تاریخ اور جغرافیہ کا احترام

وہ لوگ جو محب الوطن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اُنہیں اقبالؔ نے بتایا اور سمجھایا تھا کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ اقبال ہمیں محبت اور اُس کے آداب سکھانے کے کٹھن سفر پر نکلے تو ا نہوں نے بجا طور پرفرمایا کہ اس کی شروعات ادب اور احترام سے ہوتی ہے۔ والدین اور بہن بھائیوں کا‘ رشتہ داروں کا‘ دوستوں کا‘ اخلاقی اقدار کا‘ اُصولوں کا‘ سچائی کا‘ حق و انصاف کا‘ کئے گئے وعدوں کا‘ اچھی روایتوں کا‘ مگر سب سے زیادہ تاریخ اور جغرافیہ کا۔ بدقسمتی سے ہماری سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ ہم نہ ادب کے معنی جانتے ہیں اور نہ احترام کے۔ چالیس کی دہائی میں انڈین نیشنل کانفرنس نے برصغیر ہند کے تاریخی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے ہندوستان کووفاق بنانے اور مسلم اکثریتی صوبوں کو مکمل خود مختاری دینے سے انکار کیا تو ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ 24 سال گزرے تو پاکستان کے حکمران طبقہ نے مشرقی پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ کے حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو پاکستان دولخت ہو گیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہم اس عظیم سانحہ سے سبق سیکھتے۔ اُردو شاعری اس آہ و بکار سے بھری پڑی ہے جس میں آرزوں کے خاک میں مل جانے پر‘ اُمیدوں کے غنچے مرجھا جانے پر‘ڈالی کے شجر سے ٹوٹ کر بکھر جانے پر ہمارا دکھڑا ایک نوحے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ میں ایک وکیل ہوں اور کوئی وکیل اپنا مقدمہ شہادت کے بغیر پیش نہیں کرتا۔ ہمارے مومن نہ ہونے کا سب سے بڑا اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ابھی یہ کالم نگار بلوچستا ن اور وزیرستان میں دہشت گردی کے نہ ختم ہونے اور وہاں پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت کے صدمے سے نہ سنبھلا تھا کہ یہ خبر ملی کہ ہماری حکومت گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے اور آگے چل کر قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کیلئے ضروری قانونی اقدامات کرنے پر غور کر رہی ہے۔
گلگت کا ذکر چھڑا تو کالم نگار کے دماغ میں گویا اک دبستاں کھل گیا۔ 80 ء کی دہائی کے کسی آخری سال میری بیوی اور میں ایک تقریب میں مہمان بنے۔ میزبان تھا لندن میں پاکستان کا سفارت خانہ۔ میری بیوی کا بھلا ہو کہ اُس نے میرا تعارف ایک انگریز خاتون سے کرایا‘ نام تھا مارگریٹ روز میری برائون۔ میں نے رواجی سوال کیا کہ کیا آپ کے شوہر بھی آپ کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ وہ چند برس پہلے حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پا گئے حالانکہ وہ لڑکپن سے بہت اچھے کھلاڑی تھی اور ورزش کے رسیا‘کوہ پیمائی اور پابندی سے پولو کھیلنے والے۔ میر ا دوسرا سوال تھا کہ کیا آپ نے میرا آبائی ملک دیکھا ہے؟ جواب تھا کہ میں نے کراچی میں کئی برس برطانوی ہائی کمیشن میں ملازمت کی ہے اور میری وہیں میجر برائون سے 1957 ء میں شادی ہوئی۔ تیسرا اور آخری سوال تھاکہ میجر برائون وہاں کیا کر رہے تھے؟ خاتون نے میری لاعلمی پر رحم کھاتے ہوئے جو مجھے بتایا وہ حقیقت کم اور افسانہ زیادہ تھامگر یقین جانیں اس معزز خاتون نے مجھے جو کچھ بتایا وہ سو فیصد سچ تھا۔ میں بعد ازاں اس کی مستند ذرائع سے تصدیق نہ بھی کرتا تو مجھے اُن کی صداقت پر پورا بھروسہ تھا۔
ولیم الیگزنڈربرائون نامی بچہ سکاٹ لینڈ کے ایک گائوں میں 13 دسمبر1922 ء کو پیدا ہوا۔ تعلیم ختم ہوئی تو وہ ہندوستان چلا گیا جہاں وہ برطانوی فوج میں شامل ہوا اور کمیشن افسر بنا۔ 1942 ء میں اُس کی تقرری گلگت میں ہوئی جہاں وہ ترقی کرتا ہوا میجر کے عہدے تک پہنچا۔ گلگت میں سات سالہ قیام کے دوران اُس نے وہاں کی تینوں زبانیں (شینا‘ بروشکی اور پشتو) سیکھ لیں۔ 1947 ء میں وہ گلگت سکائوٹس کا کمانڈر تھا۔ اب ایک نظر گلگت پر بھی ڈالتے ہیں‘ 1935ء تک ہندوستان پر راج کرنے والی برطانوی حکومت گلگت پر بلا شرکت غیرے قابض تھی۔ اس سال اُس نے یہ خطہ مہاراجہ کشمیر کو49 سال کی لیز پر دے دیا۔ یکم اگست1947 ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے بطور وائسرائے اس معاہدہ کو ختم کر کے گلگت کو ریاست جموں کشمیر میں ضم کر دیا۔ 26 اکتوبر کو بھارتی حکومت نے یہ متنازع بیان جاری کیا کہ مہاراجہ کشمیر (راجہ ہر ی سنگھ) نے اپنی ریاست کا بھارت سے الحاق کر دیا ہے۔ اگلے چار دن میجر برائون کیلئے شدید ذہنی کشمکش اور اضطراب میں گزرے۔ اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مہاراجہ سے وفاداری کا اپنا پیشہ ورانہ حلف توڑ کر مہاراجہ کشمیر کے خلاف علم بغاوت بلند کر دے۔ اُس نے اپنے دو مددگاروں کیپٹن Mathiesonاور صوبیدار میجر بابر خان اور سکائوٹس کہلانے والے فوجی دستے کے تعاون سے مہاراجہ کشمیر کے مقامی گورنرBrigadier Ghansara Singh کو 31 اکتوبر کو اپنی حراست میں لے لیا۔ معزول شدہ گورنر کا بھارتی حکومت کے ساتھ رابطہ منقطع کر کے حکومت پاکستان کو یہ خوش خبری سنائی کہ اب گلگت میں سکائوٹس اپنے پرچم کے ساتھ پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا دیا گیاہے۔ دو نومبر کو گلگت کی آزاد مملکت کا اعلان ہوا۔ عبوری حکومت تشکیل دی گئی‘ پاکستان سے فوجی مدد اور سرکاری نمائندہ (پولیٹیکل ایجنٹ) کی تعیناتی کی درخواست دی گئی۔ پختونخوا کے انگریز گورنر George Cunningham کا مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ محمد عالم خان 16 نومبر کو بعد از خرابیٔ بسیار گلگت پہنچ جانے میں کامیاب رہا۔ 18 نومبر کو پاکستان سے الحاق کے معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ یوں 16 روزہ عبوری حکومت اور آزاد گلگت کی ریاست دونوں اپنے اختتام تک پہنچے۔ میجر برائون13 جنوری1947 ء تک گلگت سکائوٹس کا کمانڈر رہا اور اُس کے بعد فرنٹیئر کا نسٹیبلری کا افسر۔ وہ 1959 ء تک پاکستان میں سرحدی فوجی دستوں کے افسر کے طو رپر فرائض سرانجام دینے کے بعد فوجی ملازمت سے ریٹائر ہو گیا۔ پختونخوا کے انگریز گورنر کی سفارش پر ملکہ برطانیہ نے اُسے MBE کا خطاب بطورِ عزت افزائی دیا۔ اب اُسی گورنر کی سفارش پھر کام آئی‘ میجر برائون کو بڑی برطانوی کمپنی (ICI ) میں اچھی ملازمت مل گئی مگر بدقسمتی سے اُسے کلکتہ بھیج دیا گیا جہاں گھات لگائے بیٹھے حملہ آوروں نے اُسے رات سڑک پر چلتے حملہ کر کے اتنا شدید زخمی کر دیا کہ اگر بروقت طبی مدد نہ ملتی تو وہ یقینا مر جاتا۔ جان بچی تو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ برطانیہ آگیا اور فرصت کے اوقات میں پاکستان میں کوہ پیمائی کرنے والوں‘ پولو کھیلنے والوں اور سیرو سیاحت کیلئے جانے والوں کی ذوق و شوق سے رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ اُس نے اپنی یادداشتوں کو ایک کتاب کی صورت میں بھی مرتب کیا۔
مارگریٹ کے شوہر کا تعارف ختم ہوا تو میں اُسے پاکستانی سفیر کے پاس لے گیا اور بتایا کہ گلگت بلتستان پر پاکستانی پرچم اس خاتون کے مرحوم شوہر کی بے مثال جرأت اور سرفروشی کی وجہ سے لہرایا گیا۔ اُنہوں نے حکومت پاکستان سے میجر برائون کی بعد از وفات عزت افزائی کیلئے رابطہ کرنے کا وعدہ یقینا پورا کیا ہوگا۔ کالم نگار نے پرندے کے پَر والا اپنا قلم سیاہی کی دوات میں ڈبویا اور اُس وقت پاکستان کے صدر فاروق لغاری کو خط لکھا اور اُنہیں میجر برائون کے کارنامے کے بارے میں بتایا۔ لغاری صاحب ایچیسن کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے جہاں میں 1964 ء میں پڑھاتا تھا اور اس کا لغاری صاحب جیسے وضع دار آدمی کو بڑا لحاظ تھا۔ اُنہوں نے 23 مارچ1994 ء کو میجر برائون کی بیوہ کو اسلام آباد بلا کر ستارئہ پاکستان کا اعزاز دیا‘ جس کیلئے میں حکومت پاکستان کا شکر گزار ہوں۔ ایک ضروری بات تو رہ گئی۔ میجر برائون کی قبر کے کتبہ پر وہی نشان (Head of Ibex)کندہ ہے جو گلگت سکائوٹس کے پرچم کی زینت بنتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں