بار کونسل نے اپنے اجلاس میں سیاسی جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی اور جو اعلامیہ جاری کیا وہ سو فیصد سیاسی تھا۔ آپ و کلا کو بھی حزبِ مخالف کے قافلے کا ہر اول دستہ کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ اس سال جولائی میں 74 ٹریڈ یونین تنظیموں کا نمائندہ اجلاس منعقد ہوا‘ اُنہوں نے مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئے مطالبات پر مشتمل اعلامیہ جاری کیا۔ چند مطالبات میں اتنا وزن تھا کہ وزیر ریلوے کو ایک دن کے اندر تسلیم کرنا پڑے۔ ستمبر میں بھٹہ مزدوروں کی نمائندہ تنظیم کا ایک یادگار اجلاس ہوا‘ جس میں سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کو سنگ میل بنا کر مزوروں کی جدوجہد کو آگے لے جانے کا عہد کیا گیا‘ جس میں چند محنت کش رہنمائوں نے اپنی داد رسی کیلئے عدالت عالیہ کی' زنجیر جہانگیری‘ کو کامیابی سے ہلایا تھا۔
کیا یہ بہار کے آثار نہیں؟ کیا ہم نہیں دیکھ سکتے کہ شگوفے پھوٹ رہے ہیں؟ شعر و ادب کی دنیا میں نہ فیض رہے اور نہ فراز۔ نہ ''خدا کی بستی‘‘ لکھنے والے شوکت صدیقی۔ دوسری طرف محنت کش بھی اپنے پرُانے رہنمائوں (حیدر بخش جتوئی‘ دادا امیر حیدر‘ سی آر اسلم‘ قسور گردیزی‘ میجر اسحاق محمد‘ سو بھو چندانی) سے محروم ہو گئے اور کوئی جانے والوں کا خلا پرُ نہ کر سکا تو مقام ِحیرت نہیں۔ ہمیں اس صدمے کو برداشت کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم سب جس سحر کا انتظار کر رہے ہیں اور اُفق کی طرف دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہ بقول اقبال‘ خونِ صد ہزار انجم سے پیدا ہوتی ہے اور ہو کر رہے گی۔ یہی قانون قدرت ہے‘ یہی انسانی تاریخ کا وعدہ ہے‘ مگر تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم جاگیں گے تو سویرا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں