پسینہ خشک یا خون خشک

ریاستِ مدینہ ہو یا اس سے ہزار درجہ کم ترمغربی ممالک‘ فلاحی مملکت میں محنت مزدوری کرنے والے کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُجرت مل جاتی ہے۔ اگر فسطائی اور عوام دشمن مملکت ہو (جیسے مودی کا بھارت‘ ہٹلر کا جرمنی‘ مسولینی کا اٹلی‘ فرانکو کا سپین‘ ٹرمپ کا امریکہ وغیرہا ) تو وہاں‘بقول اقبال بندئہ مزدور کے اوقات اتنے تلخ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اُجرت‘ خون پسینے کی اُجرت مانگنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑجائیں۔ سوکھا ہوا حلق اور رگوں میں دوڑنے والا خون خوف کے مارے خشک ہو جاتا ہے۔ پاکستانی اساتذہ ہوں اور وہ اپنی فریاد لے کر وزیراعظم کے گھر کی طرف احتجاجی مارچ شروع کریں تو اشک آو ر گیس اور پولیس کا اندھا دھند لاٹھی چارج اُن کا وہ حق چھین لیتا ہے جو اُنہیں ہمارا آئین دیتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرزہوں تو وہ بھی خراب موسم کے باوجود چند گھنٹے یا چند دن نہیں بلکہ ہفتوں کے حساب سے دارالحکومت کے ایک معروف چوک میں دھرنا دیں یا کراچی کے وہ بدقسمت لوگ جو بندرگاہ کے قریب رہتے ہیں تو اور سویا بین لانے والے جہازوں سے نکلنے والی مضر گیس کے جان لیوا اثرات سے مارے جاتے ہیں‘جیسے وہ سرزمین پاک کے محترم باشندے نہ ہوں بلکہ حقیر کیڑے مکوڑے اور پتنگے ہوں۔
کراچی میں ابدی نیند سونے والے قائد کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں کی جس پانچویں بڑی مملکت کو معرضِ وجود میں لا رہے ہیں وہاں اتنے سانحے رونما ہوں گے کہ گنتی کے لیے ہاتھوں کی انگلیاں کم پڑ جائیں گی۔ سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی سے لے کرسانحۂ ماڈل ٹائون (14 بے گناہوں کی شہادت) اور سانحۂ ساہیوال تک۔ رائو انوارسے لے کر عزیر بلوچ تک جو لیاری میں دندناتے ہوئے جرائم پیشہ ٹولے کا سربراہ تھا۔ فارسی کے ایک محاورے کی مطابق زخم زیادہ ہیں اور روئی کم۔ پنبہ کجا کجا نہم۔ مڑ کر دیکھوں تو مجھے چھ ہزار میل دور کروڑوں اہلِ وطن بے حد دکھی اور پریشان حال نظر آتے ہیں۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ افراطِ زر‘ لاقانونیت‘ امن و انصاف اور مساوات کا فقدان اور چار سو پھیلی ہوئی جہالت کا گھپ اندھیرا‘ ہر قسم کی بیماریوں کا عذاب۔ تمام سیاسی جماعتوں کی سو فیصد توجہ اور کاوش اقتدار کی جنگ تک محدود ہے‘ جو گھوڑے پر سوار ہے وہ شہ سواری کی ابجد نہ جاننے کے باوجود اور باگ پر ہاتھ نہ ہونے کے باوجود پابہ رَکاب رہنا چاہتا ہے اور اس کاوش میں کامیابی کیلئے ہر وہ بات کہہ رہا ہے جو اُسے نہیں کہنی چاہئے۔ ہر وہ قدم اُٹھا رہا ہے جو اُسے ہر گز نہیں اُٹھانا چاہئے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اربوں ڈالروں کی لوٹ کھسوٹ‘ مار دھاڑ‘ منی لانڈرنگ اور رشوت ستانی کے باوجود کمال ڈھٹائی اور بے مثال بے شرمی سے ایک دھیلا ایک پائی کی کرپشن نہیں مانتے اور باآواز بلند مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں پھر اقتدار کے گھوڑے پر بٹھایا جاہئے۔ان سے تو سپین کا بادشاہ ہی ہزار درجہ بہتر ہے۔
انگریزی محاورے کے مطابق ایک طرف اُونچی سنگلاخ ناقابلِ تسخیر چٹان ہے اور دوسری طرف گہرا سمندر جو مگر مچھ اور شارک مچھلیوں سے اَٰٹا ہوا ہے۔ اس وقت ہمارا اُفق چاہے کتنا تاریک کیوں نہ ہو ہمیں پھر بھی کئی جگمگاتے ہوئے ستارے نظر آتے ہیں۔ بہت سے روشن دماغ لوگ اور بے داغ شہرت کے مالک سابق جج صاحبان‘ سابق اعلیٰ افسران‘ عوام دوست ماہرینِ معیشت‘ دفاعی امور کے ماہرین‘ سابق سفیر‘ماہرین قانون اور تمام سیاسی جماعتوں کی دوسری صف کے دیانتدار اور سیاسی گرو ہ بندی سے اُوپر اُٹھ کر قومی مفاد کی خاطر مل کر کام کرنے پر کمربستہ سیاستدان۔
اس وقت ہم ایک ایسی بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنے میں تمام سیاسی جماعتیں برُی طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ آیئے اب ہم مل کر سوچیں کہ ہماری نجات کا راستہ کیاہے؟ جائیں تو جائیں کہاں؟ واحد حل یہ ہے کہ ضروری انتخابی اصلاحات کرے‘ آزادانہ اور منصفانہ (Free and Fair) انتخاب کرائے جائیں‘ نیز وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب سے پہلے ہر سطح پر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جائے۔ گردشی قرضہ‘ مستقل خسارہ اور غیر ملکی قرض سے ہماری جان چھڑائی جائے اور غیر معمولی نگہداشت کے وارڈ میں جاں بلب مریض معیشت کو اشد ضروری اصلاحات کی آکسیجن دے کر اور انتقالِ خون اور دوسرے تمام ضروری جتن کر کے بچا یا جائے۔جو لوگ اس بے حد نازک وقت میں صداقت‘ عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ کر ہماری شکستہ صف‘ شکستہ دل اورگھپ اندھیرے میں بھٹکتی ہوئی قوم کی امامت کا بوجھ‘یہ پہاڑوں سے زیادہ وزنی بوجھ‘ اُٹھانے کیلئے آگے بڑھیں اُنہیں اپنے دینی فرائض کی ادائیگی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایک کتاب اپنے سرہانے رکھ کر سونا چاہئے اور جب جاگیں تو اُس کے 253 سے لے کر 261 تک صفحات روزانہ پڑھ کر اپنے قائدانہ فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ اِن نو صفحات پر اُس خطبہ کا مکمل متن درج ہے جو نبی رحمتﷺ نے 9 ذی الحج 10 ہجری کو میدان ِعرفات میں ارشاد فرمایا۔ سارا خطبہ تو میرے قارئین خود پڑھیں اور بار بار پڑھیں‘ تاہم اس کالم میں صفحہ 255 کی آخر میں لکھی ہوئی سطور کو نقل کر کے قارئین کو مستفیض کیا جائے گا اور وہ الفاظ یہ ہیں‘میری بات سنو! زندگی پا جائو گے مگراس شرط کے ساتھ ''خبردار! ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔ خوب سمجھ لو! ایک دوسرے پہ باہم ظلم و ستم نہ کرنا‘‘۔مذکورہ بالا کتاب کا نام ہے '' اسلام اور بنیادی انسانی حقوق‘‘ جو میرے محترم دوست ڈاکٹر حافظ محمد اشرف صاحب نے سات برس پہلے بڑی تحقیق اور عالمانہ کاوش سے لکھی تھی۔ 
کالم نگار کی زندگی کے 70 برس علم سیاسیات پڑھتے پڑھاتے گزرے مگر ڈاکٹر حافظ اشرف صاحب نے اُس کے علم میں جو گراں قدر اضافہ کیا وہ احسان کا درجہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر حافظ اشرف صاحب نے تاریخ‘ سیاسیات‘ فلسفہ‘ عربی‘ اسلامیات اور قانون کی اسناد حاصل کیں اور گلاسکو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ حافظ قرآن ہونے کی گراں قدر خوبی کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنے ذہن کی پانچ سماجی علوم سے بھی آبیاری کی۔ میں بصدادب ڈاکٹر حافظ اشرف صاحب سے درخواست کروں گا کہ جب اسلام میں سود حرام ہے‘ جب اسلام جاگیر داری‘ سرمایہ داری اور مزارعت کی اجازت نہیں دیتا‘جب اسلام فلاحی مملکت‘ معاشی مساوات اور سماجی عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا چاہتا ہے تو مسلم دنیا میںان عظیم خوبیوں کو نافذ اور اختیار کرنے میں کیا امر مانع ہے؟مجھے فخر ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والوں میں ڈاکٹر اشرف صاحب جیسے عالم فاضل بھی شامل ہیں‘ بطور طالب علم اُن سے اور دوسرے علما سے بصد ادب یہ پوچھنے کی دیانتدارانہ درخواست کروں گا کہ وہ ان سوالوں کا جواب عنایت فرمائیں (1): اسلام اور اشتراکیت کے معاشی نظام بنیادی طور پر کیا فرق ہے؟ (2): کیا ہمارے موجودہ سنگین معاشی بحران کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام نہیں؟(3): وہ کون سی ٹھوس اصلاحات ہیں جو عوام دشمن جان لیوا امراض کا علاج کر سکتی ہیں؟ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اُنہیں عوام دوست اصلاحات کا مبارک نام دیں؟ مریض کو شفا سے غرض ہے نہ کہ دوا کے نام سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں